جینے والو! تمہیں ہوا کیا ہے


\"ramish\"نفسیات کا ایک بنیادی اصول ہے کہ اگر ہم مسلسل منفی اور خوفناک تجربات سے گزرتے رہیں تو بالآخر تشدد، ناانصافی اور ظلم کے بارے میں ہمارا جذباتی ردعمل کند ہوتا چلا جاتا ہے۔

یہ لکھنے کا مقصد بس اتنا ہے کہ ہم بحیثیت قوم شاید حساس نہیں رہے، کم حساس ہو گئے ہیں کہ فرق ہی نہیں پڑتا۔ احساسات ہیں تو وہ مسلک کے تابع ہیں، جذبات ہیں تو وہ پہلے مقتول کا نام جاننا چاہتے ہیں، اور اگر یہ سب ہمارے مروجہ معیار پہ پورا اترے تو پھر ہم مذمت کر ہی دیتے ہیں۔ مذمت کا رونا تو میں پہلے رو ہی چکی ہوں کہ وہ کس قدر ٹوٹی پھوٹی مذمت ہوتی ہے اگر، مگر اور لیکن میں لپٹی، آج مگر مجھے لگا کہ کسی سے شکوہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، میں نے سوشل میڈیا پہ پڑھا غلام فرید صابری کے بیٹے، مقبول صابری کے بھتیجے، برصغیر کی قوالی کو زندہ رکھنے والے، عشق رسول اور اہل بیعت کے رنگوں میں سرشار امجد صابری کے قتل پر ایک طبقے نے انہیں مشرک مشرک کہہ کر شور ڈال دیا، اور دوسری وجہ تو نہ ہی پوچھیئے، مجھے ذاتی طور پہ لوگوں سے کہنا پڑا کہ خدارا یہ خون آلود چہرے کی تصویر ہٹا لیں۔

میں ڈاکٹر ہوں، ہسپتال میں روز لوگوں کو مرتے دیکھتے ہیں، لیکن پھر بھی ایک لمحے کو رک جاتے ہیں، آپ ڈاکٹرز کو بےحس کہہ دیتے ہیں کہ ان کے لئے موت حادثہ ہے، قیامت نہیں۔ آج میں سوال کروں؟ یہ جو قیامت امجد صابری کے گھرانے پہ گزری ہے یہ آپ لوگوں کے لئے محض ایک حادثہ کیوں ہے؟ بھلا ہو دھماکے کرنے والوں کا اور آئے روز قتل کرنے والوں کا کہ اب اس قوم کو سفاکیت اور حساسیت کا فرق بھی سمجھانا پڑ رہا ہے۔ آپ لوگ تو نام نہاد مسیحاؤں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ لیکن شکوہ کس سے کروں؟ اپنے محلے میں پچھلے دنوں ایک مرگ پہ میں نے انسانی بےحسی کے وہ مناظر دیکھے کہ مجھے جواں سال مرگ سے زیادہ اس بیوہ کے ساتھ روا رکھی جانے والی بےحسی نے رلا دیا۔

اے پی ایس کے طلباء کو شہید کہہ دیا، میں تب بھی چیختی رہی کہ ہمارے بچے قتل ہو گئے، آپ لوگ تب بھی روایات اور فضائل لے کر آ گئے، آج بھی کہا تو یہی ہوا۔ رکیں میری بھی سن لیں، موت حقیقت ہے سب کو آنی ہے، لیکن ایک فرق ہے نا؟ حادثاتی موت، طبعی موت، خودکشی اور قتل کا؟ کون کیسے گیا اس بات سے فرق تو پڑتا ہے نا؟ یہی کہنا چاہتی ہوں کہ قتل کی سفاکیت کو شہادت کی فضیلت میں چھپانا ناانصافی ہے۔ قتل ایک سفاک لفظ ہے، قاتل کے عزائم اور جرم کی سنگینی کا پتہ دیتا ہے، لیکن شاید ہم آخرت کے فضائل میں اتنے کھو چکے ہیں کہ زندگی کی پامالی کا احساس کرنا بھی گوارا نہیں۔ رمضان میں موت کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی زبان نہیں کانپتی کہ مقتول کے گھر والوں پہ کیا قیامت بیت گئی؟

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے اغوا ہوئے، اغوا میں جو گاڑی استعمال ہوئی اس پہ جعلی نمبر پلیٹ لگی تھی، رات فہیم صدیقی بتا رہے تھے کہ اس انکشاف کے بعد اب تک یہی ہوا ہے کہ نمبر پلیٹ کی بنیاد پہ لوگوں کو تھانوں میں بند کیا جا رہا ہے، آج امجد صابری کے قتل کے بعد ایک ٹی وی چینل نے دکھایا مکینک، مزدور سب کو ناکوں پہ روک کر تنگ کیا جا رہا ہے۔ ہم عام لوگوں سے ردِعمل کی نفسیات کا شکوہ کرتے ہیں ہمارے ادارے بھی شاید وقتی ردِعمل پہ یقین رکھتے ہیں تو شکوہ یہاں بھی بےکار ٹھہرا غالباً۔ ریلیاں جاری ہیں، ٹارگٹ کلنگ بھی جاری ہے، بس زندگی معطل ہے۔ انسانیت مقتول ہے اور ظلم قاتل ہے۔

امجد صابری کا قتل قوالی کا قتل ہے، فن کا قتل ہے، فنکار کا قتل ہے۔ ایک بےضرر انسان جو عشق کے رنگوں میں ڈوبا رہا اور شاید عشق خراج ہی مانگتا ہے کہ عاشق شور نہیں کرتا، خاک نہیں اڑاتا، ظلم کرنا اس کا شیوہ نہیں۔ بھر دو جھولی میری یا محمد، تاجدارِ حرم ہو نگاہِ کرم۔۔۔ آخر یہ پڑھنے والے سے کیا دشمنی رکھنی ؟ اس سوال کے اٹھتے ہی جواب آیا یہی پڑھنے والے سے تو دشمنی ہے۔ تو مجھے اب کسی سے کوئی شکوہ نہیں کرنا، کوئی گلہ نہیں ویسے بھی اس ہجوم کو تو سوال سے بھی نفرت ہے۔ میں کچھ سوال ہی چھوڑے جا رہی ہوں۔۔۔ ہم مصیبت کے مارے کدھر جائیں؟ یہ کیسی ٹوٹی ہوئی کمر ہے؟ یہ کیسا رینجرز آپریشن ہے؟ یہ کیسا نیشنل ایکشن پلان ہے؟ یہ کیسی سفاکیت ہے؟ یہ کیسی بےحسی ہے؟

ان کے عہد شباب میں جینا

جینے والو! تمہیں ہوا کیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments