کم عمری کی شادی پہ واویلا کیوں؟


\"salimپاکستان کی پارلیمنٹ میں کم عمری کی شادی پہ پابندی کا بل پیش ہوا۔ حیرت ہے کہ جس ملک میں لاکھوں 30 سالہ لڑکیاں، والدین کے گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں، وہاں پارلیمنٹ میں جہیزپر پابندی کی بجائے، ایسی غیر منطقی باتیں پیش کی جاتی ہیں۔

یورپ اور امریکہ میں ، کم عمری کی شادی پہ پابندی ہے۔ کم عمری کیا ہے؟ ان کے نزدیک 18 سال سے کم عمربندے کوگاڑی چلانے اور شادی کرنے کی اجازت نہیں (پہلی صورت میں، فریقِ ثانی، جذبات سے عاری مشین ہے)۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہاں 9 سالہ ماں بننے کے منفرد واقعات سے قطع نظر، سالانہ 16 ہزار ہا اسکول کی بچیاں، بِن بیاہی مائیں بن جاتی ہیں۔ (یہ ان کے اپنے اعداد و شمار ہیں)۔

پہلے یہ واضح ہوجائے کہ کم عمری کی شادی، اسلام کا نہیں بلکہ ہندوسماج کا مسئلہ ہے۔ (اورضمنی طور پر، مسلمانانِ پاک و ہند کا بھی )۔  خیر، یہ بات بعد میں!

دیکھئے، دوخاندان ہیں، ایک کے ہاں لڑکی اور دوسرے کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ مشرقی معاشرے میں، میاں بیوی کی عمروں کا فرق بہرحال ہوتا ہے مگر چلئے دونوں کے والدین ، ان کی آپس میں شادی کا معاہدہ طے کرتے ہیں۔ ظاہر ہے، وہ دونوں بچے، نہ اس فیصلے کے قابل ہیں نہ ہی سمجھتے ہیں۔ والدین ان کا نکاح رجسٹر کردیتے ہیں۔ واضح ہوکہ شادی کے دوحصے ہیں، ایک معاہدہ نکاح( کسی بھی عمر میں ہوجائے)، دوسرا، رخصتی برائے تعلقاتِ زن و شو(جو بلوغت پہ ہوگی، البتہ اسلام بلوغت کی کم از کم حد 18 سال نہیں مانتا۔  (یوں تویہ زمان و مکان پہ منحصر ہے، مگر فقہا اس کی کم از کم حد 9سال قرار دیتے ہیں)۔

(نوٹ: یہاں ، جسمانی بلوغت کی بات ہورہی ہے ۔ ذہنی بلوغت کی جانچ کون کرے گا؟)

سوال یہ ہے کہ والدین کے اس فیصلے پہ کیوں پابندی لگنی چاہئے؟

ہم والدین کو، اولاد کا خیر خواہ سمجھتے ہیں۔  والدین سے فٰیصلوں میں غلطی ہوسکتی ہے۔ (یوں بھی تو ہوتا ہے کہ 25 سالہ لڑکی، اپنے کلاس فیلو سے شادی کرکے، بعد میں اپنے ذاتی فیصلہ پر پچھتاتی ہے)۔  کم عمری میں نکاح کے واقعات بہت ہی کم ہیں مگر یہ کہنا کہ بچوں سے پوچھے بنا، والدین کے لئے انکی زندگی کا فیصلہ کرنا ظلم ہے، بذات خود غلط بات ہے۔ بچوں کی زندگی کے سب ابتدائی فیصلے والدین ہی کرتے ہیں۔ بچے کو کام پہ ڈالنا ہے؟مدرسہ یا اسکول؟ شہر میں رہنا ہے یا دیہات میں؟وغیرہ، کئی ایسے فیصلے، بچوں کی بے خبری میں ، والدین ہی کرتے ہیں جو زندگی بھران پہ اثر اندازہوتے رہتے ہیں۔

یوں بھی اہل مغرب کے ہاں، شادی صرف، متعلقہ مرد اور عورت کے گرد گھومتی ہے مگراہل مشرق کے ہاں یہ نئے خاندان کی بنا ہے، یہ صرف دو بندوں کا معاملہ نہیں۔ یہاں ، عمراورشکل کے علاوہ بھی بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ تو جیسے بچوں کی زندگی کے دیگر اہم فیصلے ، ان کے والدین کرتے ہیں، ان کے اس فیصلے پر بھی قدغن نہیں لگانی چاہئے۔ (مکرر کہتا ہوں، بہت کم مثالیں واقعتاً ایسی ہوتی ہیں۔ مسلمانوں میں بچپن کی شادی کی اجازت ہے، رواج نہیں)۔

مزید، کسی نے مستقبل میں معاش کی خاطر، بچوں کوچاہے جس لائن کی بھی تعلیم دی ہو، مگر بچے، سمجھدار ہونے کے بعد، اپنی لائن تبدیل کرلیں تو اس پہ کوئی پابندی نہیں۔  بعینہ اسی طرح، اسلام بلوغت سے پہلے رخصتی کی اجازت نہیں دیتا اور بلوغت یعنی سمجھدار ہوتے ہی، اگر بچوں کو والدین کا یہ فیصلہ پسند نہیں تومعاہدہ فسخ کرنے کا یعنی، خلع یا طلاق کا حق حاصل ہے(ہندو مت میں طلاق کا تصور نہیں ہوتا مگراسلام منطقی و فطری دین ہے۔ اس لئے عرض کیا تھا کہ کم عمری کی شادی، دراصل ہندو مت کا پرابلم ہے جہاں شوہر کے مرنے پہ بیوی کا خود کو ستی کرنا دینی خوبی کہلائے)۔

شادی کا دوسرا حصہ، بیوی کو، تعلقاتِ زن و شو کے لئے، شوہر کے حوالے کرنا ہے۔ کم عمری کی شادی پہ اعتراض کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ابھی لڑکا اور لڑکی ، معاشی طورپر خود کو سنبھالنے کے قابل نہیں اوران پہ مزید بوجھ ڈال دیا گیا۔  بھئی ، اگر کسی کے والدین، بخوشی یہ بوجھ اٹھانے کو تیار ہیں تو آپ کو کیا مسئلہ ہے۔ جاگیردار فیملی ہے، ماں بیمار ہے، مرنے سے پہلے، پوتے دیکھنا چاہتی ہے، 15 سالہ ایک ہی بیٹا ہے، 15 سالہ لڑکی(مثلاً) دوسری فیملی سے شادی کو تیار ہے تو آپ کیوں چاہتے ہیں کہ 18 سال سے پہلے اس شادی پہ پابندی عائد کی جائے ؟ایسی مثالیں بھی ہیں کہ کوئی 40 سال تک بے روزگار رہ جاتا ہے۔ پھر تو آپ شادی کی عمر، ملازمت کے معاہدہ ہونے پر مقرر کردیں؟

یہ بھی ذہن میں رہے کہ شادی، صرف جنسی تعلق کا نام نہیں۔ یہ سماجی معاہدہ، دراصل صنفِ نازک کے تحفظ کا ذریعہ ہے(صنف نازک کی اصطلاح بھی اسی مغرب کی ایجاد ہے جو عورت ومرد کو برابری کا درجہ دیتا ہے۔ یاللعجب! برابر ہیں توپھر ایک نازک اور دوسرا سخت کیوں؟)بہرحال، جنسی تعلقات کے ضمن میں، دونوں فریق یکساں سودو زیاں کا سامنا نہیں کرتے۔ زیاں ، عورت کے حصے میں آتا ہے۔ اس لئے اسلام میں کفالت کی ذمہ داری مرد پر ہے اور عورت کو مرد کی آمدنی میں سے، مروج نان و نفقہ کے بقدر، بغیر بتائے بھی خرچ کی اجازت ہے۔ دوسری طرف اگر بچوں کی تربیت میں فرق نہ آتا ہو(جس کا تعین خاندان کی باہمی رضامندی یا قاضی کرے گا) تو عورت کو اپنا کاروبار/نوکری کرنے کی اجازت ہے، لطف کی بات یہ کہ بیوی کی آمدنی پہ مرد کا حق نہیں۔ یہ بھی نوٹ کرلیجئے کہ مرد کسی معقول وجہ کے بغیر عورت کو کمانے سے روک نہیں سکتا (اور یہ بھی کہ کسی بھی طرح کے حالات میں س کو کمانے پہ مجبور بھی نہیں کرسکتا)۔

ان حالات میں، کون بچپن میں شادی کرتا ہے؟ زمانے کے تقاضے بدل گئے۔ عرب لوگ تو تعدد ازواج میں مشہور تھے ہی، لیکن ، پختون بھی کم از کم دو شادیاں کر ہی لیتے تھے۔ (اب لوگ ایک نیک بخت کو بھی نصف کرنا چاہتے ہیں)۔ پرانی روایتیں بوجوہ دم توڑ رہی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں فطرتِ انسانی کو پابند کرکے، ایک سے زیادہ شادیوں پہ روک لگا دی جائے۔ (یہ الگ موضوع ہے)۔ اسی طرح، غم دوراں نے اب درجن بھر بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں چھوڑا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اولاد پیدا کرنے کے بنیادی حق میں ریاست دخیل ہوجائے۔ (ریاست اگر تعددِ ازواج یا کثرتِ اولاد کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتی ہے تو بلا واسطہ ایسے ضمنی قوانین بنائے جاسکتے ہیں جس سے مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ طوالت کے خوف سے، صرف اتنا اشارہ کرتا ہوں کہ مثلاً سب بیٹے بیٹیوں کویکساں اور لازمی تعلیم نہ دینا والدین کا قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے اوریوں، ایسے اخراجات کے پیش نظر، میاں بیوی، خود ہی باڑ لگا کر سویا کریں وغیرہ)۔

کم عمری کی شادی پہ ایک منطقی اعتراض ضرور ہے کہ چھوٹی عمر میں ماں بننے میں طبی پیچیدگیاں ہوجاتی ہیں۔ (اگرچہ یہ کیس ٹو کیس بات ہے۔ طبی پیچیدگیاں بڑی عمر کی عورتوں کو بھی لاحق ہوسکتی ہیں)۔ اسلام عورت کی صحت کو اولیت دیتا ہے۔ ریاست کا فرض ہے، لمحہ بہ لمحہ طبی تشخیص فراہم کرے۔اگر ایک مستند طبیب، ایک کم عمر جوڑے کو، طبی نکتہ نگاہ سے کچھ عرصہ کے لئے اولاد پیدا کرنے سے منع کردے تو اس کی ہدایات، شرعی فتوی کی حیثیت رکھتی ہیں، جس کی پابندی قانونی ہی نہیں، دینی ذمہ داری بھی ہے۔ یہ طبی فتوی 15 سال کی لڑکی کے لئے ہی نہیں، 25 سال کی لڑکی کے لئے بھی وہی حیثیت رکھتا ہے تو اس بنا پر شادی کی عمر پہ قدغن لگانے کی کیا تک ہے؟

خاکسار ، بڑے وثوق سے عرض کرتا ہے کہ دنیا کا مسئلہ اسلام نہیں ہے بلکہ آدھا اسلام ہے۔ شادی کے موضوع کو لے لیجئے، 18 سال سے کم عمر شادی پہ پابندی لگانا، اسلام ہی نہیں، انسانوں کے بنیادی حق پہ پابندی لگانا ہے۔ پیٹ کی بھوک اور جنس کی بھوک پہ ٹائم ٹیبل نافذ کرنے سے چوری بڑھتی ہے۔ لیکن شادی ہی کے ضمن میں، صرف عمر ہی نہیں، اسلام کے اور بھی کئی احکام لاگو ہیں۔ علمائے کرام، جب ایک نکتے کا دفاع اور باقی نکات پر خاموش رہتے ہیں تو اسلام کی پاکیزہ منطقی تصویرخراب ہوتی ہے۔ علما کو اصل اسلام واضح کرتے ہوئے، ہر قسم کے رواجات کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے(مگر پھر شایدیہ بھی بتانا پڑے کہ جمعہ کے دن کی تقریر، نہ توشرعاًضروری ہے اور نہ ہی صرف عالم یا خطیب ہی کے لئے حلال ہے)۔

بشرط فرصت، میں امام ابوحنیفہ صاحب کا شادی کے بارے میں بہترین موقف بیان کروں گا۔ فی الحال یہ جان لیجئے کہ دوسرے تین ائمہ کے برعکس، امام صاحب کے نزدیک، ایک عاقلہ بالغہ لڑکی کو اپنا جیون ساتھی خود چننے کی پوری اجازت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments