روزے دارو، اللہ نبیؐ کے پیارو


\"inam-rana-3\"

شادی کے بعد پہلا رمضان (یا رمادان) آیا تو میری نومسلم زوجہ ماجدہ ایک چارٹ اٹھائے ہوے میرے پاس بیٹھ گئیں۔ بولیں ’تو رمضان کا کیا پروگرام ہے‘۔ میں نے انیس گھنٹے کے روزے کا تصور کرتے ہوئے کہا، بس دعا ہے کسی طرح گزر جائے۔ بولیں نہیں میرا مطلب ہے کہ پروگرام بنا لیں کہ ہر دن کیا کرنا ہے، سحر افطار میں کیا بنانا ہے اور روز کتنا قرآن پڑھنا ہے۔ اب میری زوجہ ماجدہ جیسے اپنے امتحان کی تیاری پلان کرتی ہیں ویسے ہی رمضان بھی پلان کرنے لگ گئیں۔ رمضان کریم شروع ہوا اور انیس گھنٹے کا مجاہدہ بھی۔ ابھی چند ہی روزے گزرے تھے کہ زوجہ ماجدہ نے میرے آگے ہاتھ جوڑ دئیے کہ خدا کے لیے تم روزے مت رکھو۔ میں نے کہا کیوں؟ تو بولیں چھ دن میں تم بارہ بار مجھ سے لڑ چکے، دو دن دفتر نہیں گئے اور تین کلائنٹس کا کیس لینے سے انکار کر دیا۔ تمھیں اللہ کا واسطہ روزہ نہ رکھو۔ میں نے کہا بی بی تم نہیں جانتی، روزہ گرم ہوتا ہے اور ہم تو سالانہ غصہ ہی رمضان میں نکالتے ہیں۔ خیر میں نے روزہ چھوڑا یا نہیں، یہ تو میرے اللہ کا اور میرا معاملہ ہے۔ مگر بیگم نے پورے رکھے اور نہ اسے غصہ چڑھا، نہ کوئی لڑائی کی اور تو اور مجھے برا مسلمان ہونے کا طعنہ بھی نہ مارا۔ سچ ہے کہ رمضان جو روحانی اثرات پیدائشی مسلمانوں پہ ڈالتا ہے وہ ان بیچارے نومسلموں کو کہاں نصیب۔

صاحبو، میری دادی نے بڑی لمبی عمر پائی، قریب سو سال۔ جوانی میں بیوہ ہونے والی دادی نے اولاد دو خوبیوں پہ پالی، غصہ اور نیکی۔ غصہ جو جوان بیوہ کا سماج کا سامنا کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے اور نیکی جو کردار کی استقامت کا باعث۔ غصہ تو ایسا تھا کہ مرتے دم تک دادی ’کھڑے کھلوتے‘ بزتی کر دیتی تھیں۔ اور نیکی تو شاید اب تک جاری ہو کہ صدقہ جاریہ والے کام کرتی رہتی تھیں۔ دادو نے تب تک قرآن نہ چھوڑا جب تک بڑی سے بڑی لکھائی میں بھی قرآن نظر آنا بند نہ ہو گیا۔ اور نماز روزہ تو آخر تک رہا۔ آخیر عمر میں دو سال ایسے آئے کہ دادی کو بھولنے کی بیماری لگ گئی۔ کھانا کھاتی تھیں اور دو گھنٹے بعد شور ڈال دیتیں کہ مار دیا صبح سے کسی نے کھانا نہیں دیا۔ سو چار چار بار کھا جاتیں۔ اسی دوران رمضان آ گیا۔ سچ پوچھیے تو اس عمر اور بیماری میں ان کے روزے کا تصور کر کے ہی جھرجھری آتی تھی، مگر دادی بضد تھیں کہ ’روجے وی بھلا کوئی چھڈدا اے‘ (روزے بھی بھلا کوئی چھوڑتا ہے)؟ پہلے روزے کے جب کچھ گھنٹے گزرے تو میں نے کہا بی بی جی ، روٹی لاؤں؟ بولیں نہیں میرا روجا اے۔ میں نے کہا آپ کمزور ہیں، بوڑھی ہیں، بھوک بھی زیادہ لگتی ہے، اللہ معاف کرنے والا ہے، نہ رکھو۔ بولیں ’سب ٹھیک ہے پتر پر اللہ پاک دا حکم جو ہویا۔ نالے روجا تے ہے ہی صبر دا ناں‘ (سب ٹھیک ہے بیٹے لیکن اللہ پاک کا حکم جو ہوا)۔

\"gokal-das\"

بوڑھا گوکل داس بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوا اور مندر کا پرشاد سرعام ہی کھانے لگ پڑا۔ کافر کو بھول گیا کہ احترام رمضان بھی کوئی شے ہے۔ وہ تو شکر کیجیے کہ ایک مومن مسلمان پولیس والا آس پاس ہی تھا اور ’ہلکی پھلکی مار‘ سے بابے کو سمجھایا کہ مومنوں پہ رمضان آیا ہوا ہے۔ ٹھیک ہے بزرگ تھا، کافر تھا، بھوک سے مجبور ہو گیا مگر اس کا قصور تھا کہ بھول گیا رمضان صبر کا نام ہے۔ ہم کریں نا کریں، اس کو تو کرنا چاہیے تھا نا۔ ویسے لندن میں گوروں کو مسلمان کرنے والا عظیم الرحمن عثمانی کبھی ملا تو پوچھوں گا کہ سارا دن یہ کافر ہمارے آس پاس کھاتے رہتے ہیں، ان کو احترام کیسے سکھائیں؟ یہاں تو نہ احترام رمضان آرڈیننس ہے نا مومن پولیس۔ نجانے ہمارے روزے ہوتے بھی ہیں کہ نہیں۔

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments