پہلی جنگ عظیم کے سو سال بعد


کرنل محمد خان نے ”بجنگ آمد‘‘ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی وطن واپسی کا احوال بیان کرتے ہوئے ایک دل چھو لینے والی بات لکھی ہے۔ کرنل صاحب کہتے ہیں کہ وہ گائوں میں اپنے گھر پہنچے تو ان کی ماں جی نے انہیں جی بھر کر دیکھنے کے بعد وہ کچھ کہا، جو صرف ماں ہی کہہ سکتی ہے ”بیٹا اب ساری فوج میں تم ہی بڑے افسر ہو ناں؟‘‘ کپتان نے سوچا کہ وہ سچ کس کام کا، جس سے ماں کا دل دکھے؟ سو انہوں نے بلا جھجک جواب دیا ”جی ہاں، ایک آدھ کو چھوڑ کر سب میرے ماتحت ہیں‘‘ … اور ماں کی دنیا آباد ہو گئی۔

کرنل محمد خان سے قبل اسی نگری کے چوہدری نور محمد بھی کچھ ایسے ہی حالات سے دوچار ہوئے تھے۔ انہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران برٹش انڈین آرمی کے سپاہی کی حیثیت سے ایران عراق، مصر اور فرانس کے محاذوں پر داد شجاعت دی تھی۔ لا علمی کو بھی ایک نعمت کہا گیا ہے۔ وہ سپاہی تھے مگر گائوں میں ان کے ٹہکے کی بدولت سادہ دل اہل دیہہ سمجھتے تھے کہ انگریز فوجی دستوں کی قیادت وہی کرتے ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ کا تو پختہ خیال تھا کہ : ہٹی بھری ہوئی میزاں دی / اگے مینڈا ڈھول لڑدا، پِچھے فوج انگریزاں دی۔

1914ء سے 1918ء تک جاری رہنے والی جنگ عظیم اول کے دوران لگ بھگ دو کروڑ انسان لقمۂ اجل بنے۔ 11 نومبر 2018ء کو اس ہلاکت آفریں جنگ کے خاتمے کی ایک صدی مکمل ہونے پر دنیا بھر میں صد سالہ تقریبات منعقد کی گئیں۔ فرانس، برطانیہ، آسڑیلیا، نیوزی لینڈ اور بھارت میں سرکاری سطح پر جنگ بندی کے سو سال پورے ہونے کا جشن منایا گیا۔

اسلام آباد کے برطانوی ہائی کمیشن میں بھی تقریب منعقد ہوئی، جس میں برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریو نے ایک صدی قبل کے اپنی فوج کے دیسی جوانوں کو بہادری کے جوہر دکھانے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یاد رکھنا ضروری ہے۔

یادش بخیر! اس خراج تحسین کے مستحق، بہادری کی لازوال داستانیں رقم کرنے والوں میں ہمارے دادا نور محمد بھی شامل ہیں۔ آپ نے 1986ء میں لگ بھگ سو برس کی عمر میں اس دنیائے رنگ و بو سے عالم باقی کی طرف کوچ فرمایا تھا۔ انہوں نے عالم شباب میں سپاہی کی حیثیت سے برٹش انڈین آرمی میں شمولیت اختیار کی اور 1914ء میں شروع ہونے والی پہلی جنگِ عظیم کے دوران متذکرہ چار ممالک کے محاذوں پر دشمن کے دانت کھٹے کیے۔

بعد ازاں اسی نگری کے ممتاز مزاح نگار کرنل محمد خان نے بھی یہاں کی بہادرانہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے دوسری جنگ عظیم میں برٹش انڈین آرمی آفیسر کی حیثیت سے مشرق وسطیٰ اور برما کے محاذوں پر اپنے علاقے کا نام روشن کیا۔

ایک صدی قبل کے تاریک دور میں اپنی فصلیں اور ڈھور ڈنگر خدا کے حوالے کر کے دیارِ غیر میں ”انگریزی فوج کی قیادت کرنے‘‘ کی دادا کے پاس دو عدد ٹھوس وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ تاج برطانیہ سے اپنی غیر مشروط وفاداری اور اس کا تحفظ قبلہ کو بہت عزیز تھا۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ انگریز سرکار اپنی کالونیوں کی رعایا کو زبردستی فوج میں بھرتی کر لیتی تھی۔ جس گھر میں دو جوان بھائی ہوتے، سرکار ان میں سے ایک کو اٹھا کر لے جاتی اور تاج برطانیہ کے دفاع پر مامور کر دیتی۔ ہر دو وجوہ خصوصاً وجۂ ثانی کی بنا پر چوہدری صاحب کے پاس اس کارِ خیر سے انکار کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز باقی نہیں رہا تھا۔

ویسے بھی ہمارے ہاں بہادری کی ایسی درخشاں روایات کافی پختہ ہیں۔ آج اگر کہا جاتا ہے کہ ضلع چکوال کے ہر چھوٹے بڑے قبرستان میں کسی فوجی کی قبر موجود ہے تو ایسا بھی دو وجوہ کی بنا پر ممکن ہوا ہے۔

ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہاں کے غیور اور پراسرار بندے دفاعِ وطن کے لازوال جذبے سے سرشار ہیں، جبکہ دوسری وجہ ان کی گزر اوقات کے لیے ناکافی بارانی زمینیں، بے روزگاری اور بھوک ہے جو انہیں مادرِ وطن کی حفاظت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے‘ اور وہ دس جماعتیں پاس کر کے فوج میں بھرتی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ان کا دفاعِ وطن کا ٹھرک بھی پورا ہو جاتا ہے اور بال بچوں کا دال دلیا بھی چلتا رہتا ہے ۔

دادا جان گائوں میں آرام کرسی پر نیم دراز سردیوں کی دھوپ سینکتے اور ہم لوگوں کے ساتھ جنگِ عظیم اول کی یادداشتیں شیئر کرتے ماضی کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے۔ ایسے میں وہ سر تا پا گرم چادر میں اپنا وجود چھپا کر اور کسی انجانی دنیا میں پہنچ کر یہ صوفیانہ کلام گنگناتے تھے: پردیس نہ ہوندے چنگے، توڑے زری مخمل ہنڈائیے/ پردیس نہ ہوندے چنگے، توڑے روز نعمتاں کھائیے/ فتح شاہ محمدا سمجھا سسی نوں، کدی جھوک وطن تے لائیے۔

کالم کے دامن میں تفصیلات کی گنجائش نہیں، آج ہم دادا حضور کی ایک ہی بات آپ سے شیئر کریں گے۔ پردیس کے زمانۂ جنگ کی راکھ سے چنگاریاں چُنتے بتاتے تھے کہ ایران میں ان کے قیام کے دوران جب ایرانی اپنے خوبصورت تاریخی شہر کی بابت صدیوں پرانی کہاوت فخر سے دہراتے ”اصفہان نصفِ جہان‘‘ ( آدھا جہان اصفہان ہے) تو انڈین فوجی جواب دیتے ”گر لاہور نہ باشد‘‘ (اگر لاہور نہ ہوتا تو) لاہور اور لہورئیے تو ہم نے بہت دیکھ رکھے تھے، بابا جان کی اس گفتگو سے اصفہان دیکھنے کا ہمارا اشتیاق بھی دوچند ہوتا گیا۔

آخر جب ہم دوستوں کے ہمراہ ایران کے لیے عازمِ سفر ہوئے تو مشہد اور تہران کی سڑکیں ماپتے ایک دن اصفہان بھی جا پہنچے۔ یا حیرت! شنیدنی مناظر دیدنی ہوئے تو ایسا طلسم ہوشربا نگارستان پایا کہ ہجوم بے کراں بھی سیاح کے استغراق میں مخل نہ ہوا۔ شاہ قاجاروں کے پُر شکوہ محلات اور مبہوت کر دینے والی ہر تاریخی عمارت کی بوقلمونی چومن دیگرے نیست کی معلن تھی۔ ہم کتنی ہی دیر اس گنبد کے نیچے کھڑے رفتگان کو آوازیں دیتے رہے، جہاں ایک صدا کی بازگشت سات مرتبہ سنائی دیتی ہے۔

خدا جانے یہ ہماری تنگ نظری تھی یا حقیقت مگر جب ہم نے اصفہان اور لاہور کے حسن کا موازنہ کیا تو ”گر لاہور نہ باشد‘‘ کی کہاوت کا پلڑا بھاری نظر آیا۔ ہر دو شہروں میں فرق یہ ہے کہ ایرانیوں نے اپنے اس معمورے کی صفائی اور تاریخی عمارات کی حفاظت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جبکہ ہم نے لاہور میں گندگی پھیلانے اور تاریخی ورثے کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

خادم اعلیٰ نے صوبے بھر کا بجٹ لاہور کی میٹرو بس، اورنج ٹرین، انڈر پاسز، شاہراہوں کی وسعت اور نکاسیٔ آب کے منصوبوں پر لگا کر اسے لاہور کی بجائے ”پیرس‘‘ بنا دیا جبکہ ایرانیوں نے اصفہان کو اصفہان ہی رہنے دیا ہے۔ ہم برپشم قلندر تو اپنی آنے والی نسلوں سے یہ اعزاز بھی چھین رہے ہیں کہ جب کوئی ایرانی اصفہان نصفِ جہان کی بڑھک مارے تو وہ جواب میں یہ نعرہ مستانہ ہی نہ بلند کر سکیں کہ گر لاہور نہ باشد۔

ایرانی تو فخر سے کہتے رہیں گے ”ملیں گے آئندگان کو تبریز اور حلب میں/گئے ہوئوں کی نشانیاں اصفہان سے لیں گے‘‘ البتہ ہمارے آئندگان کے لیے ایسی فخریہ نشانیاں کثیر سرمائے کی مدد سے مٹائی گئی ہیں۔

حسن اتفاق دیکھیے کہ پہلی جنگ عظیم کے سو سال مکمل ہونے کے دن ہی ورلڈ بینک کی ‘سٹیٹ آف واٹر سپلائی، سینی ٹیشن اینڈ پاورٹی ان پاکستان‘ کے نام سے جاری تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے بنیادی سہولتوں سے محروم اسی فیصد غریب دیہات میں رہتے ہیں۔

گویا ہم دیہاتیوں کو پسماندہ رکھنے کا پلان اتنا کامیاب رہا ہے کہ ہم آج بھی وہیں ہیں، جہاں ایک صدی قبل کھڑے تھے۔ سو سال پہلے یہاں کے سادہ لوح برٹش انڈین آرمی کے معمولی سپاہی کو کمانڈر سمجھتے تھے اور آج اس کے ادنیٰ قلم کار پوتے کو بااثر کالم نگار خیال کرتے ہیں۔ کوئی لا علمی سی لا علمی ہے۔

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).