بابری مسجد کے بعد دو تاریخی مساجد ہندوتوا کے نشانہ پر


26 سال قبل فیض آباد میں، جس کا نام بدل کر اب ایودھیا رکھ دیا گیا ہے، نہایت جنونی انداز سے بھارتیا جنتا پارٹی، وشو اہند و پریشد اور بجرنگ دل کے کار سیوکوں نے چار سو نوے سال پرانی بابری مسجد مسمار کی تھی۔ جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ یہ مسجد، رام چندر جی کی جائے پیدایش پر قایم رام مندر کو مسمار کرکے تعمیر کی گئی تھی۔ بابری مسجد کی مسماری کا مقصد ہندووتا کے جذبات بھڑکانا تھا اور اس کے سہارے عام انتخابات میں بھارتیا جنتا پارٹی کو جتانا تھا۔

اب جب کہ اگلے سال کے عام انتخابات سر پر آن پہنچے ہیں حکمران بھارتیا جنتا پارٹی، ایودھیا میں مسمار شدہ بابری مسجد کی متنازع زمین پر رام مندر کی تعمیر کا معاملہ اچھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔  لیکن اس وقت رام مند کی تعمیر کا کام شروع کرنا ممکن نہیں کیونکہ الہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کے ڈھائی ایکڑ رقبہ کو تین دعوے داروں رام للا، نرموہی اکھاڑے اور سنی وقف بورڈ کی ملکیت میں دینے کا جو فیصلہ کیا تھا اس کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں ہے جس کی سماعت جنوری 2019 سے پہلے ممکن نہیں ہے، لہذا اب بھارتیہ جنتا پارٹی نے پینترا بدلا ہے اور بنارس میں گیان واپی مسجد کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

بابری مسجد مسمار کرنے کے بعد بھارتیا جنتا پارٹی، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے دیوانون نے نعرہ لگایا تھا “ایودھیا تو صرف جھانکی ہے، کاشی، متھرا باقی ہیں”۔  26 سال بعد اب دوبارہ یہ نعرہ گونج رہا ہے۔  بابری مسجد کے مسماری سے قبل اتر پردیش کی حکومت نے کار سیوکوں کی سہولت کے لئے بابری مسجد کے اردگرد مکانات یہ کہہ کر مسمار کر دیے تھے کہ اس علاقہ کو خوب صورت بنایا جارہا ہے۔  مقصد اس صفائی کا یہ تھا کہ ملک بھر سے آنے والے ڈیڑھ لاکھ کار سیوکوں کو مسجد کے قریب سمایا جا سکے۔

Gyanvapi Mosque, Varanasi

عین اسی طرح اب بنارس میں گنگا کے کنارے وشوا ناتھ مندر سے ملحق صدیوں پرانی گیان واپی مسجد کے اردگرد کے پرانے مکانات کو مسمار کیا جارہا ہے تاکہ گنگا کے کنارے تک منظر صاف کر دیا جائے۔  اس علاقہ کے رہنے والوں کا کہنا ہے کہ مسجد اور وشوا ناتھ مندر کے اردگرد پرانے مکانات کی پتلی گلیوں کے باوجود اس علاقہ میں بھگدڑ کا کبھی کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ 1980 میں گیان واپی مسجد کے امام نے دعوی کیا تھا کہ یہ مسجد اکبر کے دور میں تعمیر کی گئی تھی اور اورنگ زیب کے عہد میں اس مسجد کی مرمت اور تزئیں کی گئی تھی۔

لیکن بیشتر تاریخ دانوں کا دعوی ہے کہ یہ مسجد اورنگ زیب کے عہدمیں 1669 میں تعمیر ہوئی تھی اور اس مسجد کی جگہ وشواناتھ مندر تھا جسے اورنگزیب نے مسمار کرا دیا تھا۔

اورنگ زیب عالم گیر کے اس اقدام کا مقصد اس علاقہ کے باغی زمینداروں کو ان کی شورش کی سزا دینا تھا۔ ان ہندو زمینداروں پر الزام تھا کہ انہوں نے مرہٹہ باغی پیشوا کو فرار ہونے میں مدد دی تھی اور اسے آگر ہ میں پناہ دی تھی۔ راجہ مان سنگھ کا یہ مندر مکمل طور پر مسمار نہیں کیا گیا تھا بلکہ مندر کا صرف ایک حصہ توڑا گیا تھا جو مسجد کے قبلہ کے سامنے تھا۔

پچھلی کئی صدیوں سے گیان واپی مسجد اور وشوا ناتھ مندر ایک دوسرے سے ملحق کھڑے ہیں۔  بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ وشواناتھ مندر کے ایک حصہ کو مسمار کرنے کا مقصد ہندووں سے انتقام نہیں تھا۔ مقصد اس کا محض باغیوں کو سزا دینا تھا کیونکہ اورنگ زیب نے ملک کے مختلف علاقوں میں بے شمار مندروں کی مالی اعانت کی ہے جن میں گوہاٹی میں اوما نند مندرشامل ہے جس کی باقاعدگی سے مالی اعانت کی، گجرات میں جین مندر تعمیر کرایا اور بنارس میں مغربی گھاٹ کے کنارے پربرہمنوں اور فقیروں کی رہایش گاہ تعمیر کرنے کے لئے زمین کا ایک بڑا قطعہ عطیہ کیا۔

اورنگ زیب نے اجین میں مہا کال مندر اور بندرا بن میں بھگوان کرشنا مندر کو وافر مالی امداد دی۔ مغل فرما نروا اورنگ زیب نے اپنے دور میں کئی مساجد بھی مسمار کرائیں۔  جن میں گول کنڈا کی مسجد بھی شامل ہے کیونکہ مقامی نواب نے ٹیکس ادا کرنے کے بجائے دولت مسجد میں ذخیرہ کر رکھی تھی۔ اس نواب کو یہ مسجد مسمار کر کے سزا دی گئی۔ یہ حقایق اس تاثر کو باطل ثابت کرتے ہیں کہ اورنگ زیب کے عہد میں بے شمار مندر مسمارکیے گے تھے۔

Eidgah Mosque – Krishna Janm Bhumi – Mathura

متھرا میں شاہی عید گاہ مسجد بھی ہندو قوم پرستوں کے نشانہ پر ہے جسے یہ بابری مسجد کی طرح مسمار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عید گاہ مسجد اورنگ زیب نے خود 1669 میں متھرا جا کر تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ یہ اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں قدیم گووند دیو مندر تھا۔ مسجد سے ملحق کرشنا جنم بھومی مندر ہے۔ ہندوں کا عقیدہ ہے کہ سری کرشنا یہیں پیدا ہوئے تھے۔ ساڑھے تیرہ ایکڑ رقبہ پر عید گاہ ہے اور اس سے ملحق کیشو ناتھ مندر کے اثار ہیں۔

بابری مسجد کی مسماری کے بعد بندرا بن کے ایک شہری منوہر لال شرما نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی تھی کہ شاہی مسجد میں جہاں اس سے پہلے صرف عید اور بقر عید کی نمازیں اد کی جاتی تھیں، پنچ وقتہ نمازوں کی ادائیگی پر پابندی عاید کی جائے، اس کے جواب میں اسلامی انٹر کالج کے پرنسپل عبد الحق نے عدالت میں ایک درخواست دی ہے کہ عید گاہ کی پوری زمین مسجد کی ملکیت ہے اور اس پر سری کرشنا ٹرسٹ کا قبضہ غیر قانونی ہے۔

ابھی تک یہ درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ اس علاقہ کے مسلمانوں کو خطرہ ہے کہ عدالت میں اس مقدمہ کے باوجود بھارتیا جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے کارکن کسی وقت بھی ہلابول کر بابری مسجد کی طرح اس شاہی عید گاہ مسجد کو بھی مسمار کر سکتے ہیں اور اگلے عام انتخابات جیتنے کے لئے یہ حربہ نہایت کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani