عظمت بندگی سے مشک بار عید


رمضان کی رحمتیں سمیٹ لینے کی خوشی میں پورا پاکستان اپنے رب کے حضور شکرانے کے طور پر عید کی خوشیاں منا رہا ہے، مگر کورونا کی وبا نے ایک سخت آزمائش پیدا کر رکھی ہے۔ نماز عید کے اجتماعات محدود ہو جانے کے علاوہ ہم اپنے اپنے گھروں میں قید ہو کے رہ گئے ہیں۔ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود ایک دوسرے کو تحائف بھیجے جا رہے ہیں، ٹیلی فون پر مبارک باد کی صدائیں گونج رہی ہیں اور حفاظتی تدابیر کے ساتھ میل ملاپ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

کورونا کے خوفناک سایوں کے تحت یہ ہم دوسری عیدالفطر منا رہے ہیں اور خالق حقیقی سے دعاگو ہیں کہ ہمیں اس وبا کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھے اور مکمل نجات عطا فرمائے۔ چین، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، یہ وبا سب سے پہلے وہیں پھوٹی تھی، مگر اہل چین کی قوت ارادی اور بلا کی نظم بندی نے اس موذی مرض پر قابو پا لیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس ناگہانی صورت حال پر سب سے پہلے قابو پا لینا چاہیے تھا کہ ان کا دین انہیں کامل نظم و ضبط کے ساتھ زندگی بسر کرنا سکھاتا ہے۔

آج کرۂ ارض پر ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمان آباد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیت اور انواع و اقسام کی دولت سے نوازا ہے۔ وہ ماہ رمضان میں فریشر کورس سے گزرے ہیں جس میں تقویٰ اختیار کرنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ایک منظم طریقے سے زندگی اختیار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس روح پرور تربیتی پروگرام کے اہم پہلو تقویٰ کا فروغ، نفس پر کنٹرول اور عظمت بندگی کا حصول ہیں۔ قرآن حکیم کے نزدیک متقی شخص وہ ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان لاتا ہے، نماز قائم کرتا اور جو رزق اسے عطا ہوا ہے، اس میں سے خرچ کرتا ہے۔

وہ اللہ کے خوف سے گناہوں سے بچتا ہے، آخرت میں اجر پانے کے شوق میں نیکیاں پھیلاتا اور یتیموں اور محتاجوں کی دادرسی کرتا ہے اور تاجدار حرم حضرت محمدﷺ کی اطاعت میں اللہ کے کنبے کی خدمت بجا لاتا ہے۔ رمضان کے بابرکت مہینے میں روزے دار یہ تربیت حاصل کرتا ہے کہ وہ اخلاق کا اچھا نمونہ بنے، انسانوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آئے، انہیں آسائشیں فراہم کرنے کے لیے ایثار سے کام لے اور اپنے مسلمان بھائی کو ہر طرح کا ضرر پہنچانے سے حد درجہ پرہیز کرے۔

روزے دار جب راتوں میں قیام کرتا اور قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بناتا ہے، تو اس کی بندگی کا جوہر نکھرنے لگتا ہے اور اس کے اندر ایسی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے جس سے حقیقی محبت، دردمندی اور فیاضی کے جھرنے پھوٹتے ہیں۔ روزے دار جسمانی طور پہ بھی بہتر اور روحانی اور ذہنی اعتبار سے بھی آسودگی محسوس کرتا ہے۔ وہ صبر و استقامت کا ایک حسین پیکر بن جاتا ہے اور اس میں رواداری اور شائستگی کے اوصاف فروغ پاتے ہیں۔ اس کا سینہ تمام کدورتوں سے صاف ہوتا جاتا ہے۔ ہم اگر کامل شعور کے ساتھ رمضان المبارک کے تقاضے پورے کرتے رہیں، تو ہم دنیا کی اعلیٰ ترین منظم قوموں میں شمار ہو سکتے ہیں، مگر حقیقت میں ہم اس منزل سے بہت دور ہیں۔ شاید اس لیے کہ ہمارا اپنے رب کریم سے تعلق بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔

ہماری یہ اجتماعی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم رمضان کے بابرکت مہینے میں جس نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے اور اپنے نفس پر کنٹرول رکھنے کی جو مشق کرتے ہیں، وہ پورا سال جاری رہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے جو قربت پیدا ہوئی ہے، اسے قائم رکھیں اور روزے کے دوران غریبوں، حاجت مندوں اور فاقہ کشوں کے ساتھ جو ہمدردی پیدا ہوئی ہے، وہ ضائع نہ ہونے پائے۔ اسی طرح ہم رمضان کے دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں اور خوش خلقی کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہی فضا پورا سال قائم رکھنے کی شعوری کوشش کی جائے۔

ہمیں اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی خو باقی رکھنی چاہیے، کیونکہ اسلام کا اولین مقصد ایک خدا ترس اور فلاحی معاشرے کا قیام ہے۔ اب جبکہ ہماری ریاست اپنے شہریوں کی دیکھ بھال، کفالت اور دستگیری کے فرائض سے غافل ہوتی جا رہی ہے، تو سوسائٹی کے خوشحال اور دولت مند طبقوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرتی نا انصافیوں پر قابو پانے کے لیے ایثار سے کام لیں۔ یہی حقیقی بندگی کی معراج ہے۔

ایک طویل مدت کے بعد پورے پاکستان میں رمضان کا پہلا روزہ بھی ایک دن رکھا گیا تھا اور عید بھی ایک ہی دن منائی جا رہی ہے۔ اس کا کریڈٹ جناب فواد چودھری کو جاتا ہے جنہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر کی حیثیت سے پیش گوئی کی تھی کہ پہلا روزہ 14 ؍اپریل کو اور عید 14 مئی کو ہو گی۔ وہ ایک معقول سیاسی شخصیت ہیں اور بات سلیقے سے کرتے ہیں، تاہم ان کی سیاسی عصبیت اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ وہ اس اعتبار سے بھی خوش قسمت ہیں کہ جس صورت حال پر آج سے 54 برس پہلے ایک حشر برپا ہوا تھا، وہ آج باعث مسرت ٹھہری ہے۔

جناب صدر ایوب خاں کو ان کے مشیروں نے تنبیہ کی تھی کہ عید کے دن دو خطبے حکومت پر بھاری گزریں گے۔ یہ 1967 ء کی بات ہے کہ تمام شواہد کے مطابق عید جمعہ کے روز ہونا تھی۔ ایوب خاں کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ عید جمعرات کے دن منائی جائے گی اور اس مقصد کے لیے بعض علما بھی تیار کر لیے گئے۔ اس پر شدید عوامی ردعمل ہوا۔ مولانا احتشام الحق تھانوی جو ان دنوں حکومت کے مدمقابل تھے، گرفتار کر لیے گئے۔ اس پر عوامی تحریک چل نکلی جو ایوب خاں کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئی۔

آج دو خطبے ہوں گے۔ مستقبل کا حال تو اللہ عالم الغیب ہی جانتا ہے، البتہ اس روش سے قدرے خوف محسوس ہو رہا ہے جو وزیراعظم عمران خاں نے رحمۃ للعالمین حضرت محمدﷺ کے روضۂ اقدس پر حاضری دینے کے بعد اختیار کی ہے۔ گڑے مردے اکھیڑنے اور سیاسی حریفوں کا نمدہ کسنے کا غیر دانش مندانہ فیصلہ، اس فیصلے میں عظمت بندگی کے بجائے معاذ اللہ زعم خداوندی کی جھلک نظر آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments