جشن یا عوام پہ وزن؟


نبی پاک صلعم جب مدینہ کو ہجرت کی تو دیکھا وہاں موجود یہودی 10 محرم الحرام کا روزہ رکھتے تھے۔ آپ صلعم کے استفسار کرنے پہ معلوم ہوا کہ یہ لوگ حضرتِ موسٰی کی پیدائش کی خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔نبئ اکرم صلعم نے فرمایا کہ موسٰی اُن سے زیادہ ہمارا ہے اور ہم بھی یہ خوشی منائیں گے۔ لیکن ہم ایک کہ بجائے دو روزے رکھیں گے تاکہ یہودیوں سے مماثلت نہ رہے۔ چنانچہ مسلمانوں نے 9 اور 10 محرم کا نفلی روزہ رکھنا شروع کِیا۔

نبئِ کریم صلعم ہر پیر اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھا کرتے تھے۔ صحابۂ کرام نے آپ صلعم سے ان دو دنوں کی فضیلت کے بارے میں دریافت کِیا تو آپ نے کہا کہ پیر کے روز میری پیدائش کا دن ہے اس لیے میں شُکرانے کے طور پہ اس دن کا روزہ رکھتا ہوں اور ہر جمعرات کو چونکہ ہمارہ ہفتہ وار اعمال نامہ الله کے سامنے پیش ہوتا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال الله کے سامنے پیش ہوں تب میں روزے کی جالت میں ہوں!
ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد میَں تحریر کے دوسرے حصے مَیں بیان کرتی ہوں۔
چند روز پہلے 12 ربیعُ الاول کا دن تھا۔ ‘مسلمانوں’ نے خوب جوشُ خروش سے ‘عید میلادُ النبی’ منائی۔ نیاز کے کھانے بنے۔۔ مٹھائیاں، دودھ، چائے، شربت بانٹے گئے، پہاڑیاں بنائی گئیں، عید مبارک اور جشن مبارک کے پیغامات بھیجے گئے، رات رات بھر اور دن میں بھی میلاد ہوئے، کیک کاٹے گئے۔ کعبہ، مسجدِ نبوی اور گنبدِ خضرا کی شبیہات بنا کر بازاروں میں نمائش کی گئی۔ غرض دو تین دن تک بہت سی سرگرمیاں ہوتی رہیں۔
ان چند دنوں میں مَیں صرف یہ جائزہ لیتی رہی کہ اس سب میں مجھے دینِ اسلام اور تعلیماتِ رسول پاک کی کوئی ایک نشانی ہی مل جائے لیکن افسوس کہ مجھےان کی ایک جھلک بھی نہ مل سکی! گزشتہ سال یہ افواہ بھی تھی کہ سعودی عرب میں پہلی بار عید میلادُالنبی منائی گئی۔ میں نے اس خبر کی تصدیق کی تو پتا چلا ایسا بھی کچھ نہی ہوا اور مسجدِ نبوی میں تو ہمیشہ کی طرح اس بات کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں کہ کوئی ایسی سرگرمی نہ ہو جو میلادِ نبی کا شائبہ دے۔
رات 12 بجے کیک کاٹنے کے ساتھ بینڈ پہ قصیدہ بُردہ شریف کی دُھن بجائی گئی۔ گاڑیوں اور موٹر سائکلوں پہ جلوس نکلے جنہوں نے خوب شوروغوغا برپا کِیا۔ 13 ربیع الاول کی صبح جاب کے لئے نکلی تو سڑکوں اور راہداریوں پر ہر طرف بچا کچا کھانا، ڈسپوزبل کپ، شاپر، ریت، پتھر اور دیگر چیزیں جو پہاڑیاں بنانے کے لئے استعمال ہوئیں، ان کے ڈھیر نظر آئے۔
ان چند دنوں میں اتنا کچھ ہوا کہ میں مکمل بیان نہی کر سکتی۔ لیکن میں اس تمام معاملے پہ چپ نہیں بیٹھ سکتی۔ چونکہ اب عاشقانِ رسول اپنی “نارمل” روٹین میں واپس آ چُکے ہیں تو شاید یہ وقت ان کو آئنہ دکھانے کے لئیے بہتر ہو۔
افسوس کہ میں نے اپنے معاشرے کو جہالت کی پستیوں میں ایسے اعمال کرتے دیکھا کہ مجھے لگا جیسے ہم پھر سے مکّہ کے بت پرستوں کے دور میں آ گئے ہیں۔۔
ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ آپ جب دین کے معاملے میں بولیں تو عوامُ الناس کی طرف سے بلا تحقیق آپ پر کفر تک کے فتوے جاری کر دئیے جاتے ہیں۔ بات سمجھنا کوئی نہیں چاہتا لیکن خود کو صحیح ثابت کرنا ہر شخص اپنا نصبُ العین سمجھتا ہے۔لیکن حق بات کہنا ہم سب پر فرض ہے۔
جن لوگوں نے مجھے یہ دلیل دی کہ جب آپ اپنی سالگرہ کا کیک کاٹ سکتی ہیں تو نبی پاک صلعم کا کیوں نہیں؟ تو انکے لئیے ہی شروع میں وہ واقعہ بیان کِیا گیا ہے کہ جب نبی پاک نے محرم کے روزے رکھنے کو کہا تو ساتھ یہ تاکید بھی کی کہ مسلمان اپنے عمل سے یہودیوں کی مماثلت نہ کریں۔ اور کیک کاٹنا انگریزوں کی رسم بھی ہے اور تاریخ بھی۔ اور آج ہم کیا کر رہے ہیں؟
نبی کے یومِ پیدائش کو ہم نے بالکل کرسمس نہیں بنا دیا؟
آپ کو خوشی منانی ہے تو ویسے منائیں جیسے نبی پاک صلعم منایا کرتے تھے۔۔ یعنی روزہ رکھ کر!

میرےان حلقوں سے چند سوالات ہیں، اگر کوئی دلیل کے ساتھ جواب دے تو مَیں بھی ان کے ساتھ مل کہ ہر سال جشن مناؤں!

-ڈھول اور بینڈ اسلام میں کب سے جائز ہوا؟ جس کی تھاپ پہ قصیدہ بردہ شریف اور نعتیں پڑھ کے آپ ثواب حاصل کرتے ہیں؟

-کیک کاٹنے کی رسم خالصتاً انگریزوں کی ہے۔ وہ تو مرگ پہ بھی کیک ہی کاٹتے ہیں تو کیا آپ اس غلط فہمی میں ہیں کہ کافروں کی رسم کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منسوب کر کے آپ کوئی نیک عمل کرتے ہیں؟ آپ ثابت کر دیں کہ کیک کاٹنے میں کوئی مُضائقہ نہیں!

-پہاڑیاں بنانے کا عمل در حقیقت ہے کیا؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟ جس پہ ہزاروں روپے خرچ کِیے جاتے ہیں۔ کیا یہ ہندؤانہ رسم و رواج نہیں کہ بتوں اور شبیہات کے ذریعے اپنے مذہبی پیشواؤں کے یومِ پیدائش منایا جائے؟

-کیا آپ کے پاس کوئی حوالہ ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت 12 ربیعُ الاول کو ہی ہوئی؟

-نبی کریم صلعم کی زندگی میں کئی بار 12 ربیع الاول آیا لیکن نا تو آپ صلعم نے اس دن کی کوئی فضیلت بیان کی نا ہی کوئی جشن منایا۔ اگر اس دن جشن منانا قابلِ تعظیم ہے تو آپ صلعم کے بعد صحابہ کرام علیھم اجمعین، خُلفأِ راشدین اور تبع تابعین میں سے کسی نے یہ دن کیوں نہیں منایا؟

-اسلام ہمیشہ سادگی کا درس دیتا ہے۔ تو زرق برق لباس، شیروانیاں اور جُبے پہن کے نعت گوئی کرنے والے حضرات کو لاکھوں روپے دے کر محفلِ میلاد منانے کی کوئی اسلامی منطق موجود ہے؟

– کرسمس اور جشنِ عید میلادُ النبی میں کیا فرق ہے؟

اگر کسی کے پاس میرے سوالوں کے جواب مع دلائل ہیں تو برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں اور اگر نہیں ہیں تو خدا کے لئیے ان دلائل کی بنیاد پہ تمام بدعات کو ترک کریں۔ جزاکہَ الله خیراً کثیرَا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).