قومی ڈیپریشن ۔۔۔۔ اور پیٹ پوجا کا جنون


ہم کھانے کے لئے زندہ رہتے ہیں یا زندہ رہنے کے لئے کھاتے ہیں؟

یہ اس زمانے کی بات ہے جب کراچی میں کون آئس کریم نئی نئی متعارف ہوئی تھی، ایک شام ہم باہر نکلے تو ہم نے اپنی بچی کو ایک کون آئس کریم دلوا دی۔ بچی ہمارے ساتھ آئس کریم کھاتی ہوئی فٹ پاتھ پر چل رہی تھی کہ ایک سفید پاجامہ کرتا پہنے ہوئے کھچڑی بالوں والے صاحب نے اس کو روکا اور جھک کر اسے سمجھانے لگے کہ گھر سے باہر، سڑک پر کھانا پینا بری بات ہے۔ ہم دونوں میاں بیوی بہت شرمندہ ہوئے کیونکہ جب واقعی سڑکوں پر کھانا پینا معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اب شام ہوتے ہی سڑکوں کے کنارے بنے ہوئے ہوٹلوں کے ملازمین فٹ پاتھوں پر میز کرسیاں بچھا دیتے ہیں۔ بار بی کیو انگیٹھیوں کا دھواں، پاس سے گزرنے والی، دھول اڑاتی ہوئی گاڑیوں کا شور اور راہگیروں کی نظریں کھانے میں مصروف لوگوں کو قطعی پریشان نہیں کرتیں۔ اب تو فٹ پاتھ پر چارپائیاں بچھا کر اور گاﺅ تکیے لگا کر کھانے کا فیشن بھی چل نکلا ہے۔

کراچی میں حسن اسکوائر سے شروع ہونے والے گلشن اقبال کے فٹ پاتھ پر ہر شام آپ کو ایسے ہی مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ نارتھ ناظم آباد کے ایچ بلاک کا ایک فٹ پاتھ بھی کھانے پینے کے شوقین افراد کے لئے مخصوص ہے۔ عزیزآباد کی فوڈ اسٹریٹ اور کلفٹن میں بوٹ بیسن کے علاقے میں بھی کھانے پینے کے شوقین لوگوں کا رش رہتا ہے۔ ابتدا میں صرف برنس روڈ کو یہ اعزاز حاصل تھا، چاٹ، دہی بڑے، نہاری اور انواع و اقسام کے کبابوں کے لئے لوگ برنس روڈ کا ہی رخ کرتے تھے۔ لیکن اب تو جگہ جگہ فاسٹ فوڈ اور روایتی کھانوں کے چھوٹے چھوٹے ہوٹل کھل گئے ہیں۔ اہالیان کراچی کے پاس اب تفریح کا صرف ایک ہی ذریعہ رہ گیا ہے اور وہ ہے باہر جا کے کھانا کھانا۔ دوسرے ملکوں میں لوگ تھیٹر، جمناسٹک، اوپیرا اور کلچرل شوز دیکھنے جاتے ہیں، ثقافتی تہواروں میں شرکت کرتے ہیں لیکن ہم تفریح کے لئے صرف کھانا کھانے باہر جاتے ہیں۔ زندہ رہنے کے لئے کھانا ضروری ہے مگر صرف کھانے کے لئے زندہ رہنے کا مطلب خود کو ایک بے حس قوم میں تبدیل کرنا ہے۔

یہ تو میں نے کئی جگہ پڑھا تھا کہ عورتوں کے موٹاپے کہ وجہ یہ ہے کہ وہ ڈیپریشن میں مبتلا ہوتی ہیں، اس لئے زیادہ کھاتی ہیں لیکن کراچی کے ہوٹلوں میں کھانے کی ٹیبل کے خالی ہونے اور اپنی باری کا انتظار کرنے والے لوگوں کو دیکھ کر میں سوچتی ہوں شائد بحیثیت قوم ہم ڈیپریشن میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ شائد ایسا ہونا ہی تھا، اپنی انہتر سالہ زندگی میں اس قوم نے کیا کچھ نہیں دیکھا۔ 1947ء میں تاریخ کی سب سے بڑی اور خونریز ہجرت دیکھی۔ اور بمشکل ایک سال بعد ہی بابائے قوم کو کھو دیا۔ ڈیپریشن کا آغاز تو اسی وقت ہو گیا ہو گا۔ ایک فرد کی طرح ڈیپریشن کا شکار ہونے والی قوم بھی اذیت میں مبتلا رہتی ہے اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتی۔

 پاکستان بنتے ہی آئین بنانا ایک مسئلہ بن گیا تھا، ڈاکٹر خالد مسعود کے بقول اگرآپ اس زمانے میں اسمبلی میں ہونے والی ڈیبیٹس پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس وقت کے غیر مسلم شہری یا اقلیتیں اور لبرل مسلمان ایک غیر مذہبی آئین کے حق میں تھے۔ قائد اعظم انگلینڈ کے آئینی ماہرین سے خط و کتابت کر رہے تھے۔ مسئلہ صرف مذہب اور سیکولر ازم کے درمیان ڈیبیٹ کا نہیں تھا، نسلی، صوبائی عناصر، با اثر جاگیردار اور شاہی ریاستوں سمیت ہر کوئی اپنے مرتبے کے بارے میں سوال اٹھا رہا تھا، حکومت کے پاس صرف ایک ہی شارٹ کٹ تھا کہ اسلام کا نام استعمال کیا جائے، طاقت ور اقلیتی گروہوں کو اکھاڑ پھینکا جائے اور ریاستوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ چنانچہ 1949ء کی قرار داد مقاصد سامنے آئی۔

مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے حزب اختلاف کے رہنما سرس چٹو پادھیہ اور بیگم جہان آرا شاہنواز جیسے لبرل ارکان نے قرارداد مقاصد کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ قرار داد مقاصد سے پہلے قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو یاد رکھنا ضروری ہے ۔ وہ مذہب کو نہیں بلکہ شہریت کو نئی مملکت کا بنیادی اصول بنانا چاہتے تھے۔ “آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ،عقیدے یا ذات سے ہو ، اس کا امور مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا”۔ اس سے بھی پہلے بہتر ہو گا کہ اقبال کو یاد کر لیا جائے جنہوں نے اجتہاد پر بہت زور دیا تھا۔ ان کی رائے میں اجتہاد کا اختیار انفرادی نمائندوں کے ہاتھ سے لے کر مسلم قانون ساز اسمبلی کو دے دینا چاہئیے۔ عہد حاضر میں اتنے فرقوں کی موجودگی میں یہی اجماع کی ممکنہ شکل ہو سکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال اور قائد اعظم نے نئی مملکت کے لئے جو چاہا تھا ،وہ کیوں نہ ہو سکا ؟

ہوا یوں کہ وہ سارے علما جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی، پاکستان بننے کے بعد سیاسی گروہوں کی شکل میں منظم ہو گئے۔ 1953ء میں احمدیوں کے خلاف تحریک چلا کر انہوں نے پہلی مرتبہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ ڈاکٹر خالد مسعود کی تحقیق کے مطابق اس وقت تک ایک سیاسی گروہ کے طور پر علما کی ساکھ اچھی نہیں تھی کیونکہ انہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ لیکن لاہور کی تحریک سے عوام کو ان کی طاقت کا پتا چلا۔ طاقت کے اس مظاہرے سے پہلے تک اس زمانے میں شائع ہونے والا اسلامی لٹریچر دو گروپس میں بٹا ہوا تھا،ایک طرف اصلاح پسند تھے اور دوسری طرف روایت پسند۔ اصلاح پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جماعت اسلامی سامنے آ گئی تھی جب کہ ڈاکٹر فضل الرحمنٰ جیسے اصلاح پسند اجتہاد کا مطالبہ کر رہے تھے تا کہ اسلام کی قانونی روایت کو عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ جماعت اسلامی اور مولانا احتشام ا لحق تھانوی جیسے روایت پسندوں کی مخالفت کی وجہ سے بالآخر فضل ا لرحمنٰ صاحب کو ملک چھوڑنا پڑا۔

ان ہی مذہبی گروہوں کے سیاسی دباﺅ نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی 1973ء کے آئین میں اسلامی ضابطے ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد ضیاالحق کے دورمیں جو کچھ ہوا وہ کسی بھی قوم کو ڈیپریشن کا دائمی مریض بنانے کے لئے کافی تھا۔ زندگی کی جدوجہد میں لگنے والے دھچکے ایک فرد کی طرح ایک قوم کو بھی ڈیپریشن کا مریض بنا دیتے ہیں اور یہ قوم تو اپنا ایک بازو کٹ جانے کے ٹراما سے بھی گزری ہے۔ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی نے اس قوم کو وہ جھٹکے دئیے ہیں کہ اب کھا کھا کر اپنا غم غلط کرنے کے سوا کوئی راستا نہیں دکھائی دیتا۔ چلیں تو آج پھر جیب اجازت دے تو کسی فٹ پاتھ پر یا کسی ائر کنڈیشنڈ ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments