حکومت کی 100 دن کے کارکرگی پر ایک نظر


25 جولائی کے عام انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی موجودہ حکومت اب تک کی کارکردگی کی بنا پرنشریاتی اداروں اور عوام دونوں میں زیر بحث ہے. اس کارکردگی پر کچھ شعبہ ہائے زندگی کی طرف سے مثبت اور کچھ کی طرف سے منفی خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے. تاہم اگر ان موجودہ حالات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ فیصلہ کرنے میں چندہ دشواری نہیں ہوتی کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کا پلڑا بھاری ہے. 25 جولائی کے عام انتخابات سے پہلے قوم سے بڑے بڑے وعدے اور دعوے کیے گئےاور جو سبز باغ عوام کو دکھائے گئے ماضی میں ان کی مثال ملنا مشکل ہے. یہ وہ دعوے اور وعدے ہی تھے جنہوں نے موجودہ حکومت سے عوامی توقعات ضرورت سے کچھ زیادہ ہی وابستہ کرلی تھی. اب مسئلہ یہ ہے کہ حکومت تو جیسے تیسے مل گئی اب ان دعووں کو عملی شکل دینے کے لئے موجودہ حکومت کڑے امتحان میں گہری دکھائی دیتی ہے. اگر حکومت کی اب تک کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو کارکردگی کئے گئے دعوؤں اور وعدوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی. موجودہ حکومت وعدے تو کر چکی مگر اب ان وعدوں کو پورا کرنا حکومت کے لیے درد سر بنا ہوا ہے. یہی درد سر ہے جو موجودہ حکومت کو یو ٹرن لینے پر مجبور کئے ہوئے ہے. نہ صرف مجبور کیے ہوئے ہیں بلکہ حکومت عملی طور پر یوٹرن پہ یوٹرن لے بھی چکی ہے اور مزید یوٹرن لینے کا مصمّم ارادہ بھی رکھتی ہے.
میڈیا اور عوامی نمائندے حکومت کو اس کی پالیسیوں اور کئے گئے وعدوں کو بدستور یاد کروانے میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے حکومت جلد بازی کا شکار بھی نظر آ رہی ہے. خارجہ پالیسی کی بات کی جائے، بھارت سے تعلقات کے حوالے سے بات کی جائے، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات کی جائے، صدر کے فون کے حوالے سے بات کی جائے، سی پیک کے حوالے سے بات کی جائے، آسیہ مسیح کے مقدمے کے حوالے سے بات کی جائے، عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے بات کی جائے، غرض کئی ایسی باتیں ہیں جن پر ماضی میں موجودہ حکومت وعدے اور دعوے تو کرچکی تاہم حکومت کی منصوبہ بندی اور سفارتکاری کا فقدان ہر جگہ پر نظر آ رہا ہے.

بات اگر کی جائے خارجہ پالیسی کی تو اس کی حالت بھی دگرگوں ہے. بڑی مثال پاک بھارت تعلقات کا معاملہ ہے جس میں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کے بھارت نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے تاہم بھارت اس بات کی تردید کر چکا اور حکومت خاموش، سونے پر سہاگہ کہ ہمارے وزیراعظم کی جانب سے بھارتی وزیراعظم کو مذاکرات کی بحالی اور دو طرفہ وزارت خارجہ کی ملاقات کے لیے خط لکھنے کا معاملہ بھی سامنے آگیا. جب بھارت یہ دنیا کے سامنے لایا تو پہلے تو اس نے ملاقات کے لیے حامی بھری تاہم پھر انکار کردیا. چاہیے تو یہ تھا کہ اس پورے معاملے کو تحمل کے ساتھ ڈیل کیا جاتا الٹا ہمارے وزیراعظم صاحب نے ایک ایسی ٹویٹ کر دی جس نے سارے معاملے کو ایک اور ہی رنگ دے دیا. یہ ٹویٹ سفارتی لحاظ سے کسی طور پر مناسب نہیں تھی.
اگر بات کی جائے بھارت کے ساتھ تعلقات کی تو بھارت کے ساتھ تعلقات انتہائی حساس اور اہمیت کے حامل ہیں جنہیں کسی بھی قسم کی عجلت اور جلدبازی کی نظر نہیں کیا جاسکتا تاہم حکومت سے یہ کارنامہ بھی سرزد ہوا. عجلت میں کچھ ایسے فیصلے کیے گئے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان حالات مزید کشیدہ ہوئے اور اور بعد ازاں بات جنگ کی کی جانے لگی.

فضل الرحمان کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہونے پر کوئی موقع اعتراض کا ہاتھ سے نہ نہ جانے دینے والی حکومت پراسرار طور پر مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اپنے طور پر حکومت مسئلہ کشمیر کی بات کرنے سے خود کو بری الذمہ سمجھے ہوئے ہے۔

بات اگر کی جائے حکومت کے دعووں کی تو تقریبا اکثریت دعوؤں پر موجودہ حکومت نے یو ٹرن کی پولیسی اپنائیں.

شروع میں چین کے ساتھ تعلقات اور سی پیک جیسے بڑے منصوبے پر شکوک و شبہات پیدا کیے گئے نہ صرف یہ بلکہ ان منصوبوں کو بند تک کر دینے کا بیان جڑ دیا گیا. تاہم وزیراعظم صاحب کے حالیہ چین کے دورے کو موجودہ حکومت اپنی بہت بڑی وکٹری ثابت کیے بیٹھے ہے.

کچھ عرصہ پہلے فرانسیسی صدر کے ساتھ فون کے متعلق ایک تماشہ لگایا گیا ان تمام باتوں پر حکومت اپنی خارجہ پالیسی اور حکومتی معاملات میں ناکامی اور ناتجربہ کاری کی واضح مثالیں خود پیش کئے ہوئے ہے.

یہ تو باتیں تھیں کچھ خارجہ پالیسی کے متعلق بعد اگر کی جائے ملک کو ملک کے اندرونی معاملات کی تو حکومت کی اب تک کی کارکردگی کئے گئے وعدوں کے بالکل برعکس ہے. جو سہانے خواب عمران خان نے لوگوں کے ذہنوں میں اپنی حکومت کے لیے قائم کیے تھے اور جن کی بنیاد پر وہگزشتہ حکومت پر ہر وقت تنقید کا کوئی نہ کوئی تیر کستے ہی رہتے تھے حکومت کے عملی اقدامات اقتدار میں آنے سے پہلے کیے جانے والے بلندوبانگ دعوؤں کے بالکل برعکس ہیں۔

کہا گیا وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے، پروٹوکول نہیں لیا جائے گا، پاک و شفاف اور قابل افراد کو عہدے دیے جائیں گے، میرٹ پر تعیناتی کی جائے گی، قرضہ نہیں لیا جائے گا بلکہ ایسی ریاست وجود میں آئے گی جو قرضہ دینے والی ہو گئی، تمام گورنر ہاؤسز کو تعلیمی اداروں میں منتقل کیا جائے گا، بیروزگاروں کے لیے ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی، عافیہ صدیقی کی رہائی، سیاست سے پاک پولیس کا قیام، 50 لاکھ گھروں کی فراہمی، بجلی گیس میں ریلیف، کرپشن سے لوٹے گئے پیسے کی واپسی، قیادت کی نوجوان نسل کو منتقلی، غرض اس جیسے بے شمار نئے اور خوشنما دعوے اور وعدے کیے گئے جو نئے پاکستان میں آتے ہیں بہت پرانے ہوچکے. یہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ محض حصول اقتدار کے لئے ان وعدوں کے ذریعے قوم کے جذبات سے نہ صرف کھیلا گیا بلکہ کوئی بھی وعدہ وفا نہ ہوسکا، جو کہ ایک انتہائی افسوس ناک امر ہے، سونے پر سہاگا اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت اب بھی بالغ نظری کا ثبوت دینے کے بجائے اسی طرح زبانی دعووں کی روش پر قائم ہے. چاہیے تو یہ تھا کہ جو ماضی قریب میں دعوے کیے گئے تھے ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جاتی لوگوں کی توقعات پر پورا اترا جاتا مگر یہاں تو گنگا الٹی ہی بہ رہی ہے. آئے روز ایک نہ ایک نیا وعدہ کیا جاتا ہے اور اگلے ہی دن اس وعدے سے یوٹرن بھی لے لیا جاتا ہے پھر ایسی حیلو حجت اور تاویلیں گھڑی جاتی ہیں جن کو دیکھ اور سن کر عقل حیران اور پریشان رہ جاتی ہے.

منی بجٹ کے نام پر حکومت نے عوام پر مہنگائی بھی مسلط کردی ضروریات زندگی کی بنیادی چیزیں گیس، بجلی، آٹے، ادویات اور دوسری ضروریات زندگی سمیت کئی اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا گیا.

کہا یہ بھی گیا کہ حکومت کشکول توڑے گی تاہم کشکول کیا ٹوٹتا الٹا کشکول ہی پوری دنیا کے سامنے ہمارا مذاق بن کر رہ گیا کبھی آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا کبھی سعودی عرب سے تین گنا سود پر قرضہ لیا گیا بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو مفلوج، ناکارہ اور بھکاری ملک کے طور پر پیش کیا گیا جس سے نہ صرف ملک کی جگ ہنسائی ہوئی بلکہ قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ بھی ہوا.
قیمتوں اضافہ اپنی جگہ ایک اور اذیت ناک امر یہ ہے کی رائے کے بغیر جلد بازی میں کیے جانے والے فیصلے اور اعلانات بھی حکومت کا خاص وطیرہ رہا ہے افغان مہاجرین کو پاکستان کی شہریت دینے کا اعلان اسکی ایک بڑی مثال ہے.
اپنی تمام تر ناکامیوں کو محض جھوٹے دعوؤں، الزام تراشیوں، مستقبل کی رنگینیوں اور ترقی کے جھوٹے اعداد و شمار سے شاید حکومت اپنے وقار کو بحال کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے.
نہ صرف معاشی، خارجی اور داخلی امور پر حکومت کو ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ حکومت مذہبی روایات کو بھی نقصان پہنچاتی نظر آتی رہی۔ میاں عاطف کی اقتصادی مشاورتی کونسل میں شمولیت، آسیہ مسیح جیسے متنازع مسئلے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا، اس کو باعزت بری کرنا۔ ان تمام تر حالات و واقعات کے بعد ملک میں مذہبی فسادات اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات رونما ہوئے جس سے ملک کو وزیرخزانہ کے بقول بھاری نقصان اٹھانا پڑا تاہم اس تمام کارروائی میں 126 دن کے دھرنے سے پیدا ہونے والے خلا کو محض ردی کی نذر کردیا گیا.
حکومت کے جادوگر ماہرین ان سو دنوں کی کارکردگی کو کچھ اس طرح سے بیان کرنے میں مصروف ہیں کہ جیسے حکومت دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے اور پرانے پاکستان میں کیے گئے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب رہی ہے تاہم زمینی حقائق ان تمام دعووں کے بالکل متضاد ہیں.
اب ضرورت اس امر کی ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے کیے گئے بلندوبانگ دعوؤں پر جھوٹ کا پردہ ڈالنے کی بجائے ان کو مکمل کرنے، عوام کو ساتھ لے کر چلنے، قومی اداروں کے درمیان اختلافات کو مٹانے، مذہبی جماعتوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے خدشات کو دور کرنے اور داخلی اور خارجی معاملات کو قوم کے وسیع تر مفاد میں حل کرنے کے لئے مل جل کر کام کریں تاکہ وطن عزیز صحیح معنوں میں نیا پاکستان بن سکے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).