ہمپٹی ڈمپٹی اور سیکولرازم


’ونڈر لینڈ‘ نامی فرنگی سرزمینِ عجائب میں اپنی مہم جوئی کے دوسرے حصے میں ایلس باالآخر ہمپٹی ڈمپٹی نامی ایک انڈے نما مخلوق سے متعارف ہوتی ہے۔ اِدھر اُدھر کی دلچسپ اور معنی خیز جملے بازی کے بعد بالآخر کہانی میں وہ مقام آتا ہے جہاں ایلس ہمپٹی ڈمپٹی کے استفسار پر اپنا نام ظاہر کرتی ہے۔ ہمپٹی ڈمپٹی فوراً بول اٹھتا ہے کہ یہ کیسا احمقانہ نام ہے اور پھر اس کے معنی کے بارے میں سوال اٹھا دیتا ہے۔ ایلس ناموں کے معاملے میں شک میں پڑ جاتی ہے اور جوابی سوال داغ دیتی ہے کہ کیا ہر نام کے کوئی نہ کوئی معنی ہونا ضروری ہیں؟ ہمپٹی ڈمپٹی ذرا طنزیہ سی ہنسی کے ساتھ دعوی کرتا ہے کہ بالکل ایسا ہی ہے۔ اپنی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے اس کے نام کے معنی تو اس کی شکل کے ہیں اور یہ نام اس کے ڈیل ڈول کو ظاہر کرتا ہے لیکن ’ایلس‘ جیسا نام تو کسی بھی شکل کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔ یوں بات طرزِ کلام کی ماہیت تک جا پہنچتی ہے اور اعدادو اصطلاحات کی پیچیدگیوں کے کچھ مزید راستوں سے گزرتی اس چھوٹے سے مکالمے تک آ پہنچتی ہے جسے منطق و لسانیات کی اس سرزمینِ عجائب کا ایک دلکش میدان کہا جا سکتا ہے۔ترجمے کے ذریعے کچھ ناگزیر سمجھوتے تو لازمی ہیں لیکن اردو قارئین کی دلچسپی کی خاطرمکالمے کے اس حصے کا ترجمہ کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔

’’میں نہیں جانتی ’اعزاز‘ سے تمہاری کیا مراد ہے،‘‘ ایلس نے کہا۔

ہمپٹی ڈمپٹی متکبرانداز میں مسکرایا۔ ’’یقیناً تم نہیں جانتی، تاوقتیکہ میں بتا نہ دوں۔ میرا مطلب تھا کہ یہ تمہارے لئے ایک برہانِ قاطع ہے!‘‘

’’لیکن ’اعزاز‘ کے معنی ’برہانِ قاطع‘ تو نہیں،‘‘ ایلس کے اعتراض اٹھایا۔

’’جب میں کوئی لفظ استعمال کرتا ہوں ،‘‘ہمپٹی ڈمپٹی ذرا حقارت آمیز لہجے میں گویا ہوا،’’تو اس کے وہی معنی ہوتے ہیں جو میں اس کے لئے منتخب کرتا ہوں، نہ تو کم اور نہ ہی زیادہ۔‘‘

’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے ،‘‘ ایلس نے کہا، ’’ کہ آیا تم لفظوں کو اتنے مختلف معانی عطا کرنے کے قابل بھی ہو یا نہیں!‘‘

’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے،‘‘ ہمپٹی ڈمپٹی بولا،’’ کہ آقا کون ہے، تان آخر یہیں آ کر ٹوٹتی ہے۔‘‘

ایلس اب اس حد تک بوکھلا چکی تھی کہ مزید کچھ کہنا محال تھا، لہٰذا ایک لمحے کے توقف کے بعد ہمپٹی ڈمپٹی پھر بولا۔ ’’یہ بڑے متلون مزاج ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ،مثلاً خاص طور پر افعال تو بہت متکبر ہوتے ہیں، اسمائے صفات کے ساتھ تو آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن افعال اتنی آسانی سے قابو میں نہیں آتے۔ خیر میں تو ان سب کو قابو میں کر سکتا ہوں! نارسائی! میں تو بس اتنا ہی کہتا ہوں۔‘‘

’’کیا مجھے بتاؤ گے کہ اس کے کیا معنی ہیں؟‘‘، ایلس نے کہا۔

’’آہا، اب تم ایک معقول بچی کی طرح بات کر رہی ہو،‘‘ ہمپٹی ڈمپٹی بہت خوش نظر آ رہا تھا۔ ’’ ’نارسائی‘ سے میرا یہ مطلب ہے کہ بس اب اس موضوع پر کافی گفتگو ہو گئی، اور کیا ہی اچھا ہو گا کہ اب تم یہ بتاؤ کہ تمہارا اگلا قدم کیا ہو گا ، کیوں کہ گمان یہی ہے کہ تم بقیہ ساری زندگی یہیں نہیں رکی رہو گی۔ ‘‘

’’ایک لفظ میں اس قدر معنی!‘‘، ایلس فکرمند انداز میں بڑبڑائی۔

’’جب میں ایک لفظ سے اس قدر کام لیتاہوں ،‘‘ ہمپٹی ڈمپٹی بولا، ’’تو ہمیشہ اسے کچھ اضافی اجرت دیتا ہوں۔‘‘

’’اوہ!‘‘ ایلس اب اتنا گڑبڑا چکی تھی کہ اس کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا۔

’’آہ، تم کبھی انہیں ہفتے کی رات اپنی تنخواہوں کے لئے میرے ارد گرد گھومتے دیکھو،‘‘ ہمپٹی ڈمپٹی نے اپنا بڑا سا سر دائیں بائیں ہلاتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔

آسٹریائی فلسفی لڈوگ وٹگنسٹائن کا کہنا تھا کہ کسی بھی سماج کے اندر ہم سب کچھ ’’لسانیاتی کھیل ‘‘ کھیلنے میں مشغول ہوتے ہیں اور ہمیں الفاظ کے بارے میں یوں سوچنا چاہئے کہ ان کے معانی نہ صرف ان کے استعمال سے منسلک ہوتے ہیں بلکہ استعمال کے دوران تخلیق کے عمل سے بھی گزرتے ہیں۔ یوں کوئی بھی سماج بیانئے کی ایک شطرنجی کائنات رکھتا ہے جس میں الفاظ مہروں کی طرح استعمال کئے جاتے ہیں۔ ہمارے سماج کی مخصوص فکری کشمکش میں یقیناً ’سیکولرازم‘ بھی ایک ایسی ہی اصطلاح ہے۔

راقم نے کسی پچھلے مضمون میں سیکولرازم کے وکلاء کے زاویۂ نظر سے اس کی ’معقولیت‘ کی جانب کچھ اشارے کرتے ہوئے گزارش کی تھی کہ یہ فقیر سماجی منظر نامے میں سیکولرازم کے وکلاء کے زاویہ ٔ نظر سے تعقلی وابستگی پر تو یقیناً قادر ہے، لیکن ہمارے مخصوص مذہبی سماج پر سیکولرازم کی مستند مغربی شکل کو بعینہٖ منطبق کرنے کو تاحال ایک وضاحت طلب مسئلہ سمجھتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری رائے میں سیکولرازم کے وکلاء فی الوقت مسئلے کے خدوخال واضح کرنے میں کم و بیش اسی قسم کے سمجھوتے کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں جس قسم کے سمجھوتے فکری سرحد کے دوسری جانب کھڑے روایتی مذہب پسند طبقات کی جانب سے کئے جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس لسانیاتی کھیل میں فی الحال یہ بازی اس لئے معلق ہے کہ اصطلاحات کے معنی پر اصرار تو کیا جا رہا ہے لیکن اس ’نارسائی‘ کی مزید تہیں نہیں کھولی جا رہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا آگے بڑھنے کے امکانات معدوم ہیں۔

سیکولرازم کے روایتی وکلاء کے نزدیک یہ جدید ریاست کا ایک ایسا انتظامی معاملہ ہے جو کسی مذہبی امتیاز کے بغیر شہریوں کے تحفظ اور فلاح کو ممکن بناتا ہے۔ اس کے بنیادی اصولوں میں اجتماعی مشاورت ، فہم عامہ اور انصاف کے اصول شامل ہیں۔سیکولر ریاست میں تمام شہری مساوی حقوق رکھتے ہیں اور بلند معیارِ زندگی کے حصول کے لئے ریاست امن کی ضامن ہوتی ہے۔یہ وکلاء بار بار اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ سیکولرازم لادینیت یا الحاد پر مبنی کوئی نظریہ نہیں بلکہ ریاست کا ایک انتظامی معاملہ ہونے کے باعث مذہب اور مادے سے ماورا مابعدالطبیعاتی دعووں سے اسے سرے سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ ا س کا تعلق صرف اور صرف زمین پر انسانی زندگی سے ہے اور حیات بعد الموت کے بارے میں ہر فرد اپنی مخصوص رائے رکھنے کے لئے آزاد ہے۔مذہب کے بارے میں ان وکلاء کا اصرار یہی ہے کہ جدید ریاست کو مذہبی تعبیر کا پیوند لگانے کے باعث کچھ ایسے لاینحل مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ فرد کا استحصال لازم ٹھہرتا ہے کیوں کہ ریاست مذہبی امور سے غیر جانبدار نہیں رہ سکتی۔ ہماری رائے میں سیکولرازم کی یہ روایتی خاکہ بندی اب اس حد تک عام ہے کہ اس کو دہراتے چلے جانے سے کم از کم فکری محاذ پر کسی خاص پیش رفت کا امکان نہیں۔ یہ کم و بیش اسکی قسم کی تکرار ہے جو روایتی مذہب پسندوں کی جانب سے دیکھنے میں آتی ہے جہاں ان پر ’مذہبی ریاست‘ بلکہ جدید سماج میں مذہبی تعبیر کی بنیاد پر طبقاتی رسوخ کے ذریعے فرد کے استحصال کا الزام درپیش ہوتا ہے۔ جہاں تک ان متقابل نظریات کی بنیاد پر سماجی حقیقت کی عملی تشکیل کا تعلق ہے تو منطقی نتیجہ آخر کار یہی نکلتا ہے کہ معاشرے میں طاقت اور اختیار کے حصول کے لئے فریقین کس حد تک جا سکتے ہیں؟ ہمپٹی ڈپمٹی کے بقول تان تو آخر اسی پر ٹوٹتی ہے کہ’آقا‘ کون ہے۔

لیکن اگر فی الحال علم اور طاقت سے جڑی اس اہم حقیقت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے تو یہ واضح ہے کہ ہمارے سماج میں سیکولرازم کے کچھ مخصوص معانی پر اصرار کرتے طبقات اپنے متقابل کسی مذہبی ریاست کے نظرئیے کو فرض کرتے ہوئے تین بنیادی دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ اول یہ کہ سیکولرازم کوئی ایسی تعلقی بنیادیں رکھتا ہے جو ’فہم عامہ‘ کی تہہ میں موجود ہیں ؛ دوم، سیکولرازم اقداری طور پر ریاست کے انتظامی معاملات اور سماج کی ثقافتی تشکیل کے معاملے میں بالکل ’غیر جانبدار‘ ہے ؛ اور سوم، سیکولرازم اپنی بنیادوں میں کوئی ایسے مابعدالطبیعاتی مفروضے نہیں رکھتا جن کی بنیاد پر شہریوں میں کسی قسم کی تفریق کی جا سکے۔ ہماری رائے میں یہ لسانیاتی بازی اس لئے معلق ہے کہ بات ان دعووں پر ایک نیم سطحی اصرار سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ دوسرے لفظوں میں یہ بحث سیاسی و سماجی تو یقیناً ہے لیکن ہرگز علمی نہیں۔ اس کے برعکس جب دلیل مغربی نشاۃ الثانیۃ کے فکری موجدین کے ہاں سے لائی جاتی ہے تو وہ ہمارے سماج میں کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد کرنے سے قاصر رہتی ہے۔

مثال کے طور پر معاصر مغربی فلسفے میں یہ بات اب تقریباً حتمی طور پر واضح کی جا چکی ہے کہ نہ صرف سیکولر تعقل بلکہ خود تعقل کی بھی کسی تعریف پر آفاقیت سے اصرار کرنا ناممکن ہے چہ جائیکہ ا س کی بنیاد پر کسی سماجی تشکیل کے خدوخال واضح کئے جا سکیں۔سیکولرازم کے وکلاء جس چیز کو معاشرتی ارتقاء سے تعبیر کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر جدید دنیا کی ایک فسوں ربائی تشکیل ہے جہاں جدید انسان مادے سے ماورا کسی آفاقی سریت کی تفہیم سے قاصر ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ سیکولرازم ایک ایسی ریاست کا انتظامی معاملہ ہے جہاں تمام شہری بنیادی طور پر ایک مناسب اور معقول اتفاقِ رائے کے ذریعے ہر قسم کے آفاقی حقائق کو غیردلچسپ مان چکے ہوں، یہ ایک ایسی تعقل پسندی ہے جہاں چوک میں کھڑے ہو کر پردۂ غیب میں موجود کسی خدا کے ہونے کا اعلان امکانی طور پر غیرمعقول مانا جائے اور اس پر اس طرح اصرار کہ ارادۂ خدا کا سماج میں ظہور لازم آئے لازمی طوربنیادی انسانی حقوق کے منافی ہو۔بالکل اسی طرز پر سیکولرازم کا مذہب کے متقابل ایک تصوراتی جانبداری کا دعوٰی بھی نہ صرف محل نظر ہے بلکہ ایک ناقابلِ حصول خوبصورت آدرش سے زیادہ نہیں۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ سیکولر ریاست انفرادی تعقل اور اجتماعی اصولوں کو دو الگ الگ دائروں میں بانٹتے ہی اجتماعی تعقل کو تمام ایسے آفاقی اصولوں سے آزاد کر دیتی ہے جو اٹل ہوں اور جن میں ارتقاء یا تبدیلی ناممکن ہو۔ دوسری طرف یہاں انفرادی تعقل کی بنیاد پر بھی فرد کی آزادی کا تصور کچھ ناگزیر تحدیدات سے گزرتا ہے اور سماج میں تعلیم اور معیشت وغیرہ کے اداروں میں لازمی طور پر اجتماعی تعقل فرد کی آزادی کی ان حدود کو کسی نہ کسی درجے میں پامال کرتا ہے جہاں تعریفاً فرد کو مکمل آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے۔ یہ سیکولرازم کا اپنے ہی اصولوں سے ایک واضح سمجھوتہ ہے۔پھر جب ہم سیکولرازم کے بنیادی مفروضوں پر آگے بڑھتے ہوئے سیکولرائزیشن کے عمل کو ایک ثقافتی پیش رفت کے طور پر دیکھتے ہیں تو یہاں انسانی مسرت کے حصول کو ایک مابعدالطبیعاتی مفروضے کے طور پر فرض کرنے سے حیاتِ انسانی کے تمام مظاہر پر کچھ نہ کچھ نتائج لازمی طور پر اس طرح منطبق ہوتے ہیں کہ متقابل مفروضے سماجی دائرے میں پوری قوتِ اظہار سے چیلنج ہوتے ہیں۔ انسانی جسم، احساسات اور لطف سے جڑے رجحانات کچھ ایسے مسائل کھڑے کرتےہیں جو فی نفسہِ ’فہم عامہ ‘ جیسے مفروضے کے ابہامات کو آشکار کر دیتے ہیں۔ اس کی سادہ وجہ تو یہی ہے کہ انسان نہ صرف سماج میں رہنے پر مجبور ہے بلکہ انسان بطور انسان کسی سماجی تناظر میں ہی فطرت کی کوئی بامعنی تخلیق مانا جا سکتا ہے۔ ایک سیکولر تناظر میں ’انسان‘ کی تعریف یقیناً اٹل نہیں ہوتی بلکہ ترقی کی رفتار کے ساتھ ساتھ اپنی ماہیت اور تفاصیل میں ایک ناگزیر ارتقاً سے گزرتی ہے۔ یہ محض کوئی اتفاق نہیں کہ آج انسان اپنی جان تک لینے کو بنیادی انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھتا ہے اور جدید ’ہیومن‘ کے اس تصورکے پیچھے ایک مکمل اور مربوط فکری روایت موجود ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں سیکولرائزیشن کا عمل ایک فطری سست رفتاری سے جاری ہے اور ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی نوآبادیاتی تسلسل کا نتیجہ ہے ۔ لیکن اس عمل کو ریاستی تحفظ دے کر اس کی رفتار میں غیر فطری بڑھوتی کی کوشش ایک خطرناک اور نئی قسم کی سماجی کشمکش کو پیدا کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم امکانی حد تک اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’مذہب‘ کی طرح ‘سیکولر‘ کی اصطلاح بھی مبہم ہے اور تعریفِ نو کے عمل سے گزرتی رہتی ہے۔ اس مضمون میں سیکولرازم پر ہونے والی معاصر تنقیدوں کا ایک مفصل احاطہ مقصود نہیں لیکن کم ا ز کم اس حد تک باور کرانا ضروری ہے مذہبی ریاست کے کسی بھی مبہم ترین تصور کے اشکالات واضح کرنے کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہونا بھی اسی طرح ضروری ہے کہ کیا سیکولرازم واقعی معاصر مذہبی معاشروں میں کوئی قابلِ حصول سیاسی انتظام ہے؟ اور اگر ہے تو پھر اس کے وکلاءکو باالآخر اسی طرح ان مشکل سوالوں سے نبرد آزما ہونا ہے جس طرح کبھی انیسویں صدی میں یوروپی فکر ہوئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکولرازم نہ تو لادینیت ہے اور نہ ہی الحاد، لیکن ایک جدید قومیائی ریاست کی سرحدوں میں موجودایک مذہبی سماج کے اجتماعی نظام میں کسی بھی مذہبی تناظر کو غیر دلچسپ قرار دینے سے سیکولرازم ایک نیم مذہبی سا مطالبہ کرتا ہی محسوس ہوتا ہے۔ کسی بھی مذہبی ذہن کے لئے یہ مطالبہ کم و بیش ویسے ہی خدشات کا باعث ہے جیسا کہ سیکولر ریاست کے وکلاء کے لئے کسی مذہبی ریاست کا مطالبہ۔ ان خدشات کے ٹکراؤ کا واحد نتیجہ اس لسانیاتی کھیل کی صورت میں نکلتا ہے جو ہمارے سماج میں جاری ہے اور بازی تاحال معلق ہے۔ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ طاقت کے زور پر اصطلاحات کو کوئی بھی تحکمانہ معنی عطا کرنے کی بجائے شاید اب بھی کچھ ایسی صورتیں باقی ہیں جن سے ابہامات دور ہو سکیں اور کچھ بنیادی اصولوں پر اتفاق ممکن ہو۔

اس ضمن میں سب سے پہلے سیکولرازم کے ہمپٹی ڈمپٹی وکلاء کو معاصر فلسفۂ سماجیات میں سیکولرازم پر موجود تنقیدوں کا سیرحاصل جواب دینا چاہیئے تاکہ واضح ہو سکے کہ مسلم اکثریتی معاشرے میں اس مکروہ لفظ کو کیا نئے معنی پہنائے جا سکتے ہیں، بعید نہیں کہ بےچاری مذہبی ایلس کے خدشات دور ہوں، او رمغربی جمہوریت اور قومیائی ریاست کی طرح سیکولرازم کو بھی باآسانی مشرف بہ اسلام کیا جا سکے۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments