پاکستان اور امریکہ کے اختلافات


\"edit\"اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر اور پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی کے تازہ بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان افغانستان میں امن کے سوال پر اتفاق رائے موجود نہیں ہے اور نہ ہی اسے باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی نے سیکورٹی کونسل کو بتایا ہے کہ 15 سال کی جنگ کے بعد اب یہ سمجھ لینا چاہئے کی افغانستان کے مسئلہ کو جنگ کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے مصالحت اور مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں۔ دوسری طرف واشنگٹن کے ایک سیمینار میں امریکی نمائیندے رچرڈ اولسن نے کہا ہے پاکستان میں امن کے لئے اسے حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان سے جنگ کرنا ہوگی۔

یہ اختلاف رائے ایک طرف پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے کوئی نیک شگون نہیں تو دوسری طرف افغانستان میں امن کے حوالے سے بھی یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ پاکستان افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے مذاکرات کرنے کی جو بات کررہا ہے ، امریکہ بھی اسی مؤقف کا اظہار کرتا رہا ہے۔ لیکن گزشتہ ماہ نوشکی میں ایک ڈرون حملہ میں افغان طالبان رہنما ملا اختر منصور کو نشانہ بناتے ہوئے دراصل یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ امریکہ اب کچھ عرصہ کے لئے مذاکرات کو بھول کر افغانستان میں حکومت اور طالبان کے درمیان جاری کشمکش کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ ملا منصور کی ہلاکت کے بعد صدر باراک اوباما کے بیان میں بھی یہ تاثر دیا گیا تھا کہ امریکہ اب افغانستان میں امن کے لئے ذیادہ پر امید نہیں ہے۔ یہ رویہ افغان مسئلہ کے حل کے لئے چہارر رکنی گروپ میں شامل دوسرے ملکوں پاکستان ، چین اور افغانستان کے مؤقف سے میل نہیں کھاتا۔ اگرچہ افغان صدر اشرف غنی بھی کچھ عرصہ قبل یہی مطالبہ کرچکے ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن نے اختیار کیا ہے، کہ پاکستان کیوں کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا، اس لئے اب اسے ہی افغان طالبان کے ساتھ جنگ کرنی ہوگی۔ اس کے برعکس چین کا مؤقف پاکستان سے ملتا جلتا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔ رچرڈ اولسن نے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ پاکستان نے شمالی وزیرستان میں کامیاب آپریشن کیا ہے لیکن جب تک وہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان جیسے شدت پسند گروہوں کے خلاف آپریشن نہیں کرے گا ، اس وقت تک پاکستان میں امن کا خواب دیکھنا درست نہیں ہو گا۔

واشنگٹن میں ایک این جی او کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رچرڈ اولسن نے افغان طالبان کے خلاف فوجی اقدام کی بات کرتے ہوئے یہ واضح نہیں کیا کہ امریکہ پاکستان سے کس قسم کے عسکری تعاون کی توقع کر رہا ہے۔ اگر اس بیان سے یہ مراد ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ باقاعدہ جنگ کا آغاز کرے تو یہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں منتقل کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس قسم کا اقدام نہ تو پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی اس بے معنی جنگ میں کسی فوری کامیابی کی توقع ممکن ہوگی۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی کا یہ مؤقف صائب ہے کہ اتحادی افواج پندہ برس کی جنگ جوئی کے باوجود افغانستان میں امن قائم نہیں کرسکیں۔ اس لئے اب سمجھ لینا چاہئے کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لئے طالبان سے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔ امریکہ البتہ اس مؤقف کے برعکس پاکستان کو اس پرائی جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کررہا ہے۔

امریکہ اگر پاکستان سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو حقانی نیٹ ورک اور دوسرے طالبان گروہوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہ دے تو اس بات کی تائد کی جا سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی امریکہ کو بھی پاکستانی کوششوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اور افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا الزام پاکستان کے سر منڈھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔ نہ ہی پاک فوج سے افغان فوج کے طور پر طالبان کے مد مقابل ہونے کی امیدکرنی چاہئے۔ پاکستان نے اپنے طور پر سرحدی علاقوں میں انتہا پسند عناصر کی آمد ورفت کو کنٹرول کرنے کے لئے بارڈر کی بہتر منیجمنٹ کے لئے کام کا آغاز کیا ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستانی سرحد پر گیٹ بنا کر غیر قانونی طور سے پاکستان داخل ہونے والے افغان شہریوں کا داخلہ بند کرنا چاہتا ہے۔ لیکن افغانستان ایسے ہر کوشش کی مخالفت کرتا ہے اور ایسے ہر موقع پر مسلح اشتعال انگیزی کی جاتی ہے۔ امریکہ نے اس افغان رویہ پر کوئی مؤقف اختیار کرنے سے گریز کیا ہے۔

اس پس منظر میں یہ سمجھنا غیر حقیقی نہیں کہ امریکہ افغانستان کے حوالے سے کوئی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی بجائے پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ جنگ میں الجھا کر خود اپنی جان بچانے کو کوشش کررہا ہے۔ یہ طریقہ کسی طرح بھی نہ تو پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی مسئلہ کا حل ہے۔ اس کے برعکس امریکہ ، افغانستان سے پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائیوں کے بارے میں صرف یہ کہہ کر بات ٹالنا چاہتا ہے کہ پاکستان بلاوجہ اس خوف میں مبتلا ہے۔ حالانکہ پاکستان اس حوالے سے شواہد سامنے لا چکا ہے اور کئی بھارتی اور افغان جاسوس بھی پکڑے جا چکے ہیں۔ امریکہ کو افغان جنگ سے نکلنے کے لئے اس علاقے میں اپنی ترجیحات واضح کرنے اور کسی ایک نکاتی ایجنڈے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک نکاتی ایجنڈا پاکستان کو افغان جنگ میں جھونکنا نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اس کے لئے تیار نہیں ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments