پہلے آتی تھی ہنسی


اتنا کچھ کہا اور ہر کہے کی نفی کی مگر ہم اس بارے میں اب کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ ماہ نیم شب اس سے متعلق ”یو ٹرن فلسفہ“ بگھار چکے ہیں اور ان کے مغبچے اس لایعنی ”دانشمندی“ کا دفاع کرنے میں بھی پوری طرح مصروف رہے۔ ہم نام نہاد این آر او بارے بھی بات کرنے والے نہیں ہیں چاہے اس کا اطلاق علیمہ خان کی دبئی والی جائیداد کو اسی طرح ریگولرائز کرنے پرہی کیوں نہ ہوتا ہو جیسے بنی گالہ کی جائیداد کو ریگولرائز کروانے کی اجازت دی گئی ہے۔

ہم ان شاندار استقبالی خیر مقدموں کا بھی ذکر کرنے والے نہیں جو ماہ نیم شب کے دیوانوں کی نگاہ میں، غیر ملکوں میں فقط انہیں کے چاند کے ہو رہے ہیں۔ ماہ نیم شب ابھی نہ امریکہ میں اترا ہے اور نہ فرانس برطانیہ میں طلوع ہوا ہے۔ استقبال تو وہاں بھی ہوں گے کیونکہ استقبال کیا جانا ایک پروٹوکول ہے جو دیا جاتا ہے۔ وہاں زیادہ دیا جاتا ہے، جن کے مفادات خاص طور پر تجارتی مفاد زیادہ ہوں جیسے چین، سعودی عرب، عرب امارات یا ملائشیا اور وہاں کم جن کے تجارتی مفادات کم ہوتے ہیں چاہے تزویراتی مفاد کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو۔

مگر ہم ماہ نیم شب کی اس دیوانگی کا ذکر کیے بنا نہیں رہ پائیں گے جس کے زیر اثر وہ جہاں بھی جاتا ہے بقول بلاول بھٹو زرداری کے ویسے ہی بولے چلے جاتا ہے جیسے دھرنے کے مقام پر دھرے کنٹینر پر چڑھ کر ”گل فشانی“ کیے جاتا تھا۔ اپنے ملک کو بدعنوان ترین کہہ کر کیا ثابت کرنا مقصود ہے کہ خبردار رہیے وہاں سرمایہ کاری نہ کیجیے گا آپ کو لوٹ کھائیں گے۔ وہاں کے اداروں پر اعتماد نہ کیجیے گا کہ ان کے کارندوں کی نگاہیں آپ کی کارکردگی کی بجائے آپ کی جیبوں پر ہوں گی۔

ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سٹرانگ روم کی چابی نواز شریف یا اس سے پہلے زرداری کے ہاتھ میں رہی ہو اور وہ رات کے اندھیروں میں ٹرک لا کر اس میں نوٹوں سے بھرے بکس بھرتے رہے ہوں اور ذاتی طیاروں میں لے جا کر باہر کے بینکوں میں جمع کراتے رہے ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ بدعنوانی کے ایک ہزار ایک طریقے ہیں۔ ملکوں سے زرمبادلہ کا روزانہ کی بنیاد پر فرار بھی ایک عام معاملہ ہے۔ مثال کے طور پر روس سے ہر ماہ تیس سے چالیس ارب ڈالر باہر منتقل ہو رہا ہے۔ اس عمل میں مقامی اور غیر ملکی بینک، آڈٹ کمپنیاں اور پتہ نہیں کون کون شامل ہوتے ہیں۔

کٹھ پتلی ماہ نیم شب کے حوالے سے کچھ عجیب و غریب مظاہر بھی دیکھنے سننے کو مل رہے ہیں۔ ہم نے پی پی کے جیالے اور نون لیگ کے مستانے دونوں ہی دیکھے ہیں، جن میں نوجوان لوگ ہوا کرتے تھے مگر ماہ نیم شب کے مستانے جوانوں کے علاوہ ادھیڑ عمر کے اور تاحتٰی کچھ بوڑھے کہلائے جانے کے قابل لوگ بھی ہیں جو اس کے ہر ایسے عمل کی توجیہہ پیش کرنے کو ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں جس کی توجیہہ عقلیت پسندی کی بجائے جذباتیت پر مبنی گفتگو سے ہی ممکن کر پاتے ہیں مثلا ”ایک اچھے بھلے سرجن نے میرا دل جلانے کو بار بار بلاول کو اس نام سے پکارا جو انہیں نابکار موجودہ وزیر برائے ریلوے نے دیا تھا، تا آنکہ مجھے جھلا کے اسے کہنا ہی پڑا کہ یہ کیا بیہودگی ہے، درست نام لو۔

میرا ہم عمر بلکہ ہم جماعت لمبی داڑھی والا ایک اور ڈاکٹر ہے جو ماہ نیم شب کے دوروں کی فوٹنگز نہ صرف شیئر کرتا ہے بلکہ تلقین بھی کرتا ہے کہ دیکھو اسے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔ ساتھ ہی غضب یہ کرتا ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود اور اوریا مقبول جان کے پروگراموں کی وڈیوز بھی بھیجتا ہے، دیکھنے کو۔ اندازہ کیجیے ماہ نیم شب کے معمر دیوانے کی تندہی کا۔

یہ بات میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ ماہ نیم شب ایک پاپولسٹ رہنما چاہے نہ سہی مگر انہوں نے طرائق وہی اختیار کیے جو پاپولسٹ رہنما استعمال کرتے ہیں۔ ان میں کرپشن کا واویلا لوگوں کی توجہ حاصل کرکے اقتدار میں آنے کا بہترین طریقہ ہوتا ہے۔ بدعنوانی کو ختم کرنے کی بات، اس سے پہلے کس کس فوجی آمر نے نہیں کی تھی۔ ایوب خان سے لے کر ضیا الحق تک نے مگر کیا کبھی کرپشن ختم ہوئی۔ اب لوگوں کو تاثر یہ دیا گیا ہے کہ میڈیا بہت آزاد ہے۔ سب پر عیاں ہو رہا ہے کہ ملک کو کس کس نے لوٹا، ساتھ ہی یہ بات کرنے والے کہتے ہیں مگر مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔

مجھے الٹا ماہ نیم شب اور اس کی حکومت کا دفاع کرنا پڑ جاتا ہے۔ میں بتاتا ہوں کہ مہنگائی موجودہ حکومت نے نہیں کی بلکہ گذشتہ حکومتوں نے اس قدر زیادہ مالی رعایتیں ( subsidies ) فراہم کرکے بازار نسبتاً سستا ہونے کا غلط تاثر دیا ہوا تھا۔ موجودہ حکومت مشکل مالی حالات کے سبب ایسی رعایتیں دینے کے قابل نہیں۔ مالی رعایات یعنی subsidies دیے جانے سے بڑے بڑے ملک بیٹھ جاتے ہیں اور نظریے غلط ثابت ہونے لگتے ہیں۔

اس کی مثال سابق سوویت یونین رہا جہاں لوگوں کو ہر قدم پر رعایات دی جاتی تھیں۔ اس طرح ملک کا خزانہ بری طرح متاثر ہوا تھا۔ ملک کو کھولنا پڑا تھا۔ باہر کی دنیا کے ساتھ کاروباری تعلقات بنانے پڑے تھے۔ جونہی مالی رعایات کم کی گئیں طوفان آ گیا تھا۔ بالآخر سوویت یونین ہی ٹوٹ گیا۔ یوں پاکستان کی موجودہ حکومت کو مہنگائی کے طوفان کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

چوک میں اگر آپ اپنے میلے کپڑے دھوئیں گے تو لوگ آپ کے ساتھ مل کر آپ کے کپڑے دھونے میں آپ کی مدد نہیں کرنے لگیں گے بلکہ آپ کا تماشا دیکھیں گے۔ ڈیم بنانے کے لیے آپ چندہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ ملک کا منصف اعلٰی دوسرے ملک میں چندہ جمع کرنے کی مہم پر نکلے اور نجی چینل اس کا مفت اشتہار دیں۔

رات میرا ہم نام مجاہد خٹک جو اگرچہ دکاندار ہے مگر سیاسی طور پر باشعور مجھ سے پوچھنے لگا کہ یہاں یعنی روس کے سپریم کورٹ کا کوئی اور نام ہے وہ کیا ہے۔ میں نے بتایا آئینی عدالت، تو اس نے مجھ سے پوچھا، کیا اس کے منصف اعلٰی کو آپ نے کسی عوامی یا نجی تقریب میں جاتے سنا۔ ظاہر ہے میں نے کہا کہ نہیں۔ پھر پوچھا کہ یہاں یعنی روس کی فوج کے سربراہ کا نام آپ کو معلوم ہے۔ ظاہر ہے میں نے کہا کہ مجھے اس کا نام جاننے کی کیا ضرورت ہے۔ جنگ ہوگی تو معلوم ہو جائے گا اس کا نام۔ اس نے آخری سوال پوچھا کہ پھر ہمارے ملک میں ایسا کیوں ہوتا ہے۔ میں نے ہنس کے کہا، ”مجاہد تم کہہ رہے تھے نا کہ پاکستان کا میڈیا ٓزاد ہے، اور میں نے کہا تھا کہ نہیں۔ تو بھائی میں تو میڈیا سے ہوں اور اس بارے میں بات کرنے میں آزاد نہیں ہوں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).