سو دن چور کے اور سو دن پی ٹی آئی حکومت کے ۔۔۔


یقین جانیے سو سنار کی اور ایک لوہار کی والے محاورے کا پاکستان کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ عمران خان سنار ہیں ہی نہیں، سب جانتے ہیں کہ وہ دبنگ ہیں۔ چاہیں تو کچھ بھی کہہ دیتے ہیں ایسا بھی جو کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بعد میں کہے کو درست منوانے کے جواز گھڑتے پھرتے ہیں۔ نہ ہی ہم پاکستان کے کسی اور سیاستدان کو چاہے وہ زرداری ہوں، بلاول ہوں، نواز شریف ہوں یا کوئی بھی لوہار کہہ کر یا لوہار سے مشابہت دے کر اپنے لیے مصیبت مول لینا چاہتے ہیں۔ رہے ہمارے فیورٹ خادم رضوی صاحب تو ہم نے ان کے ہاتھ میں ہتھوڑا دے کر اپنا بھیجا نہیں نکلوانا۔

ایک سرچ انجن ہے گوگل نام کا۔ اس میں انگریزی میں لکھیے ”حکومت کے 100 دن“ تو ماسوائے کیوبا میں 1933 میں کسی 100 روز کی حکومت کے اور تسمانیہ نام کے جزیرے، جو آسٹریلیا کے نزدیک ہے کی لبرل پارٹی کے 100 دن کے پلان کے تحریک انصاف کی حکومت کے 100 روز سے صفحات کے صفحات بھرے ہوئے ہیں جس سے تصدیق ہوتی ہے کہ 100 روز کا درفنطنی نما بکھیڑا میرا، آپ کا یا کسی اور کا گھڑا ہوا نہیں بلکہ خود تحریک انصاف کا گیان ہے جس کے روح رواں عمران خان ہوتے ہیں۔

100 روز میں بالکل نئی حکومت جس کے وزراء ناتجربہ کار ہوں۔ پھر وہ حزب اختلاف کی پارٹی کے طور پر اسمبلی میں مخالفت کرنے کی بجائے سڑکوں پر اور وہ بھی دھرنے کے دوران کنٹینر پر چڑھ کر جذباتی تقریریں کرنے، نعرہ بازی اور دعاوی کے ذریعے مقتدر پارٹی اور مجموعی طور پر سیاسی رہنماؤں کی جھاڑ پٹی کرنے، ذاتی توہین کرنے اور ان کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا مبہم وعدہ کرنے کے خمار میں تاحال مبتلا ہو، بھلا کر بھی کیا سکتی تھی۔ سیاسی پارٹیاں تو ماسوائے مولانا فضل الرحمان و کچھ اور مذہبی سیاسی پارٹیوں کے تحریک انصاف کو اپنی پانچ برس کی مدت تمام کرنے کا موقع دینا چاہتی ہیں۔ عوام ظاہر ہے اپنے طور پر تو شاید احتجاج بھی کرنے کے قابل نہ ہوں اگرچہ مہنگائی نے ان کو اتھل پتھل کرکے رکھا ہوا ہے۔

درست کہ حکومت نے 100 روز بعد اپنی پالیسی کے خدوخال کے تعین کا اعلان کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ سنا ہے ماہ نیم شب 29 نومبر کو قوم سے خطاب میں اس کا ذکر کریں گے۔ مگر مشکل تب ہوگی جب ان پالیسیوں پر عمل درآمد کرنا دشوار ہو جائے گا۔ آپ نے سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر اپنے سٹیٹ بینک میں پارک کروا لیے جس پر آپ کو لامحالہ سود تو دینا ہی ہوگا۔ اگر نہیں تو دستاویز سے واضح کیجیے کہ سعودی عرب سود نہیں لے گا۔

چین تو خیر یونہی کوئی بھی مدد نہیں کرے گا۔ چین جو کچھ بھی کرے گا وہ اپنی مدد آپ کے تحت ہی کرے گا کیونکہ اس کا روڈ اینڈ بیلٹ والا منصوبہ کسی تیسرے ملک کے فائدے کی خاطر نہیں ہے البتہ جہاں جہاں سے اس منصوبے کا گزر ہوگا وہاں وہاں کے ملکوں کو اس کا ضمنی فائدہ ضرور پہنچ سکے گا۔ پاکستان میں چین کے منصوبے کو اگر یکسر ناکام نہیں تو بہت حد تک ڈانوا ڈول اور موخر کرنے کو پاکستان کا ازلی دوست امریکہ اور ازلی دشمن ہندوستان دونوں ہی اپنی سی کرنے سے باز نہیں رہیں گے۔ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا سے جیسی کیسی بھی امداد ملی، ملے یا ملنے کا شعبدہ ہو وہ سب عالمی مالیاتی فنڈ سے مالی امداد لیے جانے کی خاطر ہی ہے۔

مگر ایک ادارہ ایف اے ٹی ایف نام کا بھی ہے جو آپ کو آپ کے مبہم مگر اس ادارے کی نگاہ میں مذموم اعمال کے سبب اپنی ”سرمئی فہرست“ میں ڈالے ہوئے ہے۔ اس کی شرائط میں دہشت گرد تنظیموں کے علاوہ دہشت گردی جو سوچ کی حد تک بھی ہو سکتی ہے، کے حوالے سے مشتبہ تنظیموں اور افراد پر پابندیاں لگانا اور ان کے مالی وسائل کی راہیں یکسر محدود کرنے کے اقدامات لینا ہے، جو پاکستان کی کوئی بھی حکومت بوجوہ لینے سے گریزاں ہے اور لیت و لعل سے کام لینے پر مائل۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں یہ ادارہ آپ کو اپنی ”فہرست سیاہ“ میں ڈال سکتا ہے۔ تب ایف اے ٹی ایف کے پاس دو ہتھیار ہوں گے۔ پہلا یہ کہ دوسرے ملکوں سے پاکستان کو کرنسی کی ترسیل پر انتہائی نگرانی لگا دے یوں ترسیلات مسلسل تاخیر اور بعض اوقات بندش کا شکار ہوں گے۔ علاوہ ازیں وہ عالمی مالیاتی فنڈ کو مشورہ دے سکتا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی مالی امداد کو ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی تکمیل کے ساتھ مشروط کر دے۔

حکومت پاکستان نے اپنی پالیسیوں کے خدوخال واضح کر بھی دیے تو بھی ان پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مالی معاونت ناپید ہوگی۔ ملک کے اندر سے فوری طور پر محصولات کے ذریعے اتنا پیسہ جمع کیا جانا ممکن نہیں ہوگا۔ آمدنی ٹیکس کے دائرے کو جتنی بھی سختی کر لو مہینوں تو کیا سالوں میں بھی وسیع کیا جانا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی ہوگا۔ ترسیلات رک جائیں گی یا بہت سست ہو جائیں گی۔ نام نہاد ”لوٹی ہوئی دولت“ کی واپسی تو محض ایک خواب ہے، اگر تھوڑی بہت ہو بھی سکی تو شاید تب تک اس حکومت کی پانچ سال کی مدت تمام ہو رہی ہوگی۔

جب خواب ٹوٹیں گے، دونوں کے ہی یعنی حکومت کے بھی اور لوگوں کے بھی تو سنار کی پیدا کردہ وہ نیم پخت ”زیبائشیں“ مسمار کرنے کو عوام بطور ہتھوڑا جو بھی ہاتھ میں لینے کے قابل ہوا وہی لوہار ہوگا کیونکہ وہ یہ نعرہ دے گا کہ ”بھٹ پڑے وہ سونا جس سے کان چریں“۔

ایسی جلی کٹی باتیں کرنے کے بعد ہمیں چاہیے کہ ہم حکومت کو کوئی صائب مشورے دیں تاکہ حکومت ہوش کے ناخن لے مگر صاحب یہ حکومت تو ”ون مین شو“ ہے اور ماہ نیم شب کسی کا مشورہ مانتے دکھائی نہیں دیتے۔ اقتدار میں انے کے لیے تو شکر گنج کی چوکھٹ چوم لی تھی مگر اب وہ چوکھٹ چوکھٹ گھوم رہے ہیں پر سن کسی کی نہیں رہے۔ اللہ ماہ نیم شب کو روز روشن میں نظروں سے اوجھل ہونے سے محفوظ رکھے۔ یقین جانیے ہماری ماہ نیم شب سے کوئی ذاتی رنجش نہیں ہے اور ذاتی مفاد تو ہم نے کبھی دیکھا ہی نہیں، ہم اس سچے دعوے کے لیے قسم کھانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).