بجنگ آمد: اردو مزاح کی بے نظیر کتاب


نامور ادیب مستنصر حسین تارڑ سے جب بھی ملاقات ہو، کتابوں پر بات ضرور ہوتی ہے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ حالیہ عرصہ میں انھوں نے کون سی کتابیں پڑھی ہیں اور کون سی زیر مطالعہ ہیں۔ کتابوں کے بارے میں ان سے کچھ ذکر ہم بھی کرتے ہیں۔ گاہے کتابوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔ بزرگ ادیبوں میں ان جیسا پرشوق قاری ہم نے کم ہی دیکھا۔ انگریزی اردو ہر دو زبانوں کی اچھی کتابوں کی چیٹک میں رہتے ہیں۔ مطالعہ کا ایک رنگ یہ بھی ہے کہ اپنی کسی پسندیدہ کتاب کو دوبارہ پڑھا جائے۔

چند دن پہلے ان سے ملنا ہوا تو معلوم ہوا کہ اگلے روز ہی انھوں نے کرنل محمد خان کی ”بجنگ آمد“ ختم کی ہے۔ یہ کتاب وہ کئی دفعہ پڑھ چکے لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب کی بار بھی پہلے کی طرح لطف آیا۔ وہ اسے اردو میں شگفتہ ادب کی سب سے بڑی کتاب جانتے ہیں۔ ان کے بقول ”بجنگ آمد اردو ادب کا ایک ایسا شاہکار ہے کہ اس کے سامنے مزاح کی دیگر کائنات ماند پڑ جاتی ہے“ اتفاق کی بات ہے کہ مستنصر حسین تارڑ سے نشست کے دو تین روز بعد کسی مضمون کی تلاش میں ”سویرا“ کی فائل دیکھنی پڑی تو 1968 کے ”سویرا“ میں محمد سلیم الرحمٰن کا ”بجنگ آمد“ پر تبصرہ نظر سے گزرا۔

اس تبصرے میں کتاب کی بڑی تعریف ہے، اب یہ مبصر ایسے نہیں کہ کتاب اچھی لگے تو سراہنے میں مبالغے سے کام لیں، دوسرے وہ تبصرے میں اپنی پسندیدگی کی وجوہات اور فن پارے کی اصل خوبی اجاگر کردیتے ہیں، ایسا ہی کچھ اس تبصرے میں بھی تھا، حیرت یہ جان کر ہوئی کہ وہ کتاب تین بار پڑھ چکے ہیں، اور یہ اس وقت کی بات ہے جب اسے شائع ہوئے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا۔

مستنصر حسین تارڑ کی منہ زبانی اور محمد سلیم الرحمٰن کی تحریری پذیرائی نے اس بات پر اکسایا کہ اردو مزاح کی یہ معروف کتاب دوبارہ پڑھ کر اس پر کچھ لکھا جائے کہ شاید جس نے اسے پڑھ رکھا ہو وہ دوبارہ اس سے رجوع کرے اورجو یہ شاہکار پڑھنے سے محروم ہے وہ اب غلطی کی تلافی کر لے۔ اس کتاب کی قرات کا تازہ تجربہ بھی پرلطف رہا۔

اس کتاب کا پیغام کیا ہے وہ مصنف نے پیش لفظ میں بتا دیا ہے :

” کتاب کا پیغام ضرور ہے اور یہ وہی مشہور پیغام ہے جو ایک عارف افیونی نے ایک کم عارف افیونی کو صرف چار لفظوں میں دیا تھا۔ دونوں دوست ترنگ میں جارہے تھے کہ کم عارف افیونی کنویں میں لڑھک گیا۔ عارف نے دوست کو غائب پایا تو چلایا:

” کہاں ہو دوست؟ “
کنویں سے فریاد اٹھی: ”یہاں ہوں۔ “
عارف نے فی البدیہہ پیغام دیا:
” اچھا دوست، جہاں رہو، خوش رہو۔ “ اور آگے چل نکلا۔

یہ کتاب بے ساختگی کی بنا پر پسند کی جاتی ہے، عام طور پر تحریر میں بے ساختہ پن کا تصور یہ ہے کہ قلم کار نے اس پر محنت نہیں کی ہوگی، یہ بات درست نہیں، تحریر میں یہ خوبی پیدا ہی تب ہوتی ہے جب اسے اچھی طرح مانجھا جائے۔ کرنل محمد خان نے اپنی کتاب کی اس خوبی کا ”پول“ ڈاکٹر طاہر مسعود سے انٹرویو میں کھولا ہے :

” یہ لکھنے والے کا کمال ہے کہ اس کی ساختہ تحریر بے ساختہ محسوس ہو۔ ’بجنگ آمد‘ کی خوبی اس کا بے ساختہ پن بتایا جاتا ہے لیکن یہ میں ہی جانتا ہوں کہ اس کی زبان کتنی ’بے ساختہ‘ ہے۔ “

ہمارے خیال میں اردو مزاح نگاری کے مجموعوں میں ”پطرس کے مضامین“، شفیق الرحمٰن کی ”حماقتیں“ اور کرنل محمد خان کی ”بجنگ آمد“ جتنے ذوق وشوق سے شاید ہی کوئی اور مجموعہ پڑھا گیا ہو، ان کتابوں کے بہت سے ایسے قاری ملتے ہیں جنھوں نے مدتوں پہلے انھیں پڑھا لیکن بدستور ان کے گن گاتے ہیں۔ اس مرتبے کو ابن انشا کی ”اردو کی آخری کتاب“ اور ”خمار گندم“ بھی پہنچتی ہیں لیکن شاید ان کا فین کلب ”پطرس کے مضامین“، ”حماقتیں“ اور ”بجنگ آمد“ جتنا بڑا نہیں۔

ممتاز ادیب محمد خالد اختر ادب کے بڑے سنجیدہ قاری تھے۔ ادیبوں میں مطالعہ کا ایسا رسیا کم ہی ہوا ہوگا۔ ”بجنگ آمد“ انھیں بھی بہت پسند تھی۔ ”فنون“ میں اس پر تفصیلی تبصرہ کیا جس کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو:

” یہ مزاح استادی اور روایتی مزاح کی طرح عبارت آرائی کا محتاج نہیں۔ یہ ایک قدرتی جھرنے کی طرح ابھرنے والا مزاح ہے۔ اس فوجی کے طرز بیاں میں ایک ایسی قدرتی کیفیت ہے جس پر ہمارے بہترین لکھنے والے رشک کرسکتے ہیں، یہ مکمل طور پر دل و دماغ کو مسخر کرلیتی ہے۔ “

معروف مزاح نگار ضمیر جعفری کے بقول ”میں اس کتاب کو اردو کی بہترین مزاحیہ تصنیفات میں سے سمجھتا ہوں۔ “

” بجنگ آمد“ کے بارے میں اور بھی ادیبوں کا کہا لکھا موجود ہے، ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ بڑے ادیب جن کے بہت اچھا قاری ہونے کی بھی شہرت ہے انھیں یہ کتاب کس قدر پسند ہے۔ یہ کتاب کیڈٹ سے میجر بننے تک کے عرصہ ( 1940 سے 1947 ) کا احاطہ کرتی ہے، جس میں برصغیر سے باہر بغداد، مصر اورصحرائے لیبیا میں گزرا ڈھائی برس کا عرصہ شامل ہے۔ اس سفر سے لوٹنے کے بعد محمد خان ایک برس سیالکوٹ اورڈیڑھ برس برما میں رہے جہاں سے 30 مارچ 1947 کو پشاور پہنچے۔

کرنل محمد خان لیفٹینی حاصل کرکے اونچی ہواؤں میں اڑ رہے تھے لیکن دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے کودنے سے اس عہدے کا وقار جاتا رہا کہ اب بڑی تعداد میں دیسیوں کے لیے یہ مقام بلند حاصل کرنے کی راہ کھلی۔ اور بقول مصنف : ”وہی لفٹینی جو ہم نے خون جگر سے حاصل کی تھی، سرراہ بٹنے لگی۔ “

مصنف نے لفٹین بھرتی ہونے سے پہلے دل میں جانے کیا کیا خیال باندھے تھے، لیکن فوج کا حصہ بنتے ہی لگ پتا گیا۔ ڈرل کرتے ہوئے جو گھرکیاں سنیں اور جس ضبط سے کام لینا پڑا، اس کے بارے میں لکھتے ہیں :

” اِس کے بعد ڈرل شروع ہوئی اور خوب تیزی اور تندی سے حکم ملنے لگے : ’سیدھے دیکھو۔ چھاتی باہر۔ ٹھوڑی اوپر۔ بازو ہلاؤ۔ ہالٹ۔ ہلومت۔ مکھی مت اڑاؤ۔ ہنسو مت۔ ‘ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب میں ’ہلومت‘ کے حکم پر عمل کرنا عذاب عظیم تھا۔ سیدھے بت بنے کھڑے ہیں کہ کان پر کھجلی محسوس ہوتی ہے۔ اب ہاتھ کو جنبش دینا جرم ہے۔ کندھا کان تک نہیں پہنچ سکتا۔ کان کا خود ہلنا منشائے فطرت نہیں اور وہاں تک ہاتھ لے جانا منشائے سارجنٹ نہیں۔ عین اس وقت ایک مکھی ناک پر نازل ہوتی ہے۔ مکھی کو فنا کرنے کی بے پناہ خواہش دل میں پیدا ہوتی ہے، لیکن سارجنٹ سے آنکھ بچانا کراماً کاتبین سے آنکھ بچانا ہے۔ مکھی پر دست درازی کا خیال آتا ہے، تو سارجنٹ گویا ہاتھ ہلانے کے خیال ہی کو دیکھ لیتا ہے اور اپنی کاکنی انگریزی میں چلا اٹھتا ہے Don ’t kill no fly یعنی مکھی مت مارو۔ “

”ہاتھ وہیں کا وہیں سوکھ جاتا ہے اور مکھی نہایت اطمینان سے ناک کے نشیب و فراز کا معائنہ کرتی ہے۔ ایسے اشتعال انگیز حالات میں بے حرکت کھڑے رہنا صحیح معنوں میں نفس کشی تھی۔ اس وقت زندگی کی واحد خواہش صرف اتنی ہوتی کہ کب ڈرل ختم ہو اور جی بھر کر ناک اور کان کھجائیں اور بالاخر ڈرل ختم ہوتی اور ہم بلاخوف تعزیر کانوں کو چھو سکتے اور مکھیوں کو اڑا سکتے، تو ہمیں محسوس ہوتا کہ کان کھجانا اور مکھی اڑانا بھی کس قدر عظیم عیاشی ہے، بلکہ اسی خوشی میں وہ آبلے بھی بھول جاتے جو ان آہنی بوٹوں کے اندر ہی بنتے اور پھوٹتے تھے۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2