جب ایک قوم سفاک ہو جائے۔۔۔


\"farnood\"کل عرض کیا کہ ہم شاید اجتماعی طور پہ سفاک ہوگئے ہیں کہ انسانوں کی جلی کٹی لاشوں کی ویڈیوز شئیر کردیتے ہیں۔ اس بیچ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب کی بات دل میں ترازو ہوگئی۔ کہنے لگے

’’یہ سوشل میڈیا کا سماجی لحاظ سے سب سے زیادہ پریشان کن پہلو ہے. اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ آپ کے پاس کچھ ہے شئیر کرنے کو، اس کی نہیں کہ وہ شئیر کیے جانے کے لائق بھی ہے یا نہیں اور کس کے ساتھ شئیر کرنا ہے‘‘

کل پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی شخص کی خون آلود لاش کی ویڈیواورتصاویر شئیر کی گئیں۔ یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ شرفِ انسانیت کا لحاظ رکھے بغیر کچھ بھی شئیر کر دیا جاتا ہے۔ بڑی آسانی سے کوئی بھی عنوان لگا دیتا ہے

’’دیکھیں ٹارگٹ کلر نے سولجر بازار میں حاجی اقبال کو کس بے رحمی سے قتل کیا، آپ دیکھیں گے تو کانپ جائیں گے‘‘

پل بھر کو یہ احساس کرنے پہ کوئی آمادہ نہیں کہ کوئی بھی شخص اپنے بوڑھے باپ کو اور خاوند کو یوں قتل ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ کیا یہ کم تھا کہ اس نے سن لیا کہ ایک قتل ہوا ہے،اب دکھانا کیوں ضروری ہو گیا؟ سماجی ذرائع ابلاغ تو ادارتی ضابطوں سے آزاد ایک فورم ہے، مگر مرکزی ذرائع ابلاغ کو کیا ہوا۔؟ ذرائع ابلاغ پہ سفاک سے سفاک منظر بار بار دکھایا جاتا ہے، اور یہ کہہ کر اپنا فرض سر سے اتار دیا جاتا ہے کہ

’’بچے اور کمزور دل والے افراد یہ مت دیکھیں‘‘

اس اعلان کا کیا مطلب ہے۔؟ اب تک اس کا یہی مطلب سمجھ آیا ہے کہ یہی دیکھنے والی چیز ہے ذرا اہتمام سے دیکھیں۔ دراصل یہ اعلان ہوتا ہے کہ یہ ایک سنسنی خیز ویڈیو ہے، کوئی نابالغ اور کمزور آنکھ بھی دیکھنے سے نہ رہ جائے۔ وہی ویڈیو سب سے زیادہ اسی لیے دیکھی جاتی ہے کہ کمزور دل افراد کو دیکھنے سے منع کردیا گیا ہوتا ہے۔ جذبات کو تجسس کی بھینٹ چڑھا کر موم دلوں کو سفاک بنانے کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہوگا۔؟ سماجی ذرائع ابلاغ پہ ویب سائٹس کے پیچھے جلتے چراغوں کو اس بات کا احساس کیوں نہیں ہے کہ ہوا کی کسی سے کوئی رشتے داری نہیں ہوتی۔ کسی کے دل سے رحم و کرم کے جذبات کو نوچ کر آپ کتنے ٹکے کما لیں گے؟ مردانہ کمزوریوں کی ادویات کے اشتہارات پہ قناعت کرلینے میں کیا حرج ہے؟ خالی پیٹ تو رات کو بشیر پلمبر بھی نہیں سوتا، آپ بھی جان سے نہیں جائیں گے۔ جو اب تک بیچا اور خریدا اس کی جمع تفریق کر لیجیے۔ حاصل ضرب لگا لیجیے

نتیجہ۔؟

نتیجہ یہ کہ ہم حقیقت میں ہی اس قدر سفاک ہوگئے کہ کسی بھی درجے میں تہذیب واخلاق کے احساس سے بے نیاز ہوکر کچھ بھی شئیر کر دیتے ہیں۔ کیا ہم اپنے بھائی اپنے باپ اپنے دوست یا کسی بھی عزیز کی اس طرح کی ویڈیوز شئیر کریں گے کہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ اس کی گردن ڈھلکی ہوئی ہو اور سینے سے خون بہہ رہا ہو؟ اگر نہیں، ظاہر ہے کہ نہیں، تو پھر کیا امجد صابری کو ہم نے اپنا بھائی اپنا باپ یا اپنا دوست جانا؟

دیکھیں۔!

بات امجد صابری شہید کی نہیں ہے۔ بات حضرتِ انسان کے شرف و عظمت اوراس کی حرمت کی ہے۔ کسی انسان کا وجود تقدیس کا پیکر ہوتا ہے۔ اس کی جتنی تذلیل ہماری نگاہ میں ہوگئی، سو ہوگئی، اب اس تذلیل کا پرچار در اصل اس مقدس وجود کی رسوائیوں میں اضافے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اجتماعی زیادتی کی صرف خبر دی جا سکتی ہے، اگر اجتماعی زیادتی کے مناظر بھی ہم دکھائیں گے تو احترام آدمیت کو پائمال کرنے میں ہم برابر کے شریک ہوں گے۔

کہتے ہیں۔!

لٹریچر یہ نہیں ہوتا کہ کون سا مواد لینا ہے، لٹریچر یہ ہے کہ کون سا مواد چھوڑنا ہے۔ ذہانت یہ نہیں کہ آپ کیا کچھ لے رہے ہیں، ذہانت یہ ہے کہ آپ کیا کچھ چھوڑرہے ہیں۔ جو ہم چھوڑتے ہیں در اصل اسی سے تہذیب نمو پاتی ہے۔

قصہ مختصر۔!

خبر یہ تھی کہ خنجر ابھی چمک رہا ہے۔ بندوق سلامت ہے۔ آواز خاموش کردی گئی ہے۔ سُروں کا خون ہوگیا ہے۔ بانسری چٹخ گئی ہے۔ طبلے میں شگاف پڑ گیا ہے۔ ستار کے تار ٹوٹ کے بکھر گئے ہیں۔ خون آلود ہارمیونیم سوگوار ہوگیا ہے، کچھ نہیں بول رہا۔ اور بس۔ ہم ایسے بدنصیبوں کو جیتے جی مار دینے کے لیے اتنی خبر کیا کافی نہیں تھی۔؟

تو پھر۔!

اس بات کا حق تو بہرِ خدا دے دیا ہوتا کہ ہم امجد صابری کا ہنستا مسکراتا چہرہ سہمی ہوئی نگاہوں میں سدا سلامت رکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments