استاد اور استادیاں


گزشتہ دنوں قومی احتساب بیورو لاہور کی جانب سے پنجاب کی بڑی جامعات کے رئیس مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے الزام میں گرفتار کیے گئے۔ جس عمل نے ایک نئی مگر اہم بحث کو جنم دے دیا کہ استاد کی عزت اور حرمت کیا ہے۔ اس بحث نے ہر ایک استاد کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا وہ معاشرے میں رائج کیے گئے اس عزت افزاء مقام کا حق رکھتا ہے، کیا وہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ تو وہ اپنے ضمیر کی آواز سن کر احساسِ ندامت سے چکنا چور ہو گیا۔

معاشرہ چاہے مشرقی ہو یا مغربی استاد کا احترام ہر جگہ ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ تاہم مشرقی معاشرے بلخصوص اسلامی تہذیب میں استاد کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کیوں کہ استاد لوگوں میں ابتدائی علمی صفات پیدا کرنے سے لے کر پروان چڑھانے تک کے عمل میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بھی ہے یہاں پر تدریسی و تکنیکی تعلیم دینے والوں جیسے سکول، کالج، جامعہ میں پڑھانے والوں، موٹر مکینک، مستری و دیگر کام سکھانے والوں کے ساتھ ساتھ ایک استاد وہ بھی ہوتا ہے جس کے لئے سب کہتے ہیں، ”توں بڑا استاد ایں“۔

انسان ماں کی گود سے پہلا سبق حاصل کرتا ہے پھر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے لوگ پروان چڑھتے ہیں۔ سکولز سے کالجز، کالجز سے جامعات تلک بالکل ایسے ہی جیسے ننھے پودے تناور درخت بننے تک کا سفر طے کرتے ہیں۔ زندگی کے اس سفر میں انسان جس سے جو سیکھتا ہے، جو پڑھتا ہے یا کسی کو دیکھ کر جو اپناتا ہے اسے اپنے استاد کا درجہ دے دیتا ہے۔

میرے ناقص علم کے مطابق کسی بھی تہذیب میں استاد کی جو تعریف کی گئی ہے وہ سکھانے، پڑھانے اور بتانے والی ذمہ داریوں سے منسوب ہے۔ تاہم کہیں پر بھی یہ واضح نہیں کہا گیا کہ کیا سکھانے والا، کیا پڑھانے اور کیا بتانے والا استاد ہے۔ کیونکہ ماں کی گود سے لے کر تعلیمی اداروں اور زمانے کی ہر ایک چیز سے انسان کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے اور یہ سیکھنے کا عمل کبھی بھی کہیں بھی نہیں رکتا۔ تو پھر ایسے منظرنامے میں جو کوئی جس کو بھی جو بھی سکھا رہا ہے وہ اس شخص کا استاد ہی گردانا جائے گا۔

تاہم تدریس کی مبادیات میں تربیت بھی بہت اہم مقام رکھتی ہے۔ تربیت میں بات چیت، چال چلن وغیرہ سب کا ہی عمل دخل ہوتا ہے۔ عمومی طور پر طالب علم استاد کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ طالب علم ایک رَخش کی مانند ہے جس کی باگ استاد کے ہاتھ میں ہے، اب اس کا دار و مدار استاد کے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ طالب علم کو کس سمت میں لے کر جاتا ہے۔ سمتوں کو اگر دو اطراف میں بانٹیں تو منفی اور مثبت ہی نکلتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ استاد کا اپنا فطری میلان کس جانب ہے۔ اسی میلان پر ہی طالب علم کے مستقبل کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔

کسی بھی قوم اور معاشرے کی تعمیر میں استاد کا بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے جو بچپن سے لے کر سِنّ شعور بلکہ عمر رسیدہ ہونے تک بھی اپنا کردار ادا کرتا رہتا ہے۔ ہر شعبۂِ علم میں یونانیوں کا ڈنکا بجتا رہا ہے۔ سقراط کے فیض سے افلاطون مستفید ہوا اور افلاطون کے تدبر سے ارسطو شرفِ استفادہ رکھتا ہے۔ تلمیذ کے اس سلسلے نے اکثر و بیشتر علوم پر اپنی پرچھائیاں ڈالیں۔

خود حضورِ پاک (ص) معلم کے روپ میں رحمت دو عالم بن کر نازل فرمائے گئے۔ زمانہ گواہ ہے کہ آپ (ص) کے فیضانِ نظر نے ایک پست معاشرے کو سُپر پاور کے درجے تک لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ عرب کا جاہلی معاشرہ روحانی ترویج کے جن مراحل کو طے کر گیا، ان کا باعث بھی تعلیماتِ نبوی (ص) ہی بنیں۔

سکّے کا اگر دوسرا رخ دیکھا جائے تو مغرب میں پاپائیت کا دور اس ضمن میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ کلیسا، ملوکیت اور اشرافیہ نے مل کر ایک ایسا مرکب تیار کیا جس نے کئی صدیوں تک مغربی اقوام کو جہالت کے اندھیروں میں رکھا۔ کلیسا نے عام تعلیم تو دور کی بات مذہبی تعلیم کو بھی عوام النّاس کے لیے ممنوع قرار دے دیا۔

آج کل بھی صورتحال کچھ اس سے ملتی جلتی ہی نظر آ رہی ہے۔ تین جامعات کے وائس چانسلرز بدعنوانی اور اختیارات کے تجاوز کے الزام میں جیل کی سلاخوں کی پیچھے ہیں۔ ایک جامعہ کے امیر پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے من پسند احباب اور رشتہ داروں کو نوازا۔ دوسرے امیرِ جامعہ پر الزام ہے کہ انہوں نے نجی اداروں کو غیر قانونی الحاقی اختیارات دیے اور کئی اضلاع میں غیر قانونی کیمپسز کھول کر داموں کے عوض ڈگریاں فروخت کیں جس کے باعث کئی مستحق طالب علموں کے حق پر شب خون مارا گیا۔

تیسرے وائس چانسلر پر بھی غیر قانونی بھرتیوں اور اختیارات سے تجاوز کا الزام عائد ہے۔ ان الزامات کا صحیح اور غلط ہونا تو الگ بات ہے۔ مگر ان قدآور شخصیات پر خود ایسے الزامات کا عائد ہونا بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ اسلامی معاشرے میں استاد کا مقام بہت عظیم ہے اور اس عظمت کے ساتھ ایک خاص قسم کا تقدیس کا پہلو بھی ہے۔ اب اس امر کا خیال خود ان اساتذہ کو بھی رکھنا چاہیے جو خود کو اس تکریم سے نوازے جانے کی خواہش رکھتے ہیں اور عام لوگوں کو بھی چاہیے کہ اچھے اور برے کی تفریق روا رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).