بانجھ نسلیں


کسی بھی جگہ جہاں چند عمر رسیدہ یا ادھیڑ عمر افراد کی محفل جمی ہو نئی نسل ضرور زیر عتاب آتی ہے۔ کوئی نوجوانوں کی آرام طلبی پر تنقید کرتا ہے اور کوئی ان میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی پر فکرمند دکھائی دیتا ہے۔ کسی کو طالب علموں کی بے ادبی اور گستاخی کا گلہ ہوتا ہے اور کوئی ان کی دین سے دوری کا رونا روتا ہے۔

ایسی گفتگو کے دوران محفل میں موجود بزرگ اپنی جوانی اور اپنے زمانے کی ایسی ایسی خوبیاں بھی گنواتے ہیں کہ انسان سوچتا ہے خدائے بزرگ و برتر نے دنیا میں ایسی بھولی بھالی ہستیوں کا مزید نزول آخر موقوف کیوں کر دیا ہے۔

کیا آج کے نوجوان اخلاقی اور عملی لحاظ سے واقعی اتنے ہی پست ہیں؟ اگر مان بھی لیا جائے کہ صورتحال ایسی ہی ہے تو کیا موجودہ نوجوان یہ تمام برائیاں اپنے ساتھ لے کر اس دنیا میں آئے تھے؟ کیا ان سے پہلے ان تمام برائیوں کامملکت خدا داد پاکستان میں کوئی وجود نہیں تھا؟

سیدھا سا ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر وطن عزیز میں بسنے والی پرانی نسلیں اتنی ہی ایمان دار، محنتی، قانون پسند، دانش ور، مخلص اور خدا کی برگزیدہ ہستیوں پر مشتمل تھیں تو پھر یہ عظیم صفات اگلی نسلوں تک منتقل کیوں نہیں ہو ئیں؟

کیا ایسا ممکن ہے کہ ایسے اچھے اخلاق اور اتنی اعلی عادات کے حامل لوگ اپنی اگلی نسل کو اچھی تربیت دینے کی اہمیت سے لاعلم رہے ہوں؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ گھر، گلی اور محلے میں اتنے شاندار اور اعلی کردار کے حامل افراد رہتے بستے، گھومتے پھرتے ہوں اور ان کے ارد گرد پرورش پانے والوں پر ان کے روشن اخلاق کی چند کرنیں بھی نہ گریں؟

ہم نے تو کافر قوموں کی ہر اگلی نسل میں اعلی سماجی اور اخلاقی اقدار کو پہلے سے مضبوط تر ہی ہوتے دیکھا ہے۔ ان کے بزرگوں نے لگ بھگ چودھویں صدی عیسوی میں اندھیروں سے بتدریج روشنی کی جانب سفر شروع کیا اور تب سے اب تک قانون کی بالادستی کا معاملہ ہو یا انسانی اقدار کے احترام کی بات، علم و ہنر میں ترقی کا عزم ہو یا امانت و دیانت کو شعار بنانے کا رویہ، ان کی ہر اگلی نسل میں یہ خوبیاں پچھلی نسل سے بڑھ کر دیکھنے کو ملتی ہیں۔

جن اقوام عالم نے بدلتے وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے سائنسی اور سماجی علوم کی ترقی کو اپنا نصب العین بنایا اور سچائی اور دیانت داری کو عملی زندگی میں اپنایا آج انہی کی نوجوان نسلیں اخلاقی اور عملی اعتبار سے افق پر چھائی نظر آتی ہیں۔

اگر آج کا پاکستانی نوجوان کسی کام کا نہیں تو پھر مان لیجیے کہ وہ اپنے بزرگوں کی روایات کا ہی امین ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت ہمارے دانشور مغربی تہذیب کے اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرنے کی پیشین گوئی فرما رہے تھے اس وقت برصغیر کی اپنی تہذیب ترقی کی کون سی عظیم شاہراہ پر گامزن تھی؟

اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیجیے آپ کو عظمت کے بلند میناروں پر براجمان اپنے آبا کی حقیقت اور ”نوجوان نسل کی بے راہ روی“ کی وجوہات کا اندازہ ہو جائے گا۔ سچ یہ ہے کہ ہر دور کی نوجوان نسل اپنے سے پچھلی نسلوں کا پرتو ہوتی ہے۔

اگر آج کا نوجوان اخلاق باختہ ہے تو کیا طوائفوں کے کوٹھوں پر باقاعدگی سے جانے والے نوابوں اور شرفا کے دامن نچوڑنے پر فرشتے وضو کیا کرتے تھے؟
اگر آج کی نوجوان نسل بدعنوان ہے تو پھر بتایا جائے کہ قیام پاکستان کے وقت جائیداد کے جعلی کلیم داخل کرنے والے امانت، دیانت اور صداقت کی کس منزل پر فائز تھے؟

اگر آج کے نوجوان میں حقائق سے کوسوں دور جذباتی نعروں کو پرکھنے کی صلاحیت موجود نہیں تو اسے تنقیدی سوچ سے محروم رکھنے کے بیج کس نسل نے بوئے تھے؟
اگر آپ کو آج کا نوجوان عمل اور جہد مسلسل جیسے اوصاف سے عاری نظر آتا ہے تو اسے نام نہاد عظمت کی جھوٹی تاریخ پر یقین کون دلاتا رہا ہے؟
اگر آج کا طالب علم تحقیق اور جستجو سے دور بھاگتا ہے تو بتائیے کہ اعلی تعلیم کے لیے مختص کتنی درسگاہیں ایسی ہیں جہاں اساتذہ ان اصولوں کی بنیاد پر تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں؟

دنیا میں ترقی کر جانے والے معاشروں میں پچھلے ادوار کی غلطیوں کو تسلیم کرکے ان کے حل کے لیے عملی کوششیں کی جاتی ہیں اور پرانے زمانوں کی جڑوں میں پیوست مسائل کا حل پیش کرنے والے نوجوانوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ اس سے نئی سوچ نئے جذبوں کو حوصلہ ملتا ہے اور قومی زندگی ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہوتی ہے۔

وطن عزیز میں تاہم ایسی کوئی بدعت فروغ نہیں پا سکی لہذا ہماری مجموعی قومی سوچ آج بھی ماضی کے مزاروں میں پڑی سسک رہی ہے۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa