زبان ملک کی پہچان ہوتی ہے


ہر ملت وقوم کی پہچان جہاں تہذیب وتمدن اور رہن سہن سے ہوتی ہے تو وہی معرفت کا ایک بہت بڑا ذریعہ زبان بھی ہے۔ دنیا میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں اور ظاہر ہے کہ ہر قوم وملت کا کسی نہ کسی زبان کے ساتھ وابستگی اور تعلق ضرور ہوتا ہے۔ اور بات محض تعلق تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ متعلقہ زبان اس قوم کی معرفت کا ذریعہ بن جاتی ہے اور پھر ایک وقت وہ آتا ہے کہ یہی زبان قومی تشخص کی بقاء کا ذریعہ ہو جاتی ہے۔ ہمارا ملک پاکستان ہے اور اس وطن خدادا میں کئی قومیں بستی ہیں اور ظاہر ہے کہ کئی زبانیں بھی بولی جاتی ہوں گی مگر۔

۔ اس ملک کی زبانوں میں جس زبان کو قومی حیثیت حاصل ہے وہ ہے ”مظلوم اردو“ قارئین کرام! آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اردو کا لفظ تو سنا مگر مظلوم کے ساتھ نہیں سنا۔ جی ہاں! بات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب اردو کے ساتھ مظلوم کی آمیزش بھی ہو۔ لیکن ظاہر ہے کہ بات اس سے اور آگے چلے گی کہ مظلوم تو اسے کہا جاتا ہے جس پر ظلم کیا گیا ہو۔ اس پر ظلم کرنے والے کون ہیں؟ ؟ اس کا جواب لکھتے ہیں تو قلم بھی ساتھ چھوڑنے لگتا ہے کہ کہ کیسے لکھا جائے کہ ظالم کون ہے۔

لیکن دل تھام کر قلم کو سمجھا کر کہ آخر یہ ظلم کب تک سہتے رہیں گے؟ کب تک لبوں پر انگلی رکھے بیٹھے رہیں گے؟ ، آخر کب تک اپنوں سے بے وفائی سہتے رہیں گے آخر کب تک؟ ”آخر کب تک اپنوں سے بے وفائی سہتے رہیں گے“ یہ کیسی بات کیا ظالم اپنے ہیں؟ جی ہاں ظالم اپنے ہیں۔ ”غیر تو غیر ہے غیروں سے کیا گلہ“ ذرا سوچئے! کیا سائن بورڈز پر انگش میڈیم لکھنے، لکھانے والے اپنے نہیں؟ کیا ملکی باگ ڈور سنبھالنے والے اپنے نہیں؟

انتہاء ظلم تو یہ ہے کہ اس ملک کی چار دیواری میں چلنے والے اداروں میں داخلہ کی شرط ”English high speaking power“ کیا یہ کلمہ ادا کرنے والے اپنے نہیں؟ ہر ملک کا باشندہ اپنی قومی زبان میں گفت و شنید کو پسند کرتا ہے۔ اور اس پر فخر محسوس کرتا ہے لیکن بد قسمتی اس ملک کے باشندے قومی زبان کے استعمال سے ماتھے پر بل اور طبیعت پر بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ قانون قانون کی گردان پڑھنے والے، اپنے ذاتی مفاد میں قانون کی راہ تکنے والوں کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا وہ تاریخی جملہ کیوں یاد نہیں آتا۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے حصول آزادی کے بعد 24 مارچ 1948 ء کو ڈھاکہ میں واشگاف الفاظ میں بیان کیا کہ ”پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی“۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس قوم کا بچہ ایپل (Apple) تو سمجھ سکتا ہے پر سیب نہیں جانتا، وہ تھینک یو (Thank you) تو بول سکتا ہے مگر شکریہ نہیں کہ سکتا۔ اس بے کسی کے حالات میں اب دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ایک ذمہ داری تو ان طبقوں پر ہے جو حاکمانہ صلاحیت سے سرشار ہیں اور دوسری ذمہ داری اس سرزمین خدادا میں بسنے والے ہر فرد کی ہے۔

وہ افراد جن کے ہاتھوں میں اس ملک کی عزت ہے ان کا فرض ہے کہ خدارا اس ملک کی قومی تشخص کی بقاء کی جنگ لڑ کر غیروں کے طرز و عمل، تہذیب و تمدن، چال چلن، زبان و کردار کو خیر آباد کہہ کر اپنے ماتحت اداروں میں قومی زبان کو فروغ دینے کے لئے جہد مسلسل جاری رکھیں۔ اور غیروں کی نقالی سے باز رکھنے کے لیے باقاعدہ کوئی قانون تشکیل دیں اور قومی زبان کو باقاعدہ قومی اور ملی حیثیت دیتے ہوئے بزور بازو اس کو نافذ کریں۔ اور دوسری ذمہ داری جو انفرادی ہے وہ یہ کہ اپنے لب ولہجہ سے غیرانہ طرز وعمل کو تین طلاق دے کر قومی زبان اپنائیں اور اس کی ترویج و اشاعت کے لئے جو کرسکتے ہیں وہ کرنے کی کوشش کریں اور قومی غیرت کا مظاہرہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).