رانجھا میرے خواب میں نہیں آتا


مشر نے اچھی طرح سمجھا رکھا تھا ۔ جب بھی کسی فیصلے پر قسم کھانے کی نوبت آ جائے تو خود کھانی چاہئے۔ جب کوئی بات کرتے زیادہ عربی بولے قسم کھائے کلمہ پڑھ کر یقین دلائے تو وہ کوئی بڑا جھوٹ ہی بول رہا ہوگا۔

مشر ٹھیک کہتا تھا حالات ایسے ہی تھے۔ اردگرد مذہبی ہونے کی اداکاری کرتے لوگ تھے۔ وہ ٹیکہ لگانے سے پہلے یہی کچھ کرتے کہتے تھے۔

مشر سے ہی مل کر نکل رہا تھا ۔ کارخانو مارکیٹ سے سیدھا گھر مڑنے کی بجائے لمبے روٹ کو مڑ گیا تھا۔ مشر نے ایک موبائل فون ڈھونڈ کر سستا دلوایا تھا۔ اس کا کہنا تھا کمبخت تمھارا افئر چل رہا فون اچھا ہونا چاہئے۔

فون اچھا بھی تھا مختلف بھی تھا۔ نام تو مزے کا تھا سینڈو موبائل، کسی سپینش کمپنی کا برانڈ تھا۔ عربن سے ملنے گیا تو اس نے اس فون پر اک لائٹ والی جھالر لگا دی تھی۔ رات کو بیل بجنے کی بجائے وہ جھالر جلنے بجھنے لگتی۔

بہت اچھا لگتا تھا ۔ ان دنوں سفر میں رہتا تھا۔ اک رات کہیں دوسری کہیں ۔ اکثر تاروں بھرے کھلے آسمان کے نیچے سوتا بلکہ جاگتا عربن سے میسجو میسج ہوتا رہتا تھا۔

کارخانو سے نکلا تو اک کھلی جگہ رک کر کچھ سوچنے لگا۔ ڈرائیور سائڈ پر دستک ہوئی۔ ایک پوڈری نے کہا پیسے دے۔ اسے کہا بھاگ جا نہیں دیتا۔ اس نے کہا اللہ کے نام پر دے دے۔ غصہ تو آیا کہ پوڈری تنگ کر رہا تھا۔

پر جب بولا تو اسے سچ بتایا کہ اس وقت جیب میں پیسے نہیں ہیں۔ تو وہ آگے سے بولا کہ خدا کے نام پر جو مرضی دے دے۔ پیسے دینا ضروری تھوڑی ہیں۔

اک لمحہ تھا جس میں کئی خیال آئے ۔ ایک یہ بھی تھا کہ ربا افئر کامیاب ہو نہیں رہا۔ اب تجھے مزے سوجھ رہے اپنے نام پر ایموشنل بلیک میل۔ مدد کر نہیں رہا اور مطالبے کر رہا۔ جا دیا تیرے نام پر کیا یاد کرے گا، ہماری سخاوتیں۔

پوڈری کو کہا یار یہ موبائل ہے لے لے۔ وہ تھوڑا حیران تھوڑا ڈٓانواڈول ہوا۔ موبائل پکڑ لیا پھر بولا سم نکال لو۔ اسے کہا جا یار یہ بھی رکھ جب موبائل دیا تو یہ کیا کرنی۔ گئیر لگا کر وہاں سے نکل آیا۔

اب نہ نیا موبائل فون خریدنے کے پیسے۔ نہ رابطے کا کوئی ذریعہ۔  کچھ دن بعد بھائی نے پوچھا کہ تمھارا موبائل کدھر ہے۔ اسے کہا چلا گیا ۔ اس نے کہا کدھر چلا گیا۔ کہا جدھر لینے والے لے گئے۔ وہ پتہ نہیں کیا سمجھا ۔

اب بغیر رابطے کہ اکیلا بیٹھا بس رب سے باتیں کرتا رہا ۔ کہ بہترین چلا رہا ہے دنیا۔ کسے کا کوئی اچھا ہونے نہ دینا۔ خود سے باتیں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔

یاد آیا کہ پہلا بریک اپ ہوا تو آئیس سے ملاقات ہوئی تھی۔ پاکستانی فرنچ دوست۔ جس کی اک پیار کہانی تھی۔ وہ خاموشی سے پاکستان چھوڑ گئی جب اسے لگا کہ جسے وہ چاہتی۔ وہ اپنے خواب پورے نہیں کر سکے گا۔ اگر اس کے پیچھے چل پڑا۔

تو اس کو زندگی منانے کے لیے چھوڑ کر وہ پاکستان سے ہی اکیلی نکل کر پیرس جا کر مقیم ہو گئی۔ انسان تو ایسے ہی اوٹ پٹانگ فیصلے کرتے ، کام کرتے ہیں۔ خدا پھر انہیں ان کے فیصلوں میں آزماتا ہے۔

وہ پیرس گئی تو جسے چھوڑ کر گئی تھی۔ وہ شادی کر کے کمپنی کی طرف سے پیرس پہنچ گیا۔ پھر آئس اس کی بی وی سے اس کے جھگڑے نپٹاتی ۔ اس کے بچوں کو سیر کراتی پھرتی۔ اپنا قصہ سناتے اس نے کہا لائف ہے یار۔ اینوئیں اچھا بننے کی کوشش کرو تو خدا پھر دیکھنے آتا کہ سچ میں اچھے ہو یا ایکٹنگ ہی ہو رہی۔

اس سے پوچھا کہ تو کیا پھر تم سچ میں اچھی نکلی ۔ تو اس کا جواب تھا نہیں یار کہاں ایکٹنگ ہی کرتے ہیں ہم سارے۔

اپنی عادت ہر حال میں خوش رہنے کی ہے۔ اک دن ویسے ہی مایوسی کا پورا اک ٹن بنا بیٹھا تھا۔ اکیلا تھا رات تھی دفتر میں کام نہیں تھا۔ آئیس آن لائین ہوئی باتیں ہوئیں۔ اس نے کہا ڈاؤن ہو۔ تو اقرار کرتے ہی بنی کہ ہاں ہوں ۔

زندگی بے مقصد سی لگ رہی۔ خدا کو لگتا کوئی پروا نہیں کہیں اور بزی ہے۔

آئیس بولی یار عجیب ڈھکن ہو آدھی رات کو جب سارا پاکستان سو رہا۔ الو کی طرح جاگ رہے ہو۔ مایوس آندھی چلا رہے ہو۔ اتنا بھی خیال نہیں کہ دنیا کے دوسرے کنارے سے اک حسینہ اپنے دفتر ٹائم پر تم جیسے ۔۔۔۔ سے بات کر رہی۔

ساری مایوسی تحلیل ہو گئی۔ اک جلنے والی بات بتاؤں آئیس سے اک وقت میں ہمارے اک مشہور کرکٹر اک مشہور اداکار دونوں ہی شادی کرنا چاہ رہے تھے۔ اداکار بیچارہ تو بزت بھی ہوا کافی اس چکر میں۔

محبتوں کا سفر بڑا عجیب ہے۔ اس سفر میں انہونی ہوتی ہے۔ لوگ ملتے ہیں۔ کبھی ایسے بھی جو معلوم معیار پر ٹھیک لوگ نہیں ہوتے۔ پر محبت کے سفر میں ٹھیک نا ٹھیک سب آپس میں گڈ مڈ ہوتا رہتا ہے۔

اکیلا بیٹھا اپنی کہانی میں ملے کرداروں کو یاد کرتا رہا۔ جب محبتوں کے سفر پر نکلے تھے۔ تو کیسے وہ سب ہمراہ ہو گئے تھے جو محبت کی کہانی کہ کردار تھے۔

استاد کے ساتھ بیٹھا ویڈیو گیم کھیل رہا تھا۔ جب اس نے چائے کے دوسرے سپ پر اک ٹھنڈی آہ بھری۔ تب اس سے پوچھا سر جی بریک اپ ہو گیا۔ بڑا بزت کیا تھا سر جی نے۔

تیسرے دن بتایا کہ بریک اپ ہی ہوا تھا۔ بال بچے دار سا عشق تھا۔ جس میں سیاست حکومت سب گھوم رہے تھے۔ ہنسی تو آتی رہی سمجھ بھی آتی رہی۔

سفر پر روانہ ہونا تھا ۔ جب پشاور سے نکلنے لگا تو دوسرا سیل فون مل گیا۔ سم لینے گیا تو دل نے کہا پرانی سم تو دے چکے اب نئی لو سخیو۔ نئی سم لے لی عربن سے رابطہ پکا ٹوٹ گیا۔

موٹروے سے اتر کر لنک روڈوں پر رواں تھا۔ درباروں پر ملنگوں کو ملنا تھا یہی اسائنمنٹ تھی ۔  ایسے میں فون کی بیل بجی۔

او ادا کدا تو فون بند کر دتا۔ اسی تیرے فون تے گل کر دے کوئی پاگل جیا ٹکر دا۔ قسما کھاندا کہ اے فون او مینوں دے گیا۔ ادا کدا دے دتا۔ تو پاگل ایں۔

یہ سیم تھی لندن ہوتی ہے۔ اس کے دادا لندن گئے تھے۔ خاوند پاکستانی بلکہ لیل پوری ۔ پنجابی انگریزی میں بولتی ہے۔ وہاں پولیس میں جاب کرنے لگ گئی ہے۔ نئی نمبر پر پہلی کال اس کی آئی کہ تم ایسے کیسے فون بند کر سکتے ہو۔

سیم نے بتایا عربن دا فون آیا سی۔ میرے بندے نال گل ہوئی سی۔ اس شرلاک ہومز کی پھوپھو نے میرا نیا نمبر ڈھونڈ لیا تھا ۔ دنیا گول ثابت ہو گئی تھی ۔ اب مجھے اچھی طرح گول کرنے پر تل گئے تھے سارے ۔ پہلے سیم پھر مشر پھر عربن سب نے خوب عزت افزائی کی ۔

مشر نے بتایا کہ میرا فون واپس وصول کرنے کے لیے وہ لشکر تشکیل دے چکا ہے ۔ جس نے خریدا ہے اس کے ساتھ جرگہ ہو گا ۔ کم از کم گیارہ فون اس سے وصول کریں گے ۔ پر میرا اس طرح سخیو بننا مجھے الگ سے بھگتنا ہو گا ۔

عربن کی کال آئی تو فون کان سے اک فٹ دور رکھ کر آن کیا تھا ۔  فون کی طرف والا کان تو آج بھی ڈیمیج فیل ہوتا ہے ۔ دوسرا بھی پہلے لال پھر نیلا ہو گیا تھا ۔

یہ فون میں روڈ پر کھڑا ہو کر مائی ہیر کے جھنگ میں سن رہا تھا ۔ جب ان سب کو بھگتا لیا یا یہ سارے تھک کر فون بند کر گئے ۔ تب سیٹ پر لمبا لیٹ کر میں نے آنکھیں بند کر لیں۔

اونگھ سی آ گئی تھی تب میں نے دیکھا کہ رانجھا وہی اپنا تخت ہزارے والا گنا ہاتھ میں پکڑے مجھ پر دانت نکال رہا تھا۔ اسے کہا رانجھیا اب نہیں رات کو خواب میں آنا پھر دیکھتا میں تیرے ساتھ ۔ پر رانجھا میرے خواب میں نہیں آتا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi