قوالی کے موجد امیر خسرو کو قتل کیوں نہیں کیا گیا؟


کہتے ہیں کہ تیرہویں صدی کے آخری سالوں میں گنگا کنارے پٹیالی کے گاؤں میں ایک شخص پیدا ہوا جو تھا تو ترک، مگر گمراہ ہو کر شاعری اور جرنیلی بھی کرنے لگا اور اس نے مسلمانوں پر ایسے برے اثرات چھوڑے جو آج تک حاوی ہیں۔ اس نے دہلی کے آٹھ بادشاہوں کا دربار دیکھا اور امیر کا لقب پایا۔ لیکن یہ ترک زادہ فن سپاہ گری کی بجائے طوطی مقال کے نام سے زیادہ جانا گیا۔ اس نے راگ رنگ میں  زیادہ نام پایا۔ امیر خسرو کی وجہ شہرت موسیقی اور شاعری تھی۔ موسیقی میں کئی راگ راگنیاں اسی شخص کی ایجاد ہیں۔ اس فن میں اس کو اعلی ترین درجہ، یعنی نائک دیا جاتا ہے۔ ڈھول کو دو ٹکڑے کر کے طبلہ بنانا اسی کی حرکت بتایا جاتا ہے۔ ستار میں بھی اس نے کچھ چھیڑ چھاڑ کی اور ایک آدھا تار زائد ڈال دیا۔

اندازہ لگائیں۔ اس وقت امت کی کیا حالت تھی۔ دہلی میں مسلمان بمشکل قدم جما رہے تھے۔ بیشتر ہندوستان ابھی غیر مسلموں کے تسلط میں تھا۔ لیکن یہ شخص خاندان غلاماں کے مجاہد سلاطین کو لہو و لعب میں مبتلا کرنے میں مشغول تھا۔ ڈھول تو میدان جنگ کا ایسا ساز ہے جو کہ ایک ہتھیار ہے۔ اس کی تھاپ پر لشکر مارچ کرتے ہیں۔ اس کی تھاپ سے ان کو حملے کا پیغام ملتا ہے۔ میدان رزم کے اس جنگی ہتھیار کو کاٹ کر ایسا درباری ساز بنا ڈالنا، جو کہ عیش گاہوں میں بیٹھ کر بجایا جاتا ہے، مجاہدین کو تماش بینوں میں تبدیل کرنے کی سازش نہیں تھا تو اور کیا تھا؟

لیکن ٹھہریے! بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ جس وقت ہندو قوم راگ رنگ میں مبتلا تھِی اور خراسان اور ماورا النہر کے مسلمان مجاہدین شمشیر کے جوہر دکھا رہے تھے تاکہ کفار کے ملک ہندوستان میں اسلام پھیلا سکیں، تو اس وقت چند راہ راست سے بھٹکے ہوئے لوگ جو خود کو صوفی کہلاتے تھے، ہندوستان میں آنے لگے۔ کسی بھی راسخ العقیدہ سلفی مسلمان سے پوچھ لیں، بلکہ سلفی کیا، سید مودودی یا اپنے تئیں بہت جدیدیت پسند بنے غلام احمد پرویز یا جاوید احمد غامدی تک سے پوچھ لیں، وہ بتائیں گے کہ صوفیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ نری بدعت ہے۔ اوپر سے مزید یہ ظلم ہوا کہ بجائے اس کے کہ مقامی غیر مسلم مشرکین کو تلوار کے زور پر زبردستی مسلمان کیا جاتا، یہ بہکے ہوئے صوفی ان کو پیار محبت اور انسانیت پر مبنی پیغام سے مسلمان کرنے لگے۔ اور ان صوفیوں کے پہلے درباری شکاروں میں سے جو نام سامنے آتا ہے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ اسی فن موسیقی کے نائیک امیر خسرو کا ہی ہے۔

امیر خسرو ایک بڑے صوفی کے مرید ہوئے جو کہ محبوب الہی نظام الدین اولیا کہے جاتے تھے اور صوفی حلقوں میں سلطان المشائخ کے خطاب سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ اس پیر اور مرید کی جوڑی کا ایک قصہ سنیں اور معاملے کی نزاکت پر غور کریں۔ مولوی سید احمد دہلوی لکھتے ہیں۔

“دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان کے باشندے بھی جاڑا ختم ہونے پر آمد بہار کو مبارک اور اچھا سمجھ کر نیک شگون کے واسطے اپنے دیوی دیوتاؤں اور اوتاروں کے استھانوں میں مندروں پر ان کے رجھانے کے لئے بہ تقاضائے موسم سرسوں کے پھولوں کے گڑوے بنا کر گاتے بجاتے لے جاتے اور اس میلے کو بسنت کہتے۔

امیر خسرو دہلوی نے اس ہندوانہ میلے کو مسلمانوں میں رائج کیا۔ مشہور ہے کہ محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیا کو اپنے بھانجے مولانا تقی الدین نوح سے بہت پیار تھا۔ تقی الدین نوح کو بھی حضرت محبوب الہی سے اس درجے انس تھا کہ پانچوں وقت نماز پڑھ کر دعا مانگتے تھے کہ الہی میری عمر بھی محبوب الہی کو دے دے تاکہ ان کا روحانی فیض عرصہ دراز تک جاری رہے۔ بھانجے کی دعا قبول ہوئی اور اٹھتی جوانی ہی میں اس جہاں سے اٹھ گئے۔ حضرت نظام الدین اولیا کو یہاں تک صدمہ اور رنج و الم ہوا کہ آپ نے یک لخت، جس راگ کے بغیر دم بھر نہیں رہتے تھے، اسے بھی ترک کر دیا۔ جب اس بات کو چار پانچ مہینے کا عرصہ گزر گیا تو آپ تالاب کی سیر کو، جہاں اب باؤلی بنی ہوئی ہے، مع یاران جلسہ تشریف لائے۔

ان دنوں میں یہی بسنت کا موقع اور بسنت پنچمی کا میلہ تھا۔ امیر خسرو کسی سبب سے ان سب کے پیچھے رہ گئے۔ دیکھا کہ کھیتوں میں سرسوں پھول رہی ہے۔ ہندو اپنے بزرگوں کے استھانوں پر گڑوے بنا بنا کر لئے چلے جاتے ہیں۔ انہیں بھی یہ خیال آیا کہ میں بھی اپنے پیر کو خوش کروں۔ چنانچہ اس وقت ایک خوشی و انبساط کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اسی وقت دستار مبارک کو کھول کر کچھ پیچ ادھر اور کچھ ادھر لٹکا لئے۔ ان میں سرسوں کے پھول الجھا الجھا کر یہ مصرعہ الاپتے ہوئے اسی تالاب کی طرف چلے جدھر آپ کے پیر مرشد تشریف لے گئے تھے۔

اشک ریز آمدہ است ابر بہار (بہار کے بادل چھائے ہوئے ہیں تو بھی آنسو بہا)

جہاں تک اس الاپ کی آواز پہنچتی تھی، یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک زمانہ گونج رہا ہے۔ ایک تو یہ حضرت فن موسیقی کے نائک اور عدیم المثل سرود خواں تھے، دوسرے اس ذوق شوق نے اور بھی آگ بھڑکا دی۔

کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ محبوب الہی کو خیال آیا کہ آج ہمارا ترک یعنی خسرو کہاں رہ گیا۔ عجب نہیں کہ کچھ سریلی بھنک بھی کان میں پہنچی ہو۔ آپ نے پے در پے دو چار جلیسوں کو ان کے لینے کو بھیجا۔ وہ جو تلاش کرتے آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ عجب رنگ سے آپ گاتے ہوئے مستانہ چال و معشوقانہ انداز سے خراماں خراماں جھومتے ہوئے چلے آتے ہیں۔ وہ (ہم جلیس) بھی کچھ ایسے مدہوش ہوئے کہ اسی رنگ میں مل گئے۔ ہر کہ در کان نمک رفت نمک شد۔ غرض ایک شخص واپس آیا

اشک ریز آمد است ابر بہار
ساقیا گل بریز بادہ بیار (اے ساقی پھول بکھیر اور شراب لے آ)

دوسرے مصرعے کا سننا تھا کہ حضرت نے بے تاب ہو کر اپنے دامان و گریبان کو چاک کر ڈالا اور حضرت امیر خسرو کو گلے میں بانہیں ڈالے ہوئے لئے چلے آئے۔ کہتے ہیں کہ ایک عرصے تک رقت کا بازار گرم رہا اور اہل ذوق مرغ بسمل کی طرح تڑپتے اور پھڑکتے رہے۔ غرض اس وقت سے مسلمانوں میں یہ میلہ بھی شروع ہو گیا اور حضرت سلطان المشائخ نے بھی راگ پھر سے شروع کر دیا”۔

صوفی روایت آپ نے سنی۔ یہی وہ نازک وقت تھا جب ہندو تہوار بسنت اور غیر اسلامی موسیقی قوالی درگاہوں میں عام ہو گئی۔ قوالی کو بھی امیر خسرو ہی کی ایجاد کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ خواجہ معین الدین چشتی کے وقت سے شروع ہو چکی تھی، مگر موجودہ شکل میں اسے راگ رنگ کے رسیا امیر خسرو نے ہندی، ترک، عربی اور فارسی اسالیب موسیقی کے ملاپ سے تیار کیا اور اس نے گزشتہ سات صدیوں سے برصغیر کے مسلمانوں کو گمراہ کیا ہوا ہے۔

متحدہ ہندوستان میں تو خیر مجبوری تھی کہ راسخ العقیدہ مسلمان ایک نہایت ہی اقلیت تھے، لیکن جب خدا کے فضل سے مملکت پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا، تو رفتہ رفتہ ہم بدعتوں سے دور ہونے لگے۔ حضرت ضیا الحق شہید کے دور میں جب سرزمین نجد سے ہمارا قریبی تعلق قائم ہوا تو پھر ہم نجدی اسلام کی اصل روح کی طرف پلٹے، اور ایک طرف قوم کے بچے بچے نے ہتھیار اٹھا لیے اور وہ گمراہوں کو مارنے لگا، تو دوسری طرف تصویر، حجامت اور موسیقی وغیرہ کو دوبارہ غلط سمجھا جانے لگا۔

خیر مجاہدین نے تصویر میں تو خیر کا پہلو نکال لیا اور اب ان کے اپنے ٹی وی چینل اور اپنی سیلفیاں وغیرہ بھی نظر آنے لگے ہیں، لیکن موسیقی اور حجاموں کے اڈوں میں خیر کا کوئی پہلو نہ دیکھ کر ان کو بم دھماکوں کا نشانہ بنا کر قوم کو راہ راست پر لایا جانے لگا۔ درگاہوں کی بدعت سے بھی اسی طریقے سے نمٹا جانے لگا۔ بلکہ سوات کے ایک پیر صاحب کی تو لاش کو بھی قبر سے نکال کر کئی دن تک چوک پر لٹکایا گیا تاکہ سب کو عبرت حاصل ہو۔

اب کل ایک مشہور قوال امجد صابری کو راستے سے ہٹا دیا گیا ہے تو امید ہے کہ قوالی کا یہ گمراہ کن فن بھی دفن ہو جائے گا اور طبلے کی عیش پرور موسیقی کی بجائے ایک مرتبہ پھر ڈھول کی رزمیہ تھاپ وطن عزیز کی فضاؤں میں گونجنے لگے گی۔ نجدی مجاہدین تو یہی کہتے ہیں کہ اگر سات صدیوں قبل ہی امیر خسرو کے فتنے کا سد باب کر لیا جاتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اور قوم میں اس حد تک بگاڑ پیدا نہ ہوتا۔

ہم بھی حیران ہیں کہ اسی اچھے وقت میں جب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی، قوالی کے موجد امیر خسرو کو قتل کیوں نہیں کیا گیا؟

23 جون 2016

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments