حفیظ کھوسہ، سیکریڑی سیکنڈری ایجوکیشن بلوچستان سے مخاطب ہیں


احساس محرومی میں گھرے ہوئے بلوچستان نے، یہاں سمندر کے ساتھ سرکاری ماسٹر کو بھی محرومیوں میں لپیٹ دیا ہے۔ استاد سمجھتا ہے کہ یہ طویل محرومی اس کے بروقت سرکاری سکول جانے سے ختم نہیں ہوگی، وہ سکول میں رہے یا نہ رہے، سکول اور صوبے کی حالت بدلنے والی نہیں ہے۔ پنجاب نے اس کو ان پڑھ رکھا ہے وہ مٹی کا فرزند ہے، اتنا تو حق بنتا ہے کہ وہ سکول سے غیر حاضر ہو۔ وہ کون سی تنخواہ پنجاب سے لیتا ہے۔ تنخواہ اور وزیر دونوں بلوچستانی ہیں۔ وہ پنجاب سے بدلہ اپنے سکول میں غیر حاضری کی صورت میں لینے پر تلا ہوا ہے۔

صوبائی درالحکومت کوئٹہ۔ جہاں سرکاری سکولوں کے طالب علموں کی آنکھیں اپنی کلاس میں استاد کی راہ تکتے تکتے پتھرا گئیں۔ جہاں وزیراعلی، چیف سکریٹری، وزیر تعلیم، سکریٹری تعلیم و دیگر اشرافیہ مقیم ہیں، تو پھر آوارن، ڈیرہ بگٹی یا کوہلو یا دیگر دور دراز علاقوں میں مکمل حاضری ایسے ہے، جس طرح جاگتی آنکھوں کا خواب دیکھنا۔ مجال ہے کہ استاد ان کو سکول میں اپنا دیدار کروائے۔ یہاں بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان میں عام استاد کس قدر طاقتور ہے کہ ضلع کوہلو میں تعینات ایک ٹیچر جو کہ ایک صوبائی وزیر کا داماد ہے، کی حفاظت پر 8 لیویز اہلکار مامور ہیں۔

یعنی بلوچستان میں تعلیم جیسا پیغمری پیشہ اساتذہ کرام کی من مانیوں کا شکار ہے۔ محکمہ سیکنڈری ایجوکیشن نے صوبے میں رئیل ٹائم سکول مانیٹرنگ سسٹم ورلڈ بینک و یونیسف کی مدد سے متعارف کروایا جس کا مقصد جدید آلات سے اساتذہ کی حاضری و طلبا اور اسکول کی تعداد معلوم کرنا تھا۔ غیرملکی خیراتی اداروں کی مدد سے بننے والے سسٹم کی تنصیب کے بعد عام بلوچستانی کو جب اس کی افادیت معلوم ہوئی تو خوشی سے پھولے نہ سمایا، کہ اب تو استاد کہیں بھی چھپ نہیں سکتا۔ اس کو مجبورا سکول میں آنا پڑے گا۔ لیکن صوبائی حکومتوں کی نا اہلی کی وجہ سے اس پر عمل درآمد کرنا تاحال مکمن نہ ہوسکا۔ اگر ہم تعلیم جیسے اہم شعبے کی طرف اس طرح بے توجہی برتیں گے تو اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا۔ دوسری جانب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر نصیر آباد حفیظ اللہ کھوسو کو دیکھیں کہ تعلیمی اصلاحات چاہتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہر استاد سکول میں ہو، کیونکہ یہ انصاف کا تقاضا ہے۔ با اثر ٹیچر نہیں آتے ہیں تو سکول کس طرح چلیں گے۔

وہ سیکرٹری سیکنڈری ایجوکیشن بلوچستان کو تحریری طور پر مخاطب کرتے ہیں کہ جناب سیکرٹری صاحب میری اور رئیل ٹائم سکول مانیٹرنگ سسٹم کی ٹیم کی رہنمائی فرمائیں۔ آرٹی ایس ایم ٹیم کی رپورٹ کے مطابق دو ملازمین محمد نواز جتک اور منصب علی کا ڈیٹا ایجوکیشن منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم ( EMIS) میں تو دستیاب ہے لیکن حاضری مدرسین رجسٹر میں ان کا نام نہیں ہے۔ یعنی وہ طویل عرصے سے غیر حاضر ہیں۔ محمد نواز جتک صوبائی صدر گورنمنٹ ٹیچر ایسوسی ایشن بلوچستان ہیں، وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس طرح اور بھی کافی کیسز ہیں جن کا نام رجسٹر میں نہیں مگر تنخواہیں لے رہے ہیں۔ ہم ان پر ایکشن لے رہے ہیں۔ اگر ہم ان کے خلاف ایکشن نہ لیں، ایک لاوارث استاد کا پتہ معلوم نہ کرسکیں تو یہ بات عدل و انصاف کے منافی ہوگی۔ اساتذہ یونین کا یہ مطلب نہیں کہ ملازمین ڈیوٹی سے غیر حاضر گھر بیٹھ کر تنخواہیں لیں۔ پہلے وہ ڈیوٹی کریں اس کے بعد یونین بازی۔ ہم اس معاملے پر کیا ایکشن لیں۔ امید ہے آنجناب ضرور رہنمائی فرمائیں گے۔

دبے الفاظ میں ایجوکیشن افسر نصیر آباد نے جس مردانگی سے کلمہ حق بیان کیا، خدا کریے کہ یہ طریقہ بلوچستان کے دیگر اضلاع کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر ز بھی شروع کریں۔ اب جب بلوچستان ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر غیر حاضر ہیں۔ جس نے صوبے میں تعلیم کے فروغ میں حکومت کے ساتھ مل کر اساتذہ کو ڈیوٹی پر پابند کرنا ہے۔ وہ خود غیر حاضر ہے تو عام استاد سے گلہ کیا؟ جس کا صدرہی غائب ہے۔

بلوچستان میں بہت سارے حکمران آئے اور گئے، جنہوں نے شعبہ تعلیم میں ایمرجنسیاں نافذ کیں، اور بلند و بانگ دعوے کیے۔ لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ موجودہ صوبائی حکومت کو اس ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر کے خط نے امتحان میں ڈال دیا ہے کہ اس طرح کے اساتذہ کی تنظیموں اور ان کے منظور نظر افراد کی ڈیوٹیاں کہاں پر ہیں۔ محکمہ تعلیم پر اگر موجودہ صوبائی حکومت نے درحقیقت کام کرنا ہے تو وزیراعلیٰ کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان صاحب، باقی اصلاحات تو اپنی جگہ، آپ صرف ٹیچرز کی حاضری کو یقینی بنادیں۔

رئیل ٹائم سکول مانیٹرنگ سسٹم جو کہ ورلڈ بینک اور یونیسیف کے تعاون سے بلوچستان میں نصب کرایا گیا ہے اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے اساتذہ کو اس کی رپورٹوں کی بنیاد پر پابند کرلیں تو عام بلوچستانی سمجھے گا کہ گڈ گورنننس کی طرف بڑھنے کا صوبائی حکومت ارادہ رکھتی ہے۔ کیونکہ کچھ عرصہ قبل سیکرٹری سیکنڈری ایجوکیشن اساتذہ تنظیم کے ساتھ ایک اجلاس کر چکے ہیں جس کے منٹس آف میٹنگ انہوں نے اپنے دستخطوں سے جاری کیے، جس سے یہ معلوم ہوا کہ محکمہ تعلیم بلوچستان طلباء و تعلیم کے لیے نہیں، بلکہ اساتذہ کے لیے ہے۔ اور سیکرٹری تعلیم کے پر اس تنظیم سے جلتے ہیں۔ کیا چیف سیکرٹری اور وزیراعلیٰ کے پر بھی اس تنظیم سے جلتے ہیں یا پھر ان کے پاس قوت فیصلہ نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).