ساؤتھ ایشین وومن ڈاکٹر آف نارتھ امریکہ اور پاکستانی قانون دان کے درمیان فیس بک چیٹ



میں ‌ نے ایک دن سوشل میڈیا پر دیکھا کہ ساؤتھ ایشین وومن فزیشن آف نارتھ امریکہ گروپ کی ایک کولیگ نے اپنے اور ایک پاکستانی قانون دان کے درمیان چیٹ کے اسنیپ شاٹس شئر کیے ہوئے ہیں۔ یہ خاتون ایک بہت مصروف اور کامیاب کارڈیالوجسٹ ہیں لیکن انہوں نے اپنے قیمتی وقت میں ‌ اس چیٹ میں ‌ حصہ لیا اور اس کو سب کے سامنے پیش کیا تاکہ لوگ اس سے سیکھیں۔ میں ‌ نے وہ سارے مسیج پڑھے اور ان سے اجازت لی کہ ان کو بغیر نام لیے اردو میں دوبارہ لکھا جائے تاکہ اور لوگ بھی اس سے انٹرنیٹ اور سماجی تعلقات کے آداب سیکھ سکیں۔ چونکہ کئی ممالک میں ‌ صنفی تقسیم سے لڑکے اور لڑکیوں ‌ کی الگ تھلگ پرورش کرنے کی کوشش ہوتی ہے، لوگوں ‌ کے درمیان ایک خلیج قائم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے یہ ممالک نارمل انسانی تعلقات اور معاشرے تخلیق کرنے سے قاصر ہیں۔

پاکستانی قانون دان: سلام! بہت متاثر کن کامنٹ!
امریکی کارڈیالوجسٹ: جس بھی کامنٹ کے بارے میں ‌ آپ بات کررہے ہیں، اس کو لائک کردینا کافی تھا، پرائیویٹ میسج بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔
پاکستانی قانون دان: ایک تو اتنی کم عمر میں ‌ کارڈیالوجسٹ اور اوپر سے اپنے خیالات رکھنے والی عورت! یہ تو بہت متاثر کن بات ہے۔
امریکی کارڈیالوجسٹ: تو؟
پاکستانی قانون دان: یہ تو اچھی بات ہے کہ ہم لوگوں ‌ کی اچھی باتوں ‌ کو پسند کریں ‌ اور ان کی ہمت افزائی کریں۔

کارڈیالوجسٹ: بہت عجیب بات ہے کہ آپ بالکل اجنبی لوگوں ‌ سے اس طرح‌ رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
قانون دان: عجیب ہے لیکن سچ ہے کہ سوشل میڈیا آپ کو موقع دیتا ہے کہ آپ اپنے علاقے سے باہر لوگوں ‌ سے رابطہ کرسکیں۔ میں ‌ ایک انٹرنیشنل بیرسٹر ہوں اور ایک گلوبل شہری ہوں۔
کارڈیالوجسٹ: دیسی افراد میں ‌ یہ رویہ کافی عام ہے۔
قانون دان: سچ بات یہ ہے کہ جو بھی اچھی بات کہے اس کو اہمیت ملنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ میری کامیابیوں ‌ کی وجہ سے لوگ میری بات کو آپ کی بات سے زیادہ اہمیت دیتے۔
کارڈیالوجسٹ: گڈ لک!

قانون دان: میرا نیا آرٹیکل چھپا ہے، یہ پڑھیے۔
کارڈیالوجسٹ: وہ کیوں؟
قانون دان: اس میں ‌ اہم معلومات ہیں۔
کاڈیالوجسٹ: کس کے مطابق؟
قانون دان: کیا آپ ہمیشہ سڑک چھاپ مکے بازی کرتی رہتی ہیں؟

کارڈیالوجسٹ: اگر میں ‌ کسی اجنبی کی ریکمنڈیشن قبول نہ کروں تو اس کا سڑک پر مکے بازی کرنے سے کیا تعلق ہے؟
قانون دان: ہاہاہاہاہاہا!
کارڈیالوجسٹ: لیکن کبھی کبھار میرا ایسے اجنبیوں ‌ کو مکہ مار دینے کا دل ضرور کرتا ہے۔
قانون دان: ہاہاہاہاہا!

قانون دان: آپ کون سی ریاست میں ‌ ڈاکٹر ہیں؟
کاڈیالوجسٹ: یہ جاننے کی آپ کو کیا ضرورت ہے؟
قانون دان: ہاہاہا!

قانون دان: آپ اتنا کیوں ‌ اکڑ رہی ہیں؟ ہمبل رہئیے!
کاڈیالوجسٹ: یہ فری فنڈ کے مشورے کس لیے؟
قانون دان: آپ کی ذات کے لوگ میری ذات کے لوگوں ‌ سے صدیوں ‌ سے جنگ کرتے آئے ہیں۔
قانون دان: اسی لیے آپ میرے ساتھ ایسا سلوک کررہی ہیں۔

قانون دان: لڑکی میں ‌ تم کو جانتا ہوں۔
کارڈیالوجسٹ: میں ‌ تاریخی بنیادوں ‌ پر دوست اور دشمن نہیں بناتی۔
کارڈیالوجسٹ: اور تم مجھے نہیں جانتے، لڑکے!

قانون دان: میرا ایک دوست آپ کی ذات کا ہے لیکن وہ تو ایسا نہیں۔
کارڈیالوجسٹ: آپ کے دوستوں میرا کیا لینا دینا ہے؟
قانون دان: ہاہاہاہاہا

قانون دان: امید ہے کہ آپ کے مریض‌ آپ کے قہر سے محفوظ ہوں گے۔
قانون دان: آپ مجھے مشورہ دیں۔
کارڈیالوجسٹ: وہ کیوں؟
قانون دان: کیونکہ آپ ڈاکٹر ہیں اور آپ کو ذمہ دار انسان بننا چاہیے۔
کارڈیالوجسٹ: لیکن ذمہ دار انسان بننے کا سوشل میڈیا پر رینڈم لوگوں ‌ کو مشورے دینے سے کیا تعلق ہے؟
قانون دان: ڈیر، میں ‌ رینڈم نہیں ہوں۔
قانون دان: ایسے مت بولو۔
قانون دان: میں ‌ ایک ذمہ دار انسان ہوں! اوکے۔

کارڈیالوجسٹ: انٹرنیٹ معلومات سے بھرا پڑا ہے۔
قانون دان: ہاہاہا، آپ بہت مزاحیہ ہیں۔

کارڈیالوجسٹ: نہیں میں ‌ بالکل مزاحیہ نہیں ہوں۔
قانون دان: کیا آپ روتی ہیں؟
کارڈیالوجسٹ: نہیں۔
قانون دان: کیا آپ بڑھکیں مارتی ہیں؟
کارڈیالوجسٹ: نہیں۔
قانون دان: کیا آپ لوگوں ‌ کی صلاحیتوں کی تعریف کرتی ہیں؟
کارڈیالوجسٹ: ہاں اگر ان میں ‌ کوئی ہوں تو۔
قانون: اوہ، اب تو میں اس خلائی مخلوق کو جاننا چاہتا ہوں۔

کارڈیالوجسٹ: یہ ایک آزاد دنیا ہے اور اس میں ‌ جس کا جو دل چاہے چاہ سکتا ہے۔
قانون دان: اچھا ہے۔
کارڈیالوجسٹ: آپ کسی اور رینڈم خاتون کو اسٹاک کریں۔
قانون دان: یہ اسٹاکنگ نہیں ہے، ڈیر۔
کارڈیالوجسٹ: امید ہے کہ آپ کو کوئی اور مددگار مل جائے گی۔ گڈ بائے۔

قانون دان: آپ ایسے ہی معمولی ڈاکٹر ہیں اور ہائی پروفائل والا نخرہ دکھا رہی ہیں۔
قانون دان: تم ایک چھوٹی سی مکھی ہو!
کارڈیالوجسٹ: میں ‌ جو بھی ہوں سو ہوں۔

کارڈیالوجسٹ: ان باتوں ‌ کی آپ کو کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
قانون دان: بس ایک معمولی سی مکھی!
قانون دان: جو ایسے ہی بلا وجہ توجہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اترا رہی ہے۔
کارڈیالوجسٹ: چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں اس سے آپ کا کیا مطلب؟
کارڈیالوجسٹ: اترانا؟

قانون دان: تم انتہائی گھٹیا ہو، مجھ پر یقین کرو۔
کارڈیالوجسٹ: کیا آپ پاگل ہیں؟
قانون دان: نہیں، اصل میں آپ میں ‌ سماجی احساس کم تری ہے۔

قانون دان: تم مکھی ہو
قانون دان: ایک چھوٹی سی مکھی
قانون دان: دفعہ ہوجاؤ!

کارڈیالوجسٹ: یہ مت بھولیے کہ آپ نے مجھے میسج بھیجے، میں ‌ نے نہیں!
قانون دان: نکل جاؤ!
قانون دان: دفع ہوجاؤ!
قانون دان: مجھے نہیں ‌ معلوم تھا کہ تم اتنی گھٹیا ہو۔
قانون دان: دفع ہوجاؤ۔
قانون دان: تم بے کار ہو۔
کارڈیالوجسٹ: ٹھیک ہے، جائیے!

قانون دان: تم کوڑا ہو۔
قانون دان: دفع ہو جاؤ۔
قانون دان: تم ایک چھوٹی سی مکھی ہو۔
قانون دان: نکل جاؤ یہاں ‌سے۔

کارڈیالوجسٹ: آپ بھول رہے ہیں ‌ کہ آپ نے مجھے پیغامات بھیجے ہیں، میں ‌ نے نہیں۔
قانون دان: تم بے شرم بھی ہو۔
قانون دان: تم میں ‌ عزت نفس نہیں۔
قانون دان: ایک مرد تم سے کہہ رہا ہے کہ دفع ہوجاؤ تو دفع ہوجاؤ
قانون دان: تمہارے اندر عزت نفس کیوں ‌ نہیں ‌ ہے؟

کارڈیالوجسٹ: سنو ذرا یہ باتیں ایک آدمی سے جس میں ‌ خود کوئی عزت نفس دکھائی نہیں دے رہی۔
قانون دان: فک آف!
کارڈیالوجسٹ: مجھے یقین ہے تم نے دیگر خواتین ڈاکٹرز کو بھی میسج بھیجے ہیں۔
قانون دان: بھاڑ میں ‌ جاؤ۔

کارڈیالوجسٹ: میں اس گفتگو کی تصویریں اتار کر اور خواتین ڈاکٹرز کے ساتھ شئر کروں ‌ گی تاکہ وہ بھی تمہیں جان جائیں۔
قانون دان: فک آف!
کارڈیالوجسٹ: اب تم نے اپنے اصلی رنگ دکھائے ہیں۔

قانون دان: تمہارے جیسی حرافائیں تو ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔
قانون دان: ہر جگہ۔
قانون دان: کچھ عزت نفس دکھاؤ۔
قانون دان: دفع ہوجاؤ۔
قانون دان: شٹ!
قانون دان: کریپ ہیڈ!
قانون دان: چھوٹی مکھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2