جدید معاشرے میں اقلیت کا تصور اور پاکستان


پاکستان میں گزشتہ تقریباً پانچ دہائیوں سے جہاں ریاستی امور میں مذہبیت کو داخل کرنے کی سعی جاری ہے وہاں تاریخ اور نصاب میں من چاہی تبدیلیاں کرکے بہت سے تصورات اور ان کی اصطلاحوں کی شکل مسخ کرکے اسے وہ معنی پہنانے کی کوشش کی گئی ہے جن سے باہر کی دنیا نہ صرف لاعلم ہے بلکہ جو ممالک یا معاشرے ان تصورات اور ا اصطلاحوں کے بانی سمجھے جاتے ہیں ان کو بھی ان معنوں کی خبر نہیں جو پاکستان میں ایک اکثریت کو سمجھا دیے گئے ہیں۔

اور ان سب کے نتیجے میں بیانیے ترویج دیے گئے ہیں ان کا مقصد چند ایک طبقات کے گروہی مفادات کو مضبوط کرنا نظر آتا ہے۔ ابھی گزشتہ مضمون میں راقم الحروف نے سیکولرازم کے حوالے سے چند گزارشات کی تھیں کہ سیکولرازم کیا ہے اور پاکستان میں اسے کیا بنا دیا گیا ہے۔ آج اقلیت کے موضوع پر چند معروضات سپرد قلم کرنے کی ایک سعی ہے۔

کسی بھی معاشرے میں تمام انسان ایک ہی معیار زندگی اور ذہنی اپچ کے نہیں ہوتے۔ مختلف طبقات میں بٹے ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اور کس طرح ہوتا ہے یہ زیر بحث نہیں ہے۔ لہٰذا صرف اس حقیقت تک ہی محدود رہنا ہے کہ ایسا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح طالبعلموں کی ایک جماعت میں سب طالبعلم ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کچھ زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں بات کو جلد سمجھ جاتے ہیں اور امتحان میں بھی اعلیٰ درجے لے جاتے ہیں۔ کچھ اوسط ذہنیت کے ہوتے ہیں انہیں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔

اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ذہنی صلاحیتیں مدرسے کی پڑھائی میں اوسط درجے سے بھی کم نظر آتی ہیں۔ اب یہ ایک اچھے استاد کا امتحان ہوتا ہے کہ کیا وہ سب طالبعلموں سے انصاف کا سلوک کررہا ہے یا نہیں۔ یہاں برابری کا سوال نہیں رہتا بلکہ کمزور طلباء دیگر طلباء سے زیادہ استاد کی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ لہٰذا استاد کو ان پر زیادہ محنت کرنا مناسب ہوتا ہے۔ ایک جماعت کے امتحان کا نتیجہ بہت حد تک اس کے استاد کی محنت، لگن اور پیشہ ورانہ مہارت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

کچھ یہی صورتحال ایک انسانی معاشرے میں بھی درپیش ہوتی ہے۔ کچھ طبقات یا خاندان اپنی مختلف النوع صلاحیتوں کی بنیاد پر معاشرے میں دیگر انسانوں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ طبقات پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک طبقہ اپنی بعض مشترکہ خصوصیات کی بناء پر دیگر معاشرے سے کچھ انفرادیت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ انفرادیت کبھی اس کی ترقی کا باعث بھی بن جاتی ہے مگر کبھی معاشرے کے دیگر طبقوں کے مقابلے میں کبھی اجتماعتی تنزلی کا باعث بھی بن جاتی ہے۔

اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مگر ایسے طبقات میں جو مشترکہ خصوصیات ہوتی ہے وہ اس طبقے کی مخصوص ثقافت، رہن سہن، قومیت، مذہب وغیرہ ہوسکتی ہیں جو اسے معاشرے کی دیگر اکثریت سے ممیز کرتی ہیں۔ ایسے طبقات کو عرف عام میں اقلیت قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور اسے اقلیت قرار دینے کا مقصد اسے مزید زوال کا شکار کرنا ہرگز نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ کسی گروہ یا طبقے کو اقلیت قرار دینے کا صرف ایک ہی مقصد ہوا کرتا ہے کہ اس طبقے کو دیگر معاشرے کی اکثریت سے بڑھ کر کچھ مراعات اور آسانیاں دی جاسکیں۔

کیونکہ کسی بھی معاشرے میں ریاست اگر کسی ایک طبقے کو باقیوں کو سے زیادہ مراعات اور سہولیات دینا شروع کردے تو اسے دیگر طبقوں کے لئے ریاستی بے انصافی کہا جاتا ہے۔ ایسے میں جب ایک طبقہ جب دیگر سے اجتماعی رنگ میں پیچھے رہ جائے توکبھی وہ طبقہ خود ریاست سے درخواست کرتا ہے کہ اسے اقلیت قرار دیا جائے یا ریاست خود اس طبقے کی فلاح و بہبود کے لئے اسے اقلیت قرار دیتی ہے اور یوں دیگر اکثریتی معاشرے کے مقابلے میں آئینی طور ہر جائز رنگ میں ریاست کے خصوصی سلوک کا مستحق قرار پاتا ہے۔

اور یہ سب کچھ ریاستی بندوبست میں بالکل جائز ہوتا ہے۔ کیونکہ ریاست کے بنیادی مقاصد میں اپنے شہریوں کی انفرادی اور اجتماعی فلاح و بہبود ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک غبی اور کمزور طالبعلم اپنے استاد کی طرف سے اس خصوصی سلوک اور توجہ کا حقدار ہوتا ہے جو دیگر ہوشیار طالبعلم نہیں ہوا کرتے۔ اور اسے برابری تو نہیں کہہ سکتے مگر حقیقی انصاف یہی ہے۔ ایک فلاحی ریاست کے جدید تصور میں کسی ریاست میں اقلیتوں کا وجود کچھ اچھی روایت نہیں ہوتی۔

کیونکہ کسی معاشرے اور ریاست میں کسی طبقے کو دیگر معاشرے سے پیچھے رہ جانا ایک رنگ میں ریاست کی ناکامی بھی ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح طالبعلموں کی ایک جماعت کا نتیجہ اگر برا آئے تو اس میں بہت حد تک ذمہ داری استاد پر بھی عائد ہوتی ہے۔ تاہم کسی معاشرے میں اقلیتوں کے وجود کے بعض دیگر عوامل بھی ذمہ دار ہوا کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ کسی طبقے کا دیگر طبقات سے معاشرتی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا بہت حد تک اس طبقے کی اپنی نالائقی اور کمزوری بھی ہوا کرتا ہے۔

لیکن اس کا یہ طرز عمل ریاست کو اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں کرتا۔ اقلیت کی تعریف کیا ہے یہ تو عمرانیات کے مضمون میں کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے جسے سمجھنا یا سمجھانا مشکل ہو۔ لیکن راقم الحروف مناسب سمجھتا ہے کہ اقلیت کا تصور قائد اعظم محمد علی جناح کی بیان کردہ تعریف کے مطابق واضح کیا جائے۔ قائد اعظم نے اپنی ایک تقریر جو آپ نے 7 فروری 1935 کو مرکزی اسمبلی میں کی اس میں اقلیت کی اصطلاح پر کچھ روشنی ڈالی۔ اصل متن انگریزی میں ہے جسے اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

”یہ اقلیتوں سے متعلق سوال ہے اور یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اقلیتیں کیا ہیں؟ اقلیتوں سے مراد عوامل کا مجموعہ لیا جاسکتاہے۔ ایسابھی ہوسکتا ہے کہ ایک اقلیت کا مذہب اس ملک کے دیگر شہریوں سے مختلف ہو، ان کی زبان بھی مختلف ہوسکتی ہے، ان کی نسل بھی مختلف ہوسکتی ہے اور ان کی ثقافت بھی مختلف ہوسکتی ہے۔ جبکہ ان تمام عوامل یعنی مذہب، ثقافت، نسل، زبان، فنون لطیفہ، موسیقی اور مزید اسی طرح دیگر عوامل کا مجموعہ کسی طبقے کو ریاست میں ایک علیحدہ حیثیت قرار دے سکتا ہے۔ اور پھر یہ علیحدہ حیثیت اپنے حقوق کا تحفظ چاہتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اس سوال کا ایک سیاسی مسئلے کی حیثیت سے سامنا کرنا چاہیے نہ کہ اس سے راہ فرار اختیار کی جائے۔ “

بانی پاکستان کی اس تعریف سے ہمیں چند ایک امور واضح کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یعنی اقلیت کی اصطلاح خالصتاً ایک سیاسی اور معاشرتی معاملہ ہے اور اس کا کسی مذہب سے تعلق تو ہوسکتا ہے مگر محض مذہب میں اختلاف کی بنیاد پر کسی کے اقلیت یا اکثریت میں ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ بھی ایک اہم پہلو ہے کہ اگر کسی طبقے کو مذہب کی بنیاد پر اقلیت قرار دے دیا جائے تو یہ محض ایک معاشرتی اور سیاسی مسئلہ ہے اس کا کسی مذہب کی حقانیت یا کسی بھی مذہب کے دینی پہلو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یعنی اگر کسی معاشرے میں الف طبقے کو اس کے مذہب کی وجہ سے اقلیت قرار دے دیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جاسکتا کہ اسے اقلیت قرار دینے سے کسی دیگر مذہب کی فکری برتری ثابت ہوگئی ہے یا کسی اقلیت کے مذہب کا فکری بطلان ثابت ہوگیا ہے۔ کیونکہ کسی کو اقلیت یا اکثریت قرار دینا محض ایک سیاسی بندوبست ہے اس کا مذہب کی دینی یا فکری حیثیت سے دور کا بھی تعلق نہ ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہمسایہ بھارت میں مسلمان اپنے آپ کو اقلیت قرار دلوانا چاہتے ہیں اور بھارت کی ریاست کو سیکولر ریاست قائم رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے حقوق کا دیگر اکثریت کے مقابلے میں زیادہ بہتر رنگ میں تحفظ کیا جائے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2