میاں نوازشریف بھی یوٹرن لے چکے


دس دن پہلے عمران خان نے کالم نگاروں سے ملاقات کے دوران یوٹرن کے حق میں ایسا پالیسی بیان دیا کہ تقریباً ایک ہفتہ ہمارے تجزیہ نگار تحریروں اور ٹی وی ٹاک شوز میں یا تو یوٹرن کی افادیت پر بولتے اور لکھتے ہوئے نظر آئے اور یا پھر یوٹرن کو ایسے مکروہ کام سے تشبیہ دی گئی کہ یوٹرن لینے سے بندہ شیطان کا پیروکار ہو جاتا ہے۔ لیکن عمران خان کے بیان کے بعد اگر بغور جائزہ لیا جائے تو میاں نواز شریف نے سب سے زیادہ اثر لیا ہے اور چند دنوں میں انہوں نے پے درپے یوٹرن لے کر کم از کم عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھی وقتی ضرورتوں کے عین مطابق نہ صرف ڈھل سکتے ہیں بلکہ اپنے دماغ کو بھی استعمال میں لا سکتے ہیں۔

میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز شریف وزیراعظم عمران خان کے ”یوٹرن بیان“ سے پہلے ہی اس پر ”ایمان“ لا چکے تھے کیونکہ دونوں باپ بیٹی جب سے رہا ہوئے ہیں انہیں یہ عقل آگئی ہے کہ مجھے کیوں نکالا والا بیانیہ بے وقت کی راگنی ہے۔ لہٰذا دونوں ہی خاموش ہیں اور دونوں کی زیادہ ترتوجہ نیب کے پاس زیر تفتیش میاں شہباز شریف کا حوصلہ بڑھانے پر ہے۔

میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اقتدار بدری کے بعد جارحانہ رویہ اختیارکیے ہوئے تھے جبکہ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان انہیں اس پُرخطر راستے سے روکنے کی سر توڑ کوشش کرتے رہے۔ لیکن میاں نواز شریف اور مریم نواز پر اقتدار سے دوری کا غم تازہ بھی تھا اور ان کے اعصاب پر سوار بھی تھا۔ اس لئے ان کے اردگرد خوشامدی گروپ ان کا حوصلہ بڑھاتا رہا اور نتیجہ یہ ہوا ہے کہ میاں نواز شریف اپنے داماد اور بیٹی سمیت جیل چلے گئے اور ان کے پیچھے میاں شہباز شریف اور حنیف عباسی کو بھی پہنچا دیا گیا جبکہ خواجہ برادران عدالتی سہاروں کے ذریعے جیل کی دیواروں سے فی الحال محفوظ ہیں۔

مختصر مدت میں حالات واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحریک میاں نواز شریف کی بے سود جدوجہد تھی اور اس حوالے سے چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف کا بیانیہ درست تھا لیکن اب دیر کافی ہو چکی ہے کیونکہ العزیزیہ ریفرنس میں بھی اب عدالتی فیصلہ بالکل قریب ہے اور ماہرین میاں نواز شریف کی بیٹی سمیت دوبارہ جیل جانے کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ لہٰذا تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی صورتحال نے میاں نواز شریف کو بیانیہ بدلنے اور یوٹرن لینے پر مجبور کر دیا ہے۔

میاں نواز شریف اب یوٹرن کا استعمال کرتے ہوئے جیل کی دیواروں سے ٹکرانے سے بچنے کے لئے عدالت سے استدعا کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں جائیدادوں سے متعلق دیے گئے بیان پر انہیں استثنیٰ دیا جائے جبکہ عدالت کے لئے سب سے معتبر بیان ہی پارلیمنٹ کا ہے۔ میاں نواز شریف نے قطری خط پر بھی انتہائی سپیڈی یوٹرن لینے کا مظاہرہ کیا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ان کے وکلاء جس قطری خط کو اہم ترین ”منی ٹریل“ قرار دیتے رہے ہیں۔

میاں نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ میرا اس قطری خط سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ چونکہ میاں نواز شریف جان چکے ہیں کہ قطری خط ایک ”ڈھکوسلہ“ تھا اس لئے ایک اچھے ”قائد“ کے طور پر وہ اس سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ اس لئے میاں نواز شریف نے اب اپنی ”قائدانہ“ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے نقشِ عمران خان پر چلنا شروع کردیا ہے۔

گزشتہ روز احتساب عدالت میں پیشی کے دوران ایک صحافی نے میاں نواز شریف سے سوال بھی کیا کہ کچھ عرصہ پہلے آپ مقدمات کو سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی کی وجہ قرار دیتے رہے ہیں اور ایون فیلڈ ریفرنس میں آپ کی طرف سے اس کا برملا اظہار کیا گیا تھا اور العزیزیہ ریفرنس میں آپ نے اس حوالے سے کوئی بات ہی نہیں کی۔ اس پر میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ وقت اور تھا اور یہ وقت اور ہے۔ حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑتا ہے۔

اس دوران آن لائن کے رپورٹر بشارت راجہ نے ان سے سوال کیا کہ پھر تو یہ یوٹرن ہوا اور عمران خان کی یوٹرن پالیسی درست ہے؟ میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ جو میں نے بیان دیے وہ یوٹرن نہیں البتہ ضرورت کے مطابق ہیں۔ میاں نواز شریف کے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ تیزی سے اپنے بیان میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنے لیڈر ہونے کا اظہار کر رہے ہیں۔

میاں نوازشریف کے ساتھ کام کرنے والے اس تبدیلی کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں نوازشریف کی شخصیت کے دو پہلو ہیں۔ اول یہ کہ جب وہ اقتدار میں نہیں ہوتے تو بہت ہی عاجزی پسند اور ملنسار محسوس ہوتے ہیں لیکن جب انہیں اقتدار ملتا ہے تو ان کے اندر سے ایک نیا نوازشریف نکلتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ان کا اقتدار دائمی ہے اور یہ کہ ان کے اور ان کے خاندان کے علاوہ باقی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ البتہ خوشامد کرنے والوں کو وہ ہمیشہ گلے کے تعویذ کی طرح ساتھ رکھتے ہیں۔

اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ میاں نوازشریف کو اب یقین کامل ہو چکا ہے کہ وہ اقتدار سے باہر آچکے ہیں اور انہیں یہ بھی احساس ہوچکا ہے کہ ماضی میں انہوں نے کچھ عرصہ کے لئے خاموشی اختیار کرکے حالات کا دھارا اپنے حق میں موڑ لیا تھا۔ اسی لئے میاں نوازشریف نے اب چپ کے قانون پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ چُپ کا قانون اٹلی کے سسلی مافیا کے لئے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ سسلین مافیا کے لوگ جب کسی خاص مشن کے لئے کام کرتے تھے تو ”چُپ کے قانون“ پر بہت سختی سے عمل کرتے تھے۔

عدالت عظمیٰ نے جب میاں نوازشریف کے خلاف پانامہ پیپرز بارے فیصلہ سنایا تو انہیں سسلین مافیا سے تشبیہ بھی دی گئی تھی۔ میاں نوازشریف اب کسی بڑی ڈیل کے لئے چُپ کے قانون کا سہارا لے چکے ہیں اور ہر معاملے میں یوٹرن لے کر عقل وشعور کا بھی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر چہ وہ سیاسی طور پر اپنا کافی نقصان کر چکے ہیں لیکن چپ کے قانون پر عمل سے اب وہ تیزی سے ریکوری کرنا چاہتے تھے اور یوٹرن پالیسی کے ذریعے مقتدر حلقوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ ان کی دو سال پہلے والی حکمت عملی ماضی کی طرح ایک نادانی تھی۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ میاں نوازشریف یوٹرن لے چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت اگر ناکام ہوگئی تومیاں نوازشریف کو اپنی یوٹرن پالیسی کے ثمرات ملنا شروع ہوجائیں گے اور اگر پی ٹی آئی کی حکومت کامیاب رہی تو پھرمیاں نوازشریف ہر روز ایک درجن یوٹرن بھی لیتے رہے تو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat