ایک تجربہ جس سے مجھے یوٹرن کی اہمیت سمجھ آئی


بہت مدت بعد صوبہ خیبرپختونخوا کی طرف سفر کا موقع ملا۔ اسلام آباد سے روانہ ہوئے تو موسم ابر آلود تھا۔ موٹروے کی چکنی اور کشادہ سڑک پر گاڑی دوڑنے کے بجائے گویا تیرتی ہوئی جارہی تھی۔ نہ کوئی رش، نہ بار بار کی بریکس، نہ کوئی جھٹکا۔ اگرچہ ہم دوست کسی قریبی ساتھی سے اس کے قریبی کی وفات پر اظہارتعزیت اور دعائے مغفرت کے لئے جارہے تھے اور دلوں میں غم کی کیفیت طاری تھی لیکن بے تھکان سفر اور تاحد نگاہ پھیلے حسین مناظر کے بیچوں بیچ نوازشریف کی بنائی ہوئی موٹروے پر تیرتی ہوئی ہماری گاڑی نے یوں اپنے حصار میں لیا کہ غم بھول گیا۔ موسم بہت حسین تھا اور چند قطرے بوندا باندی کے بعد سورج بادلوں کے سفید پردوں میں سے جھانکنے کی کوشش کررہا تھا جس سے ہوشربا رنگ فضاء میں بکھرے ہوئے تھے۔ اس منظر میں اتنی طاقت تھی کہ ہمارے دل بھی گد گدانے لگے۔

ہم اتنا محو تھے کہ کب سفر ختم ہو گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ سوات موٹروے پر کیپٹن کرنل شیرخان انٹرچینج سے باہر نکلتے ہی گاڑی نے ہچکولے کھانا شروع کردیئے۔ تب ڈرائیور نے آگاہ کیا کہ ہم صوابی کے گاؤں اسماعیلہ پہنچ چکے ہیں۔ ہمارے پیارے دوست اور نیشنل پریس کلب کے منتخب عہدیدار قاضی ضیاد نے ایک وسیع حجرے میں ہمارا استقبال کیا اور ہم نے بڑی تعداد میں موجود لوگوں کے ہمراہ قاضی ضیاد کے مرحوم چچا کے لئے دعامغفرت کی۔

اسماعیلہ ضلع مردان اور ضلع صوابی کے سنگم پر ایک کثیرآبادی والا گاؤں ہے اور بہت قدیم ہے، یہ گاؤں آدھا صلع مردان میں ہے اور آدھا ضلع صوابی میں۔ سکھ دور کی تنگ گلیاں، پرانے مکانات، گلیوں کے بیچ بہتی نالیاں بتا رہی تھیں کہ یہ گاؤں کئی سو سال پراناہے۔ کچھ دیر بعد ہمیں ایک دوسرے گھر لے جایا گیا جہاں مہمانوں کے لئے کھانے کا بندوبست تھا۔ ہمیں یہ جان کرحیرت ہوئی کہ جس مکان میں ہمیں طعام کی غرض سے لے جایا گیا وہ سوگوار خاندان کا محض ایک محلے دار کا گھر ہے۔

ہمیں پتہ چلا کہ جس حجرے میں بہت سے لوگ تعزیت کے لئے آرہے تھے وہ بھی مرحوم کے محض ایک محلے دار کا ڈیرہ ہے۔ میری حیرت اس وقت اور بھی بڑھ گئی جب میں نے دیکھا کہ مقامی ایم این اے عثمان ترکئی تعزیت کے لئے آئے تو کسی نے خاص توجہ نہ دی۔ ایم این اے صاحب کو بھی کھانے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے معذرت کرلی اور کہیں جانے کی جلدی بتائی تو مجمع میں موجود قاضی ضیاد کے بھائی امداد حسین نے کہا کہ تمہیں دال روٹی اچھی نہیں لگتی تو تمہاری مرضی۔

بس اس کے جواب کے بعد عثمان ترکئی کھسیانے سا ہو کر وہیں بیٹھ گئے اور کھانے میں شریک ہو گئے۔ مجھے اپنے شہر کے ایم این اے اور وزیروں کا خیال آ گیا کہ اگر کسی نے ان سے ایسا کیا ہوتا تو شام تک پولیس اس کے جوان بیٹے کو کسی الزام میں لے گئی ہوتی۔ کھانے کے بعد ہم نے محلے کی مسجد میں نماز ظہر ادا کی جس کے بعد ہمیں ایک نئے حجرے میں لے جایا گیا۔ اس حجرے کا خان بھی سوگوار خاندان کا محلے دار ہی تھا۔ یہ بڑا دلچسپ شخص تھا۔ مظہر خان نے ہم سب کو اپنے ذاتی مہمان کے طور پر اہمیت دی۔ اس موقع پر ہمارے لئے دوبارہ سے روایتی کابلی پلاؤ اور قہوے کا انتظام کیا گیا۔ چھوٹے سے حجرے میں علاقے کا ”خان“ بھی اسلام آباد سے مہمانوں کی آمد کا سن کر پہنچ گیا اور گپ شپ شروع ہو گئی۔

جس گھر میں فوتگی ہوئی تھی ان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور جس حجرے میں ہم کابلی پلاؤ سے لطف اندوز ہو رہے تھے وہ تحریک انصاف کے سیاسی حریف اے این پی کے ایک سرفروش کی ملکیت تھا اور اس نے چھت پر پارٹی پرچم بھی لگا رکھا تھا۔ حجرے کے ایک کمرے میں جہاں ہم بیٹھے تھے دیوار پر پشتو میں اشعار باقاعدہ فریم کروا کر آویزاں کیے گئے تھے۔ ہمارے پوچھنے پر منظر علی خان نے بتایا کہ یہ میری ذاتی شاعری ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ”میں ایک عام سا پٹھان ہوں۔ مجھے کسی سے کوئی غرض نہیں۔ میں اپنی نسوار کے ساتھ اپنے گھر میں خوش ہوں“۔

ہمیں بتایا گیا کہ یہاں اگر کسی کے گھر فوتگی ہو جائے تو سوگوار خاندان کو پورا محلہ بن مانگے اپنی خدمات پیش کر دیتا ہے۔ تعزیت کے لئے آنے والے مہمانوں کو اہل محلہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ کھانے پینے اور رہائش کے انتظام کے متعلق سوگوار خاندان کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔ تین روز تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ خوشی غمی میں سب ایک ہو جاتے ہیں۔ کوئی سیاسی یا مذہبی تفریق آڑے نہیں آتی۔ اس گاؤں میں غم کا پہاڑ اہل محلہ کی محبت سے مٹھی بھر رہ جاتا ہے۔ یہاں سب ”خان“ ہیں۔ کوئی بڑا اور کوئی چھوٹا نہیں۔ سب کی عزت یکساں ہے۔ سب لوگ مظلوم اور غمزدہ کا ساتھ دیتے ہیں۔ اسماعیلہ گاؤں کی گلیوں میں چل پھر کر تو ہمیں یہی لگا کہ یہ سب آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں۔ سب ایک ہی خاندان کے فرد ہیں۔ سب ایک دوسرے کے دکھ درد اپنا سمجھ کر بانٹ لیتے ہیں۔

اے این پی کا سرفروش منظر خان بہت خوش تھا کہ ہم اس کے حجرے میں موجود تھے۔ علاقے کا ”خان“ عمران خان بھی بہت دیر تک ہمارے ساتھ رہا۔ ہمیں بتایا گیا کہ عمران خان کے دادا ہارون خان نے اس وقت کے صوبہ سرحد میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کو سہارا دیا اور ایسے ہی ایک حجرے میں بیٹھ کر بھٹو کو اپنی سیاسی تائید دی۔ اب زمانہ بدل چکا ہے اور محمد عمران خان پی ٹی آئی خیبر پختونخواہ کے سینئر رہنماؤں میں شامل ہیں۔

دوران گفتگو منظر خان نے اپنے کئی اشعار پشتو میں سنائے اور پھر ان کا اردو ترجمہ بھی پیش کیا۔ ان کے اشعار بہت سادا لیکن پرمغز تھے۔ ان اشعار کا لب لباب یہ تھا کہ ”اگر کسی پھول سے خوشبو نہ آئے تو اس پھول کا کیا فائدہ۔ اگر کسی دوست سے فیض نہ ملے تو دوست کا کیا فائدہ۔ ایسی صورت میں تنہا رہنا بہتر ہے“۔

بہت خوبصورت وقت گزارنے کے بعد ہم واپس روانہ ہوئے تو یہ تاثر دل میں تھا کہ ایم این اے اور خوانین کی موجودگی کے باوجود ہم لوگ ہی زیادہ اہم تھے جنہیں بطور مہمان سب نے بہت عزت دی۔ میرا گمان ہے کہ سارا خیبر پختونخواہ ایسا ہی ہو گا۔

واپسی پر ہم بہت اداس تھے۔ سارا سفر بے کیف رہا۔ گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ آئی ایٹ اسلام آباد میں میری رہائشی گلی کے کسی مکان میں کوئی فوت ہو گیا ہے۔ بہت پوچھنے پر پتہ چلا کہ لواحقین میت گاؤں لے گئے ہیں۔ مرحوم بہت عرصے سے بیمار تھے لیکن مجھے خبر تک نہ تھی۔ میرے دل پر بوجھ تھا۔ تعزیت کے لئے جب میں اس گھر پہنچا تو وہ سنسان پڑا تھا۔ گھر میں موجود واحد فرد نے بتایا کہ یہاں ہمارا کون ہے۔ ہم پڑوسی ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں۔

میں تعزیت کے کلمات دہرا کر گھرلوٹ آیا۔ اسماعیلہ جاتے ہوئے مجھے فخر محسوس ہو رہا تھا کہ ایک ترقی یافتہ علاقے سے نسبتاً پسماندہ علاقے کی طرف جا رہا ہوں لیکن واپسی پر مجھے خیالوں میں ”یوٹرن“ لینا پڑا۔ اصل ترقی اور تہذیب تو اسماعیلہ میں ہی تھی۔ اسلام آباد والے ابھی بہت پسماندہ ہیں۔ کاش کوئی حکمران مادی ترقی کے لئے ضروری موٹر وے کی طرح تہذیبی ترقی کے لئے بھی کوئی شاہراہ بنائے۔ مجھے اس لمحے وزیراعظم عمران خان کے متنازعہ ”یوٹرن“ کی صحیح معنوں میں سمجھ ائی۔

اکرام بخاری عرصہ 30 سال سے اسلام آباد میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ہیں۔ اس وقت آن لائن نیوز انٹرنیشنل ایجنسی، ڈیلی مارننگ میل اور روزنامہ جناح کے ساتھ بطور جوائنٹ ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔ بے قراری کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).