بیٹی کی شادی پہ ناک اونچا رکھنا ضروری ہے کیوں!


ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کے ساتھ عام طور پہ جیسا سلوک رواء رکھا جاتا ہے، وہ تو صاف نظر آتا ہے۔ لیکن بیٹی کے لئے رشتہ تلاش کرنے سے لے کر اس کی شادی تک والدین جس اذیت سے گزرتے ہیں وہ بھی ایک الگ داستان ہے۔ پارلر چلانے کے ساتھ ساتھ میں نے کچھ عرصہ قبل رشتے کروانے کا کام بھی شروع کیا۔ اس سارے عرصے کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ بچیوں کے رشتے کے لئے ماں باپ پہ کیا گزرتی ہے۔ لیکن کئی جگہوں پہ لڑکی والے بھی ایسی ڈیمانڈز رکھتے تھے کہ حد نہیں۔

لڑکوں کے گھر والوں کی ڈیمانڈ کہ لڑکی خوبصورت ہو کے علاوہ وہ اچھے علاقے میں رہتی ہو، گھر کی گلیاں تنگ نہ ہوں اور فیملی چھوٹی ہو۔ غرض ایسی ایسی باتیں کہ الاماں الحفیظ۔ میں لڑکیوں کے رشتے نہ ہونے کی وجہ سے ڈپریشن میں جانا شروع ہو گئی تھی۔ آخر میں نے اس پہ دو حرف بھیج کے یہ کام ہی چھوڑ دیا۔

اب بات آتی ہے رشتہ طے ہونے کے بعد شادی کی، اور یہاں سے معاشرے کا ایک بے حس چہرہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ منگنی طے ہوئی ہے تو لڑکے کے کپڑوں سے لے کر اس کی پھپھیوں، خالاؤں، بہن بھائیوں الغرض پورے خاندان کے کپڑے دینا فرض ہو جاتا ہے۔ لڑکے کے کپڑے جوتے انگوٹھی الگ ہوتے ہیں۔ اس کے بات شادی پہ بھی یہی صورت حال پیش آتی ہے۔ میری سٹوڈنٹ کی دسمبر میں شادی ہے۔ لڑکا فیملی میں سے ہے، لیکن اس کی ڈیمانڈز سن کر میں حیران ہوں۔ آٹھ سے دس تو اس کے مختلف طرح کے کپڑے بنوائے گئے ہیں۔ اس کے استعمال کی ٹوٹل اسسریز کے ساتھ ساتھ اس کے انڈر گارمنٹس تک ادھر سے جا رہے ہیں۔ لڑکے کو راڈو گھڑی چاہیے جس کی مالیت ایک لاکھ سے اوپر ہے۔ سونے کی چین یا انگوٹھی الگ ہے۔

لڑکے کی ماں نے جو جھمکے ڈیمانڈ کیے وہ پینتالیس ہزار کے بنے ہیں۔ نندوں اور ان کے خاوندوں کے لئے جو کپڑے بھجوائے گئے تو مردانہ سوٹوں کے ساتھ بنیان دینا بھول گئے۔ جس کا طعنہ فوراً ہی آ گیا کہ بنیانیں تو آئی ہی نہیں۔ ان کے خاندان کے ہر عورت مرد نے لڑکی والوں کے پلے سے ایک دن کے سوٹ بنوائے ہیں۔ بارات کے کھانے کی روٹی کی فکر الگ ہے۔ سب کو خوش رکھنے کے چکر میں مذکورہ خاندان بال بال قرضے میں آ چکا ہے۔

مگر وہ ان تمام باتوں کو فرائض کی طرح نبھا رہے ہیں۔ میں یہ سب سنتی اور دیکھتی ہوں تو میرا جی بہت جلتا ہے۔ یہ ایک مڈل کلاس فیملی کی کہانی ہے۔ ایلیٹ کلاس کی تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ کیونکہ وہ لوگ افورڈ کر سکتے ہیں تو جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کرتے ہیں مگر ان کی دیکھا دیکھی اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس جس طرح پس رہے ہیں اس پر افسوس ہوتا ہے۔

شادی ہمارے معاشرے میں ایک اہم ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ جڑی فضول خرچیاں یا رسومات زندہ رہنے جتنی ضروری ہرگز نہیں۔ ہمارے اردگرد پتہ نہیں کتنے لوگ کھانا کھائے بغیر سو جاتے ہیں۔ سفید پوش لوگ تو زندہ بھی پتہ نہیں کیسے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پانچ لاکھ کے شادی کے جوڑے کی کیا تک بنتی ہے۔ کیا نکاح کے ایجاب و قبول کے ساتھ ساتھ پیسے کا زیاں بھی ضروری ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔

ناک کو چہرے کی خوبصورتی کے طور پہ ہی رہنے دیں۔ معاشرے افراد کی مشترکہ کوششوں سے ہی سدھرتے ہیں۔ انفرادی طور پہ بھی مثال بنا جا سکتا ہے۔ میری شادی سادگی سے ہی ہوئی تھی۔ اس بات کا کریڈٹ میرے ہسبینڈ کو جاتا ہے کہ انہوں نے بالکل سادگی سے نکاح کر کے رخصتی کروا لی۔ نہ جہیز کی ڈیمانڈ کی اور نہ ہی کوئی فضول فرمائش کی۔

اگر ہم چاہیں تو اس معاشرے کو خوبصورت بنا سکتے ہیں۔ آج سے بھی کوشش کریں تو اگلی آنے والی نسلوں کے لئے قدرے مختلف اور بہتر معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ شادی ضرور کیجیے مگر ساتھ ساتھ خود پر رحم بھی کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).