خیبرپختونخوا کے چوہے اور گلگت بلتستان کے مینڈک


صفدرعلی صفدر

\"Safdarگلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سپیکر فدا محمد ناشاد نے گزشتہ دنوں ایک مقامی اخبار سے گفتگو میں اپنے سمیت قانون ساز اسمبلی کے ممبران کو انتہائی لاچار اور بے بس قراردیتے ہوئے خود کو کنوئیں کے مینڈک کی مانند قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان کی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کے نمائندے نہیں ہوں گے اس وقت تک اس خطے کے حوالے سے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جتنا مرضی شور مچائیں وفاقی حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہم کنوئیں کے مینڈک کی طرح ہیں،ہماری آواز سننے والا کوئی نہیں۔

سپیکر صاحب کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت کو اپوزیشن جماعتوں اور عوام الناس کی جانب سے ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان کی قانون ساز اسمبلی میں کئی گئی دھواں دار تقریر پر شدید تنقید کا سامنا تھا۔ جس میں ڈپٹی سپیکر کا یہ رونا تھا کہ خطے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں آئے ایک سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود وہ یعنی عوام کے منتخب نمائندے عوامی فلاح و بہبود اور علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے کوئی خاطرخواہ اقدامات نہیں کرسکے، جس کے باعث عوام کے سامنے ان کو شرمندگی ہو رہی ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے ببانگ دہل اس بات کا اعتراف کیا کہ گلگت بلتستان کی طاقور بیوروکریسی عوام کے منتخب نمائندوں کو کسی خاطر میں لائے بغیر اپنے من چاہے فیصلے کرتی ہے جوکہ صوبائی حکومت کے لئے بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حاجی فدا محمد ناشاد اور جعفراللہ خان کا شمار گلگت بلتستان خاص طور پر حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک نمایاں مقام حاصل ہے جبکہ بلحاظ عہدہ بھی ان کی ایک خاص اہمیت ہے۔ یہ دونوں رہنما ہمیشہ سچائی، حق گوئی اور دلائل پر مبنی بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، اسی لئے ان کی باتوں میں وزن اور کھرا پن موجود رہتا ہے۔ ان کی جانب سے میڈیا میں آنے والی خبریں وقتی طور اعلیٰ حکومتی قیادت پر ناگوار گزری ہوں گیں مگر حقیقت میں باتیں یہ حکومتی ذمہ داران کے لئے ان کی کارکردگی کا آئینہ دار ہے۔

پاکستان جیسے معاشروں میں جب تک ایوانوں کے اندر حکومتی بنچوں سے سوالات نہیں اٹھائے جاتے، اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کی توفیق نہیں ہوتی۔ پھر جب پانی سر سے گزر جانے کے بعد ہوش آجائے تو حکومتی مدت اقتدار کے اختتامی سالوں پر گامزن ہوتی ہے۔

یہی کچھ گلگت بلتستان کی سابق صوبائی حکومت کے ساتھ ہوا۔ جس میں فدا محمد ناشاد اور جعفراللہ خان کی طرح اس وقت کے سپیکر قانون ساز اسمبلی وزیر بیگ اپنی ہی جماعت کی حکومت پرایوان کے اندر اور باہر کھول کرتنقید کرتے نظر آتے تھے۔ وزیر بیگ صاحب کی اس تنقید کو سیاست میں پی ایچ ڈی کے دعویدار سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ نے انا کا مسئلہ سمجھ لیتے تھے اور بلا تاخیر جوابی بیانات کے ذریعے خود کو صاف ظاہر کرنے کی کوششوں کرتے۔ جس کا نتیجہ گزشتہ انتخابات میں بدترین شکست اور پیپلزپارٹی کے صوبائی صدارت کے عہدے سے برطرفی کی صورت میں عوام کے سامنے آیا۔ کاش اگر اس وقت سابق وزیراعلیٰ اپنے سپیکر کے بیانات کا جواب دینے اور ان سے بے رخی کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے چند لمحے کے لئے اپنی حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیتے تو ہوسکتا تھا کہ نوبت اس نہج تک نہ پہنچتی۔

بہرحال جو ہوا سو ہوا، تاہم سابق وزیراعلیٰ کی اس لاپرواہی سے پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کو ایک تلخ تجربہ ضرور حاصل ہوا، تبھی تو پارٹی کے موجودہ صدر امجد حسین ایڈوکیٹ قیادت سنبھالتے ہی \”ماضی کی غلطیوں پر مٹی پاؤ اور بھٹو خاندان کو پھر سے زندہ کرواؤ\” والی پالیسی کے تحت مختلف اضلاع کے دوروں پر رخت سفر باندھ چکے ہیں۔

کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کی بدترین کارکردگی صرف اور صرف مہدی شاہ کی مرہون منت تھی۔ بلکہ بات یہ ہے کہ مہدی شاہ چونکہ اس وقت حکومتی سربراہ اور خطے کے چیف ایگزیکٹیو تھے اسی لئے سب انگلیاں ان کی جانب اٹھ رہی ہیں۔ ان سے سب سے بڑی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ انہوں نے اپنی حکومت میں احتساب کا عنصر سرے سے شامل نہیں کیا۔ ان کے لئے لازمی تھا کہ وہ اپنی کابینہ کے وزرا، بیوروکریسی اور اپنے چہیتوں کے کرتوت پر نظر رکھ لیتے کہ کون کس قسم کی سرگرمی میں ملوث ہے۔ بے شک وہ خود دودھ میں دھلے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں۔

ان کے دور میں سرکاری محکموں میں کرپشن، ٹھیکوں کی بندربانٹ ،اقرباپروری اور رشوت کے عوض ملازمتیں فروخت کرنے کی کہانیاں زبان زد عام ہونے کے باوجود بحیثیت حکومتی سربراہ کبھی بھی یہ جاننے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ آخر اس صورتحال کے ذمہ دار کون ہیں اور کیونکر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔ بلکہ انہوں نے تو بڑے مہربان کی حیثیت سے کرپشن میں مبینہ طور پر ملوث بیوروکریٹس کو اپنے دفتر میں پناہ تک دی جو کہ نئی حکومت قائم ہوتے ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے۔

پیپلزپارٹی کی اس قدر بدترین حکمرانی سے ناصرف پارٹی کی نئی قیادت بلکہ اقتدار میں آنے والی پاکستان مسلم لیگ(ن) کی نوزائیدہ حکومت کو بھی سبق حاصل ہونا چاہیے جس کا میں اپنے گزشتہ کئی کالموں میں بھی ذکر کرچکا ہوں۔ کیونکہ ہر اچھی اور کامیاب طرز حکمرانی کے لئے ماضی سے سبق حاصل کرنا انتہائی لازمی ہے چاہے وہ اچھائی کی صورت میں ہو یا برائی کی۔

شائد مسلم لیگ نواز کے صوبائی حکمرانوں کو ابتدائی سال کے دوران حکومتی ترجیحات کے تعین میں اس چیز کی طرف دھیاں نہ گیا ہو تبھی تو خود حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو آواز اٹھانی پڑرہی ہے۔ تاہم ان حکمرانوں کے پاس ابھی بہت وقت باقی ہے، ان کو سپیکر، ڈپٹی سپیکر کے تحفظات دور کرنے کے علاوہ اپوزیشن اور عوام کے تحفظات بھی دور کرنے کے لئے اپنی ایک سالہ کارکردگی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ وہ اس لئے کہ بظاہر تو وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن اور صوبائی وزراء میڈیا کے ذریعے اپنی سرگرمیوں اور حکومتی اقدامات سے عوام کو آگاہ کرنے میں خاصے سرگرم ہیں مگر عوام کی جانب سے یہ شکایات موصول ہورہی ہیں کہ صوبائی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے ثمرات سے عوام کو براہ راست کوئی فائدہ حاصل نہیں ہورہا ہے۔

عوام کو مختلف امور پر قانون سازی کرنے، اسمبلی میں بل پیش کرنے، پالیساں بنانے، ایم او یوز پر دستخط کرنے اور تقاریب سے خطاب فرمانے سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا جوکہ سڑکوں، پلوں، واٹر چینلوں، حفاظتی بند، بجلی گھروں اور دیگر املاک کی تعمیر، ہسپتالوں، اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار میں بہتری لانے، زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقعے پیدا کرنے، سرکاری ملازمتوں پر بھرتیوں میں صرف اور صرف میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھنے، سفارش اور رشوت کلچر کو دفن کرنے، غذائی اجناس کی قلت دور کرنے، بنیادی ضروری اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور سب سے بڑکر علاقے میں پائیدار امن کے قیام کے لئے موثر اقدامات سے پہنچ سکتا ہے۔ اس کے لئے مربوط پالیسی اور کڑا احتسابی عمل ناگزیر ہے۔

رہی بات سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی نہ ہونے کی تو اس میں عوام کا کیا قصور ہوسکتا ہے۔ عوام نے تو انہی مقاصد کے حصول کے لئے اپنے حق رائے دہی کے ذریعے نمائندے منتخب کر کے قانون ساز اسمبلی میں بھجوا دئیے۔ اب یہ ان کا کام ہے کہ وہ عوام کی جانب سے اس طرح کے مشترکہ ایشو پر اسمبلی کے فلور پر بحث کریں اور اسی کو بنیاد بناکر وفاقی حکمرانوں کا گریباں پکڑے۔کیونکہ فدا ناشاد صاحب کے بقول جس طرح صوبائی حکمران وفاق سے سامنے کنوئیں کے مینڈک کی مانند ہیں اسی طرح گلگت بلتستان کے عوام اپنے صوبائی حکمرانوں کے سامنے کنوئیں کے مینڈک کی مانند ہیں۔ عوام بھی اپنے حقوق اور بنیادی مسائل کا رونا روتے ہیں مگر ان مسائل کو سنجیدگی سے سننے اور ان کا معقول حل تلاش کرنے والا کوئی نظر نہیں آرہا ہوتا ہے۔

لہذا صوبائی حکمران پہلے عوامی مسائل کا حل تلاش کرکے انہیں اس بدبخت کنوئیں سے باہر نکال لیں پھر وفاق سے خود کو اس کنوئیں سے باہر نکالنے کا تقاضا کریں۔ ورنہ خیبرپختونخوا کے آدم خور چوہوں کی طرح گلگت بلتستان میں کنوئیں کے مینڈک حکمرانوں کا جینا محال کردیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments