تحریک لبیک پاکستان تنہائی کا شکار کیوں؟


پاکستان تحریک لبیک غازی ممتاز قادری کی شہادت کے نتیجے میں حادثاتی طور پر معرض وجود میں آئی تھی۔ ابھی تک یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے اور جواب طلب بھی ہے کہ ممتازقادری کی پھانسی کے بارے میں جب پورے ملک میں کسی کو خبر نہیں تھی سوائے چند افراد کے تو پھر پھانسی کے محض چند گھنٹوں بعد وہ کون سی ٹیکنالوجی تھی جسے استعمال کرتے ہوئے شہر شہر گلی گلی خادم رضوی کے بینرز لگ چکے تھے۔
پینافلیکس بینرز وغیرہ کی چھپائی کے لئے کافی طویل وقت درکار ہوتا ہے اور پھر خادم رضوی اس سے پہلے اتنے معروف بھی نہیں تھے کہ ایک ہی ڈیزائن والے بینر پاکستان بھر میں از خود لوگ لگا لیتے یقینی طور پر مکمل پلاننگ کے ساتھ وہ سب ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ ممتازقادری شہید کے جنازے میں بیس پچیس لاکھ افراد نے شرکت کی لیکن قیادت نہ ہونے کے سبب اس تعداد کو اسلام آباد کا رخ نہیں کروایا جا سکا جبکہ اسلام آباد پہلے دھرنے میں چند ہزار افراد ہی خادم رضوی کے ساتھ گئے جنہیں جلد ہی گھر کو روانہ کر دیا گیا تھا جس کے بعد تحریک لبیک یا رسول اللہ بنی اور بعد ازاں تحریک لبیک پاکستان کے نام سے سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔

اس جماعت کو مذہبی طبقہ بالخصوص نوجوانوں نے پسند کیا کیونکہ نوجوان طبقہ اشتعال جذبات اور ولولہ انگیز تقریریں پسند کرتا ہے جبکہ مدرسوں میں پڑھنے والے حفاظ اور طالب علموں نے جماعت کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا۔

لیکن چونکہ خادم رضوی کے علاوہ جماعت کوئی دوسرا اہم لیڈر پیدا نہ کر سکی اور نہ ہی قیادت کو نچلی سطح تک پوری طرح منظم کر کے اسکی تربیت کی گئی لہذا ہر احتجاج پرتشدد ہوتا گیا راستے بند کر کے عام عوام کی تکالیف میں اضافہ کرنے کو کامیابی قرار دیا جانے لگا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک کے عام عوام انکے طریقہ احتجاج کے مخالف ہو گئے جبکہ پڑھا لکھا سنجیدہ طبقہ اس جماعت کی قیادت کی جانب سے گالیوں اور غیرمنطقی فارمولوں کا مذاق اڑانے لگا۔ پاکستان کے عام انتخابات میں بھاری ووٹ بنک حاصل کرنے والی جماعت کے پاس مذہب کے سوا کوئی پالیسی نہیں تھی۔ کارکنان کو پرامن احتجاج کے لئے تیار کرنے کا فقدان تھا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ جماعت آسیہ بی بی رہائی پر اپنے دھرنے میں اپنے کارکنان کو تشدد اور نفرت انگیز تقریروں سے باز نہ رکھ سکی بلکہ خود صف اول کی قیادت وہ تقریریں کرنے لگی جو ملک میں نہ صرف اداروں بلکہ عام عوام کے لئے بھی قابل قبول نہیں تھا نتیجتا تحریک اور عوام الگ ہو گئے اور قیادت کو حکومت کے سامنے مذاکرات کا راستہ اپنا کر گھٹنے ٹیکنا پڑے چونکہ وہ معاملہ انتہائی نازک تھا لہذا اس وقت حکومت کے لئے آپریشن کرنا آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہوتا لہذا حکومت نے وقت لیا اور بارہ ربیع الاول کے بعد آپریشن کا آغاز کر دیا۔

پاکستان بھر میں بہت کم لوگ سڑکوں پر نکل سکے جو نکلے وہ کچھ لاٹھیاں کھا کر گھروں کو روانہ ہوئے اور کچھ گرفتار ہو کر جیلوں میں پہنچ گئے۔ تحریک لبیک نے اپنے خلاف آپریشن کے لئے خود راہ ہموار کی اگر پرامن تحریک رہتی نفرت انگیز تقریروں کی بجائے پرامن طریقہ سے اپنی بات سامنے رکھتی اور کوشش کی جاتی کہ کم از کم عوام ان کے احتجاج اور دھرنوں سے متاثر ہوں جس کے لئے بہترین طریقہ لانگ مارچ ہو سکتا تھا لیکن ایک بار پھر ملک جام کرنے کا اعلان کر کے تحریک نے حکومت کو جواز دیا کہ اس کے خلاف آپریشن کیا جائے اور عوام بھی اس آپریشن پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بریلوی مکتبہ فکر سے مذہبی طبقہ قومی سیاست میں آیا تھا مگر نظر یہی آ رہا ہے کہ یہ سیاست جتنی تیزی سے عروج پر آئی تھی اسی تیزی سے دم توڑ رہی ہے۔

تاہم آپریشن کی کامیابی کا دارومدار حکومت اور ناکامی کا تحریک لبیک کی حکمت عملی پر ہوگا لیکن یہ سوچنا کہ تحریک یا خطرہ ٹل گیا حکومت کی بیوقوفی ہو گی۔

بتاتا چلوں کہ شام میں بھی اسی قسم کی تحریک نے جنم لیا تھا اور سوال کھڑا کیا گیا تھا کہ ملک کی 70 فیصد آبادی سنی ہے تو اقتدار دوسرے مسلک کے پاس کیوں جس کے ساتھ ہی شام میں مظاہرے اور دھرنے شروع ہوئے حکومت نے آپریشن کا آغاز کیا تو شام میں امن کی مخالف قوتوں نے عراق میں بمباری کی ویڈیوز شام سے جوڑ کر سوشل میڈیا پر جاری کرنا شروع کر دیں اور ملک میں طبقاتی جنگ کروا دی جو بعد ازاں داعش اور شام کی جنگ میں تبدیل ہو کر شام کو رات میں بدل چکی ہے۔

پاکستان میں بلاشبہ ایسی کسی طبقاتی تقسیم کی گنجائش موجود نہیں لیکن پھر بھی حکومت سکیورٹی اداروں اور عوام کو چوکنا رہنا ہوگا اور ہر لحاظ سے ملک میں امن کو قائم رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ہرقسم کی افواہوں اور پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).