پاکستان سپر لیگ اور لاہور قلندرز


پاکستان سپر لیگ کا آغاز 2016 میں ہوا اور اب تک اس کے تین ایڈیشن ہو چکے ہیں۔ فروری مارچ میں کھیلے جانے والے چوتھے ایڈیشن کے لئے پلئر ڈرافٹ 20 نومبر کو اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ جس کے ساتھ ہی ٹیموں کی طاقت اور کمزوریوں کے بارے میں بحث اور متوقع نتائج پر بحث شروع ہو گئی۔ پاکستان سپر لیگ اس بار بھی چھ ٹیموں پر مشتمل ہو گا اور آج کی ہماری ٹیم لاہور قلندر ہے۔

لاہور قلندرز پاکستان سپر لیگ کی سب سے ناکام ٹیم، جو کہ اب تک کھیلے جانے والے تینوں ٹورنامنٹس میں آخری نمبر پر رہی۔ اب تک کھیلے گئے 26 میچز میں سے صرف 8 میچز جیتے اور 15 میں شکست کا سامنا کیا جبکہ ایک میچ نامکمل رہا۔ لاہور قلندرز کی طرف سے پاکستان سپر لیگ کے تینوں ایڈیشنز میں نامور کھلاڑی ٹیم کا حصہ رہے، جن میں کرس گیل، بریوو، برینڈن میکلم، سنیل نارائن، یاسر شاہ شامل ہیں۔ لاہور قلندرز کی قیادت کے فرائض پہلے ایڈیشن میں اظہر علی جبکہ اگلے دو میں برینڈن میکلم نے انجام دیے لیکن نتائج میں کوئی فرق نہ آ سکا۔ لاہور قلندرز کی طرف سے سب سے زیادہ 556 رنز عمر اکمل جبکہ سب سے زیادہ وکٹیں سنیل نارائن اور یاسر شاہ نے 20, 20 حاصل کی ہیں۔

لاہور قلندرز کے ٹورنامنٹ کے چوتھے ایڈیشن کے لئے محمد حفیظ کو کپتان مقرر کیا ہے۔ لاہور قلندرز کی سب سے پہلی اور بڑی پک پلاٹینم کیٹیگری میں جنوبی افریقہ کے سابق کپتان اے بی ڈی ویلئیرز ہیں جو کہ پہلی دفعہ پاکستان سپر لیگ کا حصہ ہوں گے۔ لاہور قلندرز کی بیٹنگ خاصی مضبوط ہے جس میں فخر زماں، اے بی ڈی ویلئیرز، کورے اینڈریسن جیسے پاور ہٹرز کے ساتھ ساتھ محمد حفیظ، حارث سہیل اور برینڈن ٹیلر جیسے اننگ کو سنبھالنے والے کھلاڑی شامل ہیں۔ ٹیم میں آل راؤنڈرز کی بھی خاصی تعداد موجود ہے (حفیظ، بریتھوائٹ، ڈیواسچ، اور کورے اینڈریسن) جو کہ ٹی ٹونٹی کرکٹ میں کافی مفید ہے۔ سپنرز میں لاہور قلندر کو یاسر شاہ کے ساتھ نیپالی لیگ سپنر سندیپ لامیکین، نیوزی لینڈ کے ڈیواسچ اور محمد حفیظ کی خدمات حاصل ہوں گی۔

فاسٹ بالنگ کے شعبے میں لاہور کے پاس شاہین آفریدی کا ساتھ دینے کے لئے راحت علی اور چارلس بریتھوائٹ ہی قابل ذکر ہیں، نوجوان پاکستانی فاسٹ باؤلر حارث رؤف بھی ٹیم کا حصہ ہیں۔ واضح طور پر لاہور قلندرز کی فاسٹ بالنگ کا شعبہ کمزور ہے، جس میں دنیائے کرکٹ کے مشہور نام شامل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ وکٹ کیپنگ میں بھی لاہور قلندرز کے پاس ٹی ٹونٹی کرکٹ کے حساب سے بہترین آپشن دستیاب نہیں ہیں، زمبابوے کے برینڈن ٹیلر اور پاکستانی عمیر مسعود دونوں ٹی ٹونٹی کے حساب سے کوئی بڑے نام نہیں ہیں۔

اس دفعہ اڑتیس سالہ محمد حفیظ کو کپتانی دینے کا فیصلہ بھی کچھ نا سمجھ میں آنے والا ہے۔ حفیظ کی بالنگ پر پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ ون ڈے میں جو شک کے بادل چھائے تھے، اس کی وجہ سے پہلے ٹیسٹ میں حفیظ کو بہت کم بالنگ کرائی گئی، اگر حفیظ بالنگ کے لئے دستیاب نہ ہوں تو ان کو پلاٹینم کیٹیگری میں ٹیم میں شامل کرنا اور کپتان بنانے کا فیصلہ بیک فائر بھی کر سکتا ہے۔ لاہور کی ٹیم بہت زیادہ مضبوط نہیں ہے اور پچھلے تین ایڈیشنز کے نتائج بدلنے کے لئے محمد حفیظ کی ٹیم کو بہت محنت کرنا ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).