مسیحی اور شادی کے قانون سے پہلے طلاق کا قانون
یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ پاکستان میں مسیحی آبادی کے لیے شادی کے قانون سے پہلے طلاق کا قانون بنایا گیا۔ انگریزوں کے دور میں سن اٹھارہ سو انسٹھ میں مسیحی طلاق کا قانون بنا جبکہ اٹھارہ سو بہتر میں شادی کا قانون بنایا گیا۔
جب اس کی وجہ معلوم کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نکاح کی رسم ادا کرنے کے لیے تو چرچ موجود تھے اور پادری اور فادر نکاح پڑھا دیا کرتے رہے تا ہم جب کبھی شادی شدہ جوڑے میں اختلافات کے سبب بات طلاق تک پہنچتی تو یہ معاملہ عمومی طور پر لڑائی جھگڑے کا باعث بنتا جس کی وجہ سے قانون کو حرکت میں آنا پڑتا۔ اس بنا پر اس وقت برطانیہ میں موجود طلاق کے قانون سے رہنمائی لے کر اور کچھ مقامی صورتِحال کو مدِ نظر رکھ کر مقامی مسیحوں کے لیے مسیحی طلاق کا قانون نافذ کیا گیا۔ جب گورے یہاں سے چلے گئے تو پاکستان اور ہندوستان کی نئی آنے والی حکومتوں نے دوسرے قوانین کی طرح مسیحیوں سے متعلق شادی اور طلاق کے قوانین کو بھی رائج کر دیا۔
انیس سو اکیاسی تک مسیحی طلاق کے قانون میں کوئی بہت بڑی ترمیم نہیں ہوئی ماسوائے چند پروسیجرل تبدیلیوں کے لیکن جنرل ضیا الحق کے دور میں جہاں دیگر قوانین کے ساتھ بلاتکار ہوا وہیں مسیحی طلاق کے قانون میں بھی ترمیم کر دی گئی۔ اس ترمیم نے مسیحی خواتین کے لیے بے تحاشا مشکلات پیدا کر دیں۔ اس ترمیم کے ذریعے قانون کا سیکشن سات جو عورت یا مرد میں سے کسی کو بھی یہ حق دیتا ہے کہ وہ دیگر وجوہات کے علاوہ اس وجہ سے بھی طلاق کا حق رکھتے ہیں کہ ان کو اپنے جیون ساتھی کے نامناسب رویہ کا سامنا ہے، اور وہ مزید اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اس سیکشن کے ختم ہونے سے طلاق کے قانون کی سیکشن دس کے مطابق مرد اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے زنا اور حرام کاری کا الزام لازمی لگائے گا۔ صرف اسی ایک الزام کو ثابت کر کے وہ اپنی بیوی کو چھوڑ سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت بے شمار خواتین ذلت اٹھا رہی ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ دنیا کے کسی بھی مذہب اور مہذب معاشرے میں طلاق کے عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور تقریباّ ہر مہذب ملک میں میاں بیوی کی کونسلنگ کے ادارے موجود ہیں، کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان شاز و نادر ہی کوئی ایسامسئلہ ہوتا ہے جس کو سلجھایا نہ جا سکے، تا ہم انیس سو پچاس کی دہائی میں یورپ اور امریکہ میں ایسی قانون سازی سامنے آئی جس کو No Fault Divorce کہا جاتا ہے۔
اس قانون سازی کے تحت مرد یا عورت جب طلاق کے لیے ریاستی اداروں کے ساتھ رابطہ کریں تو پہلے تو ان کی صلح کے لیے کوشش کی جائے تا ہم اگر کسی بھی صورت میں وہ طلاق کا ہی فیصلہ کرتے ہیں تو پھر طلاق حاصل کرنے کے لیے ان کو ایک دوسرے پر الزام لگانے کی ضرورت نہیں وہ محض یہ بتا کر کہ وہ الگ ہونا چاہتے ہیں، ان کو طلاق دینے کا حق مل جائے۔
پاکستان میں دو ہزار سترہ میں لاہورہائی کورٹ میں ایک بہت دلچسپ کس پر بحث ہوتی رہی ہے۔ امین مسیح نامی ایک مسیحی نے ریاست پاکستان کو مخاطب کیا کہ وہ اور اس کی بیوی سونیا الگ ہونا چاہتے ہیں لیکن میں اپنی بیوی پر زنا اور حرام کاری کا الزام نہیں لگانا چاہتا کیونکہ وہ اس قسم کے کسی مکروہ کام میں ملوث نہیں ہے، اس لیے قانون اس کی رہنمائی کرے۔ امین مسیح نے اپنی درخواست میں مسیحی طلاق کے قانون کے سیکشن سات کو بھی بحال کرنے کی درخواست کی۔
اس پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے ریاست پاکستان، پاکستان کے بڑے چرچزکو نوٹس جاری کرکے اپنا موقف پیش کرنے کا کہا اس کے علاوہ عدالت نے بذریعہ اشتہار عوام الناس سے بھی کہا کہ اگر کوئی اور فرد یا ادارہ بھی اس پر اپنا موقف پیش کرنا چاہتا ہے تووہ بھی عدالت میں آ سکتے ہیں۔
اس پر دوسروں کے علاوہ عزت ماآب بشپ الیگزینڈر جان ملک نے تحریری طور پر اپنا موقف پیش کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ مسیحی طلاق کے قانون میں ترمیم کرتے وقت مسیحی رہنماؤں کے ساتھ کوئی مشورہ نہیں کیا۔ جب یہ ترمیم ہوئی میں لاہور کا بشپ تھا لیکن ہمارے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ انہوں نے لکھا کہ اگر عدالت سیکشن سات کو بحال کرنا چاہتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
بشپ ملک پاکستان میں بہت جانے مانے مسیحی مذہبی رہنما ہیں، اور اس قانون میں تبدیلی کے حوالے سے جو اعتراض ہے کہ اس قانون میں تبدیلی خدا نخواستہ بائبل میں تبدیلی کے مترادف ہے، ان کو بشپ ملک کا یہ بیان پڑھ لینا چاہیے۔
چلتے چلتے ایک اور بات موجودہ قانون میں ایک اور تبدیلی بھی ہونے والی ہے، موجودہ قانون کے مطابق جو مرد کسی کی بیوی کے زنا حرام کاری کرتا ہے اور عورت کا خاوند عدالت میں اسی زنا حرام کاری کی بنا پر طلاق مانگتا ہے وہ اس زانی مرد سے اپنی بیوی کو استمعال کرنے پر معاوضہ بھی طلب کرسکتا ہے اب وہ کیا کہتے ہیں جو اس قانون میں تبدیلی کو بائبل میں تبدیلی سے منسوب کرتے ہیں۔
- سرکاری تحویل سے واپس ہوئے مشنری سکولوں کی حالت - 10/10/2020
- ارطغرل: ڈاکٹر البرٹ جان کے لکھے مضمون پر آئے کمینٹس کا جائزہ - 01/06/2020
- چُک بال گیم میں بال چھیننا فاؤل ہے - 04/03/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).