سازشی تھیوری میں کتنے مصالحے ڈالے جاتے ہیں


آج سے تین سال پہلے جب کرونا کی وبا پھیلی تو دنیا کو سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ کیا ہوا ہے، اس ضمن میں طرح طرح کی سازشی تھیوریاں گھڑی گئیں، کسی نے کہا کہ یہ بل گیٹس کا ویکسین بیچنے کا منصوبہ ہے، کسی نے مغربی ممالک کو مورد الزام ٹھہرایا، کسی نے فائیو جی نیٹ ورک کی لہروں سے اس کے تانے بانے ملائے، کسی نے پرانی فلم کا کوئی سین نکال کر دکھایا کہ دیکھو سازش پکڑی گئی، کسی نے اسے مسلمانوں کی نا فرمانی کے ساتھ جوڑ دیا، کسی نے کہا کہ یہ وائرس لیبارٹری میں تیار ہوا ہے، کسی نے کہا کہ حکومت غیر ملکی امداد لینے کے لیے کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کر رہی ہے اور کسی نے سرے سے کرونا وائرس کے وجود کو ہی ماننے سے انکار کر دیا۔ آج تین سال بعد یہ تمام سازشی تھیوریاں دم توڑ چکی ہیں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کا عزیز، دوست یا رشتہ دار اس وائرس کی زد میں آ کر فوت نہ ہوا ہو۔ جو لوگ ویکسین لگوانے والوں کا تمسخر اڑاتے تھے انہوں نے بعد میں بوسٹر ڈوز تک لگوائی اور جو اسے کفار کی چال کہتے تھے انہوں نے پھر اسی عطار کے لونڈے سے ہی دوا لی۔ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا مگر اس کے باوجود شاید ہی کوئی ایسا جی دار ہو جس نے سازشی نظریے والی غلطی کا اعتراف کیا ہو۔ لوگ کرونا وائرس سے مر گئے مگر انہوں نے اس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

کچھ عرصہ پہلے ایک غیر ملکی ویب سائٹ کا مضمون نظر سے گزرا جس میں لکھاری نے ان اسباب پر روشنی ڈالی تھی جس کی بنا پر لوگ سازشی نظریات کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ صدق دل سے اس کی ترویج بھی کرتے ہیں۔ لکھاری کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ایک ’ولن‘ کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ اپنی زندگی کی ناکامیوں کا ملبہ ڈال سکیں یا ان واقعات کا ذمہ دار قرار دے سکیں جو ان کے لیے تباہ کن پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ ولن کوئی بھی ہو سکتا ہے، اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ حقیقتاً کوئی مجرم ہو، کرونا کے کیس میں بل گیٹس جیسے شخص کو لوگوں نے ولن بنا ڈالا۔ سازشی نظریات کی وجہ لوگوں میں پائی جانے والی عمومی بے چینی اور اضطراب ہوتا ہے، ہر شخص بات کی گہرائی میں نہیں جاتا، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ہر معاملے کی پڑتال کرے اور یہ دیکھے کہ حقائق کیا ہیں، اس کام کے لیے ذہنی مشقت کی ضرورت ہوتی ہے، اپنے تعصبات سے بالا تر ہو کر سوچنا پڑتا ہے اور بعض تلخ حقیقتوں کو قبول کرنا پڑتا ہے، یہ کوئی آسان کام نہیں، عام لوگ اس طرح نہیں سوچتے، وہ عموماً سرسری انداز میں معاملات کو دیکھتے ہیں اور پھر ایک نکتہ نظر اپنا لیتے ہیں، انہیں ان باتوں میں بہت کشش نظر آتی ہے جن پر وہ آسانی سے یقین کر سکیں اور زیادہ تردد نہ کرنا پڑے اور یوں سازشی نظریات جنم لیتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عام لوگ ہی نہیں بعض اوقات اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ان نظریات کا پرچار کرتے ہیں کہ اس دنیا کو طاقتور افراد کا ایک گروہ چلا رہا ہے جس کا خفیہ اجلاس یورپ میں واقع کسی دورافتادہ جزیرے پر ہوتا ہے جہاں چند ارب پتی مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آئندہ امریکہ کا صدر کون ہو گا، یورپی یونین کی سربراہی کسے دی جائے گی، تیل کی قیمت کتنی رکھی جائے گی، پنجاب کا وزیر اعلیٰ کون ہو گا، وغیرہ۔

اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ محض طاقت ور ممالک کی سازش ہے، کرہ ارض کا درجہ حرارت ایک یا ڈیڑھ ڈگری ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اصل میں یہ بدمعاش ممالک چاہتے ہیں کہ ان کے صنعتی انقلاب کے بعد کہیں پسماندہ ترقی نہ کر لیں۔

غیر یقینی صورتحال میں بھی سازشی نظریات بہت تیزی سے پنپتے ہیں، خاص طور سے جب کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے، سانحہ جنم لیتا ہے یا کوئی بحران پیدا ہوتا ہے تو ہر قسم کی سازشی تھیوریاں گردش کرنے لگتی ہیں، لوگ چونکہ حالات سے دلبرداشتہ ہوتے ہیں اس لیے وہ ان سازشی نظریات کو بلا تامل قبول کر لیتے ہیں، خاص طور سے اگر یہ سازشی نظریات ان غیر یقینی حالات کا ذمہ دار کسی طاقت ور گروہ، سپر پاور، ملٹی نیشنل کمپنیوں یا ارب پتی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کو ٹھہرائیں۔ یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ کوئی بھی سازشی تھیوری، جھوٹی خبر یا فریب پر مبنی نظریہ تراشنے کے لیے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا لیکن اسے رد کرنے کے لیے بے پناہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ کرونا وبا کی مثال ہی لیتے ہیں، ہم نے دیکھا کہ امریکہ میں بہت سے لوگوں نے فائیو جی ٹاورز کے پاس جاکر ویڈیوز بنائیں اور یہ ’ثابت‘ کیا کہ ان ٹاورز سے خارج ہونے والی شعائیں دراصل کووڈ کا باعث بن رہی ہیں، اسی طرح یار لوگوں نے فیس بک پوسٹس بنائیں کہ کرونا وائرس اسرائیل کی فلاں لیبارٹری میں ایجاد کیا گیا ہے اور نیچے کسی بھی خبر رساں ایجنسی کا نام لکھ دیا۔ اس قسم کا کام کرنے میں زیادہ سے زیادہ پانچ سے دس منٹ لگتے ہیں مگر اسے رد کرنے کے لیے سائنس دانوں کی پوری ٹیم کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑتا ہے کیونکہ سائنس دان محض فیس بک پوسٹ بنا کر کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ سائنس دانوں کو یہ بات ثابت کرنے میں کئی ماہ لگے کہ یہ وائرس انسانی ایجاد نہیں، یہ تحقیق معتبر سائنسی جریدوں میں شائع ہوئی جو عام لوگ نہیں پڑھتے، اور وہاں بھی انہوں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے یوں لکھا کہ ’اب تک کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ۔ ‘ جبکہ سازشی تھیوری ہمیشہ دو ٹوک ہوتی ہے اور عام آدمی کا ذہن اسے آسانی سے قبول کر لیتا ہے۔

ایک مثالی سازشی تھیوری کیسی ہوتی ہے؟ ایک مثالی سازشی تھیوری میں وہ تمام مصالحہ جات ہوتے ہیں جو کسی بھی عام آدمی کے ذہن کو متاثر کرسکیں، اس میں مہا حب الوطنی ہوتی ہے، لوگوں کے جذبات کو وطن کی محبت اور مذہب کے نام پر ابھارا جاتا ہے کیونکہ ان جذبات کے سامنے عقل کام نہیں کرتی۔ وطن کی محبت تو بہت بڑی چیز ہے، عام بندے کی عقل تو خوبصورت عورت کے آگے کام کرنا چھوڑ دیتی ہے، اور اگر اس سے محبت ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ، پھر تو بندے کو نظر ہی کچھ نہیں آتا، پھر چاہے سارا زمانہ آ کر کہے کہ اس عورت میں دنیا جہان کی خرابیاں ہیں مگر بندے کا دماغ بند ہوجاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ ساری دنیا غلط ہو سکتی ہے مگر میری جان من میں کوئی خرابی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح ایک آئیڈیل سازشی تھیوری لوگوں کی ناکامیوں کا مداوا کرتی ہے، ان کے ذہن میں موجود اندیشوں کو مزید پختہ کرتی ہے، ان کے جذبات کو زبان دیتی ہے۔ لوگوں کو اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے، ایک مثالی سازشی تھیوری انہیں وہ دشمن فراہم کرتی ہے۔

ان تمام باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دنیا میں سازشیں نہیں ہوتیں، ہر دور میں سازشیں ہوتی رہی ہیں، آج کی دنیا میں بھی ہوتی ہیں، زیادہ دور کیوں جائیں، امریکہ اور برطانیہ نے مل کر عراق پر حملہ کیا اور الزام یہ لگایا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، یہ بات اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ثابت ہوئی، برطانیہ میں ایک تحقیقاتی کمیشن نے ٹونی بلیئر کو اس جھوٹ کا ذمہ قرار دیا۔ خود ہمارے ملک کی تاریخ بھی سازشیوں سے بھری پڑی ہے۔ ایسے میں لوگوں کا کسی سازشی نظریے پر ایمان لے آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اصل کام یہ ہے کہ کسی بھی سازشی تھیوری کا توڑ کیسے کیا جائے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ گڈ گورننس ہی مسئلے کا حل اور سازش کا توڑ ہے۔ یہ ایک مغالطہ ہے۔ دنیا میں لوگ مر گئے مگر کرونا وائرس کو نہیں مانا۔ سازشی نظریات کو رد کرنے کی ایک علیحدہ سائنس ہے جس کا ذکر پھر کبھی!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments