مذہب، اصلاح اور جدیدیت


لکھاری: ڈاکٹر نائلہ علی خان، پی ایچ ڈی۔
مترجم: لبنیٰ‌ مرزا، ایم ڈی۔

تعلیم یافتہ مسلمانوں ‌ کے لیے یہ نہایت اہم ہے کہ وہ عقلی اسلام کے لیے آواز اٹھائیں اور اسلامی تعلیمات اور جمہوریت میں ‌ مصالحت تلاش کریں۔ ہم مذہبی دائرے کو بنیاد پرستوں ‌ کے حوالے نہیں ‌ کرسکتے کہ وہ اس میں ‌ جو چاہیں ‌ کرتے پھریں۔ بنیاد پرست طاقتوں ‌ کو حدود میں ‌ رکھنے کے لیے تعلیم یافتہ اور باشعور افراد کو مذہب میں اصلاح‌ کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آج کے جدید دور میں ‌ مذہب کی آزاد خیال تشریح پیش کی جاسکے۔

ہم اسلامی ریاست کے تصور کو فلاحی مملکت کے اصولوں ‌ سے منسلک کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں جس میں ‌ سماجی برابری اور معاشرتی اور سیاسی جمہوریت کی وکالت ممکن ہو۔ ہمیں ‌ اس بات کو ذہن نشین کرنا ہو گا کہ جدید قومی اور بین الاقوامی طاقتوں کے ملاپ سے بننے والے ڈھانچے میں ‌ ہی برادریاں تاریخی طور پر پروان چڑھ سکتی ہیں۔

مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ یکساں مذہبی سیاست، تکثیریت اور ارتقاء کی دشمن ہے، کیونکہ وہ انسانی حقوق اور اجتماعی مقاصد کی ایک جیسی تشریح‌ پر زور دیتی ہے۔ یہ یکسانیت مختلف معاشروں، تہذیبوں اور قوانین یا ان کی وجوہات سے بے بہرہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر قدامت پسند علماء کی تنگ نظر تعلیمات نے بیرونی عوامل کے خلاف نفرت کا بیج بوکر جنوب ایشیائی مسلمان ممالک میں ‌ ان غریب اور غیر تعلیم یافتہ افراد کی لاعلمی اور لاچاری کا فائدہ اٹھایا ہے جو خود مذہب کی روشن خیال تشریح‌ نہیں ‌ کرسکتے۔

اس بنیاد پرستی سے ایمان رکھنے والوں ‌ اور ایمان نہ رکھنے والوں ‌ کے درمیان ایک خلیج قائم ہوئی ہے جس نے حالیہ سیاست کے میدان میں ‌ گہری جڑیں ‌ گاڑی ہوئی ہیں۔ حکومت میں ‌ شامل بنیاد پرستی ملائیت کو فروغ دیتی ہے۔ ملائیت غریب کے استحصال، خواتین پر جبر اور غیرت کے کے نام پر قتل جیسے بہیمانہ جرائم کو تہذیب اور مذہب کا لبادہ پہنا کر درست ثابت کرتی ہے۔ انہی حقائق کی وجہ سے جنوب ایشیا میں سائنس، جدیدیت اور اسلام کی تاریخ کو عقل کی روشنی میں ‌ سمجھنے کے خلاف مزاحمت پیدا ہوئی ہے۔ میں ‌ اس قوم پرست منطق کے شدید خلاف ہوں ‌ جس میں ‌ غیر اسلامی ممالک کی منفی عکاسی کی گئی ہو۔

یہاں پر جمہوریت کے دائرے میں ‌ عقلیتوں کی معاشی، سیاسی اور سماجی برابری کی ایک مثال پیش کروں ‌ گی۔ میری مسلمان اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر میں ‌ تکثیری جمہوریت کی تاریخی بنیادیں 1950 کی دہائی کے انقلاب میں ‌ ڈالی گئیں جس میں ‌ مذہبی بنیاد پرستی کو حدود میں ‌ رکھا گیا۔ استحصالی جاگیرداروں ‌ سے بغیر معاوضے کے زمین لے کر ان غریب کسانوں ‌ میں ‌ بانٹ دی گئیں جو نسلوں ‌ سے ان زمینوں ‌ میں ‌ کاشت کاری کرتے رہے تھے۔

اس زرعی معیشت کے نظام میں ‌ تبدیلی سے سیاسی میدان میں ‌ گراں قدر بہتری واقع ہوئی۔ جب جاگیردارانہ نظام ختم ہوگیا اور غریب کسانوں ‌ میں ‌ زمین تقسیم کی گئی تو انہوں ‌ نے دیگر کسانوں ‌ کے ساتھ اتحاد کیا اور معاشی نظام میں ‌ ان لوگوں ‌ کے لیے بہتری واقع ہوئی جو آمدن کے لیے ان کھیتوں میں ‌ ہل چلاتے اور کھیتی باڑی کرتے تھے۔ جن کی زندگی کا دارومدار ان جنگلوں، باغات اور مچھلی بھرے پانیوں ‌ پر تھا۔ معدنیات سے حاصل ہونے والی آمدن کو تمام آبادی کی بھلائی اور بہبود کے لیے مختص کیا گیا اور کسانوں ‌ کو یقین دہائی کروائی گئی کہ ان کو قرض دہندگان کے خوف سے آزاد ماحول میں اپنی زمینوں ‌ پر کاشت کاری کا حق دیا جائے گا۔ ان کو بنیادی سماجی اور صحت کے حقوق کی ضمانت دی گئی۔ ان اقدام سے کسانوں کے استحصال کے باب کا اختتام ہوا اور کسانوں کی آزادی کا دور شروع ہوا۔

ان ترقی پسند اقدام سے ایک تکثیری حکومت نے خواتین اور پسماندہ گروہوں کے لیے سماجی اور تعلیمی میدانوں ‌ میں ‌ بہتری کی ضمانت دی۔

نئے کشمیر کے منشور میں ‌ ”خواتین کے چارٹر“ کے تحت خواتین کو قومی معیشت، تہذیب، سیاست اور حکومتی اداروں ‌ میں ‌ مردوں ‌ کے برابر حقوق دیے گئے۔ خواتین کو حق حاصل تھا کہ وہ ہر دائرے میں ‌ مردوں ‌ کے برابر تنخواہ پر کام کریں۔ خواتین کو مردوں کے برابر تعلیم، سماج اور ملازمت کے ماحول کی ضمانت دی گئی، حالانکہ قانون کو ماؤں اور بچوں ‌ کے تحفظ کے لیے اس سے بڑھ کر اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔
مذہب کو سماجی اور معاشی جمہوریت کا حصہ بنانے سے میرا انسانیت کے مشکلات پر قابو پانے کی لچک اور بھائی چارے پر یقین بڑھتا ہے۔

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan