وہ جو شہرت کی چاہت میں مارے گئے


\"aqdas\”قندیل بلوچ اور مفتی قوی کے درمیان جو ہوا ہے میں میڈیا کو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔وہ میڈیا جو سحری اور افطاری کی ٹرانسمیشن میں ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں رنگینی دکھاتا ہے، وہ اخبارات جو کمائی کے چکر میں عاملوں کے اشتہارات چھاپتے ہوں ، اگر میڈیا ایسا ہو گا تو یہ سب تو ہوگا\”-

یہ تھے جناب مبشر لقمان صاحب جو قندیل اورمفتی قوی کو دو گھنٹے تک ٹی وی پر دکھانے کے بعد اپنے زریں خیالات سے قوم کو مستفید کر رہے تھے۔ کوئی ان سے یہ تو پوچھے کہ محترم آپ نے جو دو گھنٹے مینا بازار لگائے رکھا اس کا حساب کون دے گا؟ آپ باقی میڈیا کو تو کوس رہے ہیں مگرکیا آپ نے اس معاملے کو ہوا نہیں دی؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس کے علاوہ اور بہت سے مسائل تھے جن پر آپ اپنے مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ اضافی ٹرانسمیشن کر سکتے تھے؟ آپ کریں تو ٹھیک دوسرے کریں تو ان کا کریکٹر ڈھیلا ہے۔اور اس نجی ٹی وی چینل کی تو کیا ہی بات کروں جنہوں نے بنا تصدیق کے مفتی صاحب کی بجائے کسی اور کا بیپر چلا دیا۔اور جن کا بیپر چلایا وہ سر عام قندیل سے محبت کا اظہار اور شادی کی خواہش کر بیٹھے۔ ریٹنگ کا تو پتا نہیں البتہ صحافتی اقدارکی دھجیاں اڑانے میں ہر چینل دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہے۔

اب بات کریں قندیل بلوچ اور مفتی صاحب کے تنازعے کی تو میری رائے میں یہ تنازعہ صرف شہرت حاصل کرنے کا ایک سستا اور بازاری طریقہ ہے ۔ میں قندیل بلوچ کا فیس بک باقاعدگی سے دیکھتی ہوں اور انہیں خاصا پسند بھی کرتی ہوں۔ بہت سے لوگ انہیں گالیاں دیتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں، ٹی وی پروگرامز میں مفتی حضرات انہیں راہ راست پر آنے کی دعوت دیتے ہیں- اس سب کے بعد وہ پہلے سے زیادہ متنازع اور بولڈ پوسٹ لگاتی ہیں اور پھر وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ نتیجہ ؛ مزید شہرت ، مزید فالورز، مزید ٹی وہ پروگرامز، مزید کانٹریکٹس اور مزید پیسہ۔ اور میری رائے میں اس میں کوئی قباحت نہیں۔ زندگی میں ہر کسی کا کوئی خواب ہوتاہے ، کوئی مقصد ہوتا ہے ۔ہو سکتا ہے ان کا مقصد شہرت پانا ہو، اوراپنے مقصد کے حصول کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں۔ یہ تو وہی بات کہ بدنام ہوئے تو کیا نام نہ ہو گا، اب اگر وہ بدنام ہیں تبھی تو ہم سب ان میں اتنی دلچسپی لے رہےہیں۔ ورنہ نہ جانے کتنی قندیل بلوچ کہاں کہاں سے ہو کر آ جاتی ہیں اور ٹی وی پروگرام تودور کی بات ، دو لوگ بھی آپس میں ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔

\"Qandeelشہرت نشہ ہی ایسا ہے، شہرت پانے کے چکر میں بہت سے عزت داروں نے اپنی پگڑیاں یا تو خاک میں ملا دیں یا کسی قندیل کو پہنا دیں۔خود مفتی قوی صاحب بھی خاصی مشہور شخصیت ہیں۔ اور ان کی وجہ شہرت بھی توجہ کے حصول کی غرض دئیے گئے متنازع بیانات ہیں۔ کبھی یہ وینا ملک کو ٹی پروگرامز میں دعوت حق دیتے رہے، تو کبھی ایک شادی اور کئی نکاح کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں، اور حال ہی قندیل بلوچ کے ساتھ سلفیاں بنواتے نظر آئے- لیکن مفتی صاحب کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جن پتوں پہ انہیں تکیہ تھا وہی ہوا دینے لگیں گے۔ جس قندیل کو بلا کر وہ شہرت پانا چاہتے تھے ، وہی قندیل ان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑے گی۔ مفتی صاحب کا حال ایسا ہے کہ اگرقندیل ان سے دوبارہ کہیں ملی تو بقول ساحر لدھیانوی

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے

پوچھیں گے اپنا حال تیری بے بسی سے ہم

اور مفتی صاحب کی بے بسی تو آج قوم ملاحظہ کر چکی ہے۔

مفتی صاحب ایک عالم ہوتے ہوئے اسلام کی یہ تنبیہ نظر انداز کر گئے جس میں ایمان والوں کو ایسی محفلوں میں جانے سے روکا گیا ہے جہاں ایمان میں خلل پڑنے یا تہمت لگنے کا اندیشہ ہو۔ علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں یہ حدیث بیان کی ہے کہ

\”حضرت ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا بنت حیی نے کہا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ اعتکاف میں تھے۔ میں رات کو آپ ﷺ کی زیارت کے لیے گئی اور آپ ﷺ سے باتیں کر کے واپس آنے لگی۔ آپ ﷺ میرے ساتھ مجھ کو گھر پہنچانے کے لیے ہو لیے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا مکان اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے احاطہ میں تھا۔ اتنے میں دو انصار کے آدمی نمودار ہوئے۔ انہوں نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو تیزی کیساتھ آگے بڑھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ٹھہرو، میرے ساتھ صفیہ ؓ ہے۔ وہ عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے، میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں تمہارے دلوں میں \”خیال فاسد\” یا فرمایا \”کوئی بات\” نہ ڈال دے۔\”

یہ حدیث صحیحین میں ہے ۔ ابو سلیمان خطابی نے کہا کہ اس حدیث میں فقہی بات یہ ہے کہ انسان کو ہر ایسے امر مکروہ سے بچنا مستحب ہے جس سے بد گمانیاں پیدا ہوں اور دلوں میں خطرے گزریں۔ اور چاہیے کہ عیب سے اپنی برأت ظاہر کر کے لوگوں کے طعن سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسی بارے میں امام شافعی ؒ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کا خوف ہوا کہ کہیں ان دونوں انصاریوں کے دل میں کوئی خیال ناقص نہ آئے جس کی وجہ سے وہ کافر ہوجائیں اور یہ آپ ﷺ کا فرمانا ان کی بہتری کے لئے تھا ۔ کچھ اپنے نفع کے واسطے نہیں۔

مفتی صاحب کو بھی قندیل کو بیڈ روم تک بلانے سے اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تھا کہ کسی کے ذہن میں ان کےمتعلق کوئی فاسد خیال نہ آئے۔ اگر ملنا ہی تھا تو بیڈ روم بجائے لابی میں مل لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔

\"Qandeel-Balochکبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان دوسروں کو راہ راست پر لاتے لاتے خود پٹری سے اتر جاتا ہے۔ قندیل کے مطابق مذکورہ ملاقات میں مولانا پٹری سے تو کیا ، ریل سے بھی اتر گئے۔ بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر اس موقف کی تائید بھی کرتے نظر آرہے ہیں کہ شاید مفتی صاحب نے کوئی ایسی حرکات کی ہیں جو ان کو زیب نہیں دیتی تھیں۔ جیسا کہ قندیل نے کہا کہ مفتی صاحب نے ان کی بچی ہوئی کولڈ ڈرنک اور سگریٹ پی۔ مگر ویڈیو میں آپ کو کہیں بھی کوئی کو لڈ ڈرنک یا سگریٹ نظر نہیں آرہی۔ اس کے علاوہ انہوں نے الزام لگایا کہ مفتی صاحب نے ان کاناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ہر چیز کی ویڈیو بنائی مگر ان لمحات کی ویڈیو بنانے سے قاصر رہیں۔ اس کے علاوہ مفتی صاحب نے کوئی ایسی حرکت کی ہوتی تو وہ نہ تو کیمرہ مین کو بلاتے اور نہ ہی قندیل کو تصویر یا ویڈیو بنانے کی اجازت دیتے۔ قندیل کے فیس بک پر مفتی صاحب کے ساتھ لی گئی سیلفی اور ویڈیو کے ہیش ٹیگ ملاحضہ کریں ؛ # قندیل ، # کنٹرورسی کوئین، # بگ باس 10 ، # بی بی 10، #ڈیبیو ایز پورن سٹار، #ٹروتھ بائی کوئین۔ اب بھی آپ اصل کہانی نہ سمجھیں تو بس یہی کہوں گی کہ تسی بڑے بھولے ہو-

اس معاملے میں مجھے پی ٹی آئی نے بھی بہت مایوس کیا ہے۔ پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اپنی غلطیوں کی اونر شپ نہیں لینی آتی۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ مفتی صاحب کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور انٹرا پارٹی الیکشن میں وہ پنجاب کے مذہبی ونگ کے عہدیدار بھی رہے ہیں، بعد میں عمران خان صاحب نے الیکشن دوبارہ کروانے کااعلان کیا اور تمام عہدیداروں کا ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ لیکن جس لب و لہجے کے ساتھ عمران اسماعیل اور نعیم الحق صاحب نے مفتی قوی کے پی ٹی آئی میں کوئی عہدہ رکھنے کو جھٹلایا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کرنے کی پالیسی پر عمل پیراہے۔ اصولاً تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی کو اس بحث سے دور رکھا جاتا۔ لیکن اگر ان سے سوال کیا بھی گیا تو اس حقیقت کو نہیں جھٹلانا چاہیے تھا کہ مفتی قوی پی ٹی آئی کے عہدیدار رہ چکے ہیں -بعد ازاں ان کو پی ٹی سے نکالا جاتا یا وارنگ دی جاتی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ میڈیا کے پریشر میں آ کر آپ سچ بولنا ہی چھوڑ دیں۔

میڈیا کا پریشر ہے ہی ایسا۔ میڈیا جس کو چاہتا ہے ہیرو بنا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے زیروکر دیتا ہے۔ جہاں بہت زندگیاں میڈیا نے بچائی ہیں وہیں بہت سی زندگیوں کو جہنم بھی میڈیا نے ہی بنایا ہے۔ ہم بھی بسا اوقات سوشل میڈیا پر کسی کی ویڈیو یا تصاویر شئیر کر کے ان پر لعنت ملامت شروع کر دیتے ، مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہماری چند لمحوں کی تفریح کسی کی زندگی خراب کر سکتی ہے۔ اسی طرح میڈیا میں بغیر تصدیق کے دوسروں پر الزام تراشی کرنا، لوگوں کے کردار پر کیچڑ اچھا لنا معمول کی بات ہے۔

 مفتی قوی بھی ٹاک شوز میں بیٹھ کر دوسروں کے ایمان پر فتوے لگا رہے ہوتے ہیں ، منصف بھی خود ہی ہوتے ہیں اورمدعی بھی خودہی –اب شاید انہیں اندازہ ہو کہ جس کا بے جا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہو وہ کس کرب سے گزرتا ہے۔ نہ صرف اس شخص کو تکلیف جھیلنی پڑتی ہے جس پر الزام لگایا جاتا ہے بلکہ اس کےاہل خانہ بھی اس اذیت سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ قندیل نے مفتی صاحب پر جو تہمت لگائی ہے وہ تو بہرحال درست نہیں اور نہ ان کو یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ بنا ثبوت کے کسی پر یہ الزام لگائیں ۔

میں پہلے ہی بیان کر چکی ہوں کہ اگر قندیل غلط ہے تو پارسا مفتی صاحب بھی نہیں۔ لیکن ان کو سزا صرف اس جرم کی دیں جس کے وہ مرتکب ہوئے ہیں۔ ان پر یا کسی پر بھی بنا ثبوت کے ایسے الزامات نہیں لگانے چاہیں جو اہل خانہ سے لیے بھی پشیمانی اور پریشانی کا سبب بنیں۔

قندیل جو چاہتی تھی وہ اسے مل گیا مگر افسوس مفتی صاحب کے خواب ادھورے رہ گئے، کیونکہ شہرت کی چاہت میں وہ قندیل کے ہاتھوں مارے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments