رقی ، فلم نائک اور زومبی


ہم بھی کبھی بچے تھے اور بچکانہ چیزیں ہمیں بھی اچھی لگتی تھیں۔ انسان کی زندگی میں ٹین ایج خوابوں کی دنیا ہوتی ہے، ہمارے ٹین ایج میں بھارتی فلم نائک ریلیز ہوئی تھی۔ ایک ٹی وی چینل کا ملازم ایک وزیر اعلیٰ کا انٹرویو کرتا ہے اور پھر اس سے سوالات کی بوچھاڑ میں ایک ایسا مقام آ جاتا ہے کہ جب خود وزیر اعلیٰ اسے کہتا ہے کہ تم ایک دن کے لئے وزیر اعلیٰ بن کر خود سنبھال کر دیکھو صوبے کو۔ تنقید کرنا کتنا آسان ہے اور کام کرنا کتنا مشکل۔

پھر حالات کی چرخی اس رپورٹر کو صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا دیتی ہے اور ایک دن کے وزیر اعلیٰ صاحب صوبے کو سمجھ لیجیے کہ نیویارک ہی بنا دیتے ہیں، تالیاں! اس کہانی میں ایک ظالم ولن (جو سابقہ وزیر اعلیٰ تھا) وہ رپورٹر صاحب کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے مگر وہ کامیاب نہیں ہوتا۔ پھر رپورٹر صاحب کی اپنی محبت بھی اس حق اور انصاف کی جنگ میں بڑی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ بعد میں یہ کہانی ان گنت فلموں میں دہرائی گئی۔

جنوبی ہند کی ہر فلم کا فارمولا تو تقریباً ہے ہی یہی۔ بس ایک مسیحا آتا ہے، بدعنوانی کا خاتمہ کرتا ہے، غربت کو مٹا دیتا ہے او ترقی کا سونامی لے آتا ہے۔ ان تمام کہانیوں میں ہر ہر ظلم، جبر، زیادتی کی نوعیت صرف و محض سماجی ہوتی ہے۔ جو برا ہے وہ اس لئے برا ہے کہ اسے پیسے کا لالچ ہے، سب غریب اس لئے ہیں کہ کچھ لوگ امیر ہیں، کچھ لوگ امیر اس لئے ہیں کہ وہ بدعنوان ہیں، وہ لوگ بدعنوان اس لئے ہیں کہ وہ ”سماج“ میں سب سے اونچے ہو جانا چاہتے ہیں۔ یہ دراصل ایک طرف روسو کی بنائی ہوئی کائنات کی تصویر ہے، دوسری جانب مارکس اور واٹس کی۔ یہ سارے ہی مفکرین انسان کا یک رخا اور پست تصور رکھتے تھے۔ ان کا انسان دراصل تجربہ گاہ کا مینڈک یا پہیے میں گھومنے والے چوہے کے علاوہ کچھ نہیں۔

مارکس سمجھتا تھا کہ انسان کی خوشی معاشی ترقی اور دولت کی مساوی تقسیم میں ہے۔ مارکس کے نظریات پر قائم ممالک کو ڈوبے بھی ربع صدی گزر گئی۔ نائک کے ہیرو نے ممبئی کو نیویارک بنایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر نیویارک وہ پا چکا ہے جو سب سے ارفع شے ہے (یعنی ترقی کی معراج) تو وہاں کے انسانوں کے تمام دکھ درد مٹ گئے کیا؟ کیا ٹورانٹو، وینکوور، بیجنگ، سڈنی، برلن، پیرس، زیورخ، ٹوکیو، ماسکو، اوسلو۔ الغرض کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ترقی یافتہ ترین شہر کے باسیوں کے تمام دکھ درد، رنج و تکالیف مٹ گئیں؟

چلئے سوال کو اور صاف کر لیتے ہیں، کیا انسان کے سارے دکھ ترقی سے مٹ جاتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو رئیسوں کی آبادیوں کو خوشیوں کا گہوارا ہونا چاہیے۔ پھر کسی رئیس کو خودکشی تو کبھی کرنی ہی نہیں چاہیے، مگر انسانی نفسیات کا مطالعہ تو کچھ اور ہی بتاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی شے کی فراوانی اس کی قدر انسان کے دل سے مٹا دیتی ہے۔ جب ہفتے مہینے پر بریانی کھانے کو ملے تو وہ بے حد لذیذ معلوم ہوتی ہے مگر اگر روز سو طرح کے قیمتی کھانے کسی کے سامنے سجا دیجئے تو وہ کسی بھی کھانے میں کوئی بھی ذائقہ محسوس کرنے کے ہی ناقابل ہو جاتا ہے۔

اب اسے کچھ بہت ہی نیا چاہیے مزہ پانے کے لیے۔ یہ جو مغرب میں ہر نوع کی جنسی اختراعات اور ایگزاٹک غذاؤں کی دوڑ ہے (جس میں کیڑے اور مردار کھانا سرفہرست ہے ) یہ سب اسی فراوانی کی ذیلی مصنوعات (بائی پراڈکٹس) ہیں اور یہ جو نت نئے پاگل پن، یہ جو طرح طرح کے خبط ہر روز لوگوں میں جنم لے رہے ہیں، یہ بھی اسی کی صورتیں ہیں۔

ترقی ترقی کرنے والے ہمیں کبھی اپنے جوش و جذبات میں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ آخر یہ ترقی ہے کس سمت میں؟ اس سے بالآخر نوع انسان کو حاصل کیا ہو جائے گا؟ ٹیکنالوجی کی عبادت کرنے والے، سائنس کو کسی نوع کا یونانی دیوتا سمجھنے والے کبھی یہ نہیں بتا پاتے کہ وہ آخر سائنس، ٹیکنالوجی سے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کیا سائنس کی ترقی سے انسان کبھی لافانی بن جائے گا؟ کیا انسان موت کو ہرا دے گا؟ انسان کر کیا لے گا بھلا؟

ان سوالوں کا معصومانہ سا جواب یہ آتا ہے کہ انسان اپنی زندگی کو سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے آسان بنا رہا ہے، اچھا جی؟ واقعی؟ بڑی بڑی مشینوں نے ہزاروں لاکھوں انسانوں کے بیروزگار کر دیا، ایوب خان صاحب نے جب ٹریکٹرائزیشن کی پالیسی اختیار کی تو جاگیرداروں نے ٹریکٹر خرید لئے، اب جو کام 20 لوگ کرتے تھے، وہ کام ایک مشین کرنے لگی، ان ہزاروں لاکھوں بے روزگاروں نے شہروں کا رخ کیا، مگر دن بدن شہروں میں بھی کام محدود ہونے لگے۔

خود ترقی یافتہ مغرب ایک خوفناک بحران کے دہانے پر کھڑا ہے، انسانوں کی جمیع اکثریت کو ٹیکنالوجی نے بے روزگار کر دیا ہے۔ اب تو ڈرائیور لیس بھی آ رہی ہیں۔ یعنی ڈرائیور بھی فارغ۔ پھر ان صنعتوں اور مشینوں سے ظاہر ہونے والے زہریلے مواد اور خوفناک شعاعیں ہیں، برف پوش علاقوں میں انسان کے گرم گھروں اور فیکٹریوں نے گلیشیر پگھلا دیے ہیں، اوزون کی سطح کو انسانوں کے کارناموں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے، خود انسان اپنے ان کھلونوں سے برآمد شعاعوں سے سے سرطان سے مر رہے ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ انسانوں کے پاس ایٹم بم، ہائیڈروجن بم اور نہ جانے کون کون سے ہتھیار موجود ہیں۔ پھر تضادات اور تناؤ ہے کہ ملکوں اور انسانوں کے بیچ اس ترقی کے عہد میں کئی ہزار گنا بڑھ گئے ہیں۔ امکانی طور پر کسی سہانی صبح کسی نہ کسی قسم کے تضاد یا تناؤ کے باعث انسان ایٹم یا ہائیڈروجن بم چلا بھی دے گا اور یوں یہ ترقی کی دوڑ اپنے منطقی انجام پر پہنچ جائے گی۔

مگر یہ باتیں ترقی کے پجاریوں کو بڑی بری لگتی ہیں، اس لئے کہ ترقی آج کل صرف ایک منتر نہیں، ایک مذہب، ایک عقیدے کا درجہ حاصل کر چکی ہے، یہ وہی کیفیت ہے جو مغربی فلموں میں انسانوں کے زومبی بن جانے کی وباء میں دکھائی جاتی ہے۔ ترقی کی دوڑ میں زومبی کو یاد بھی نہیں کہ وہ کبھی انسان بھی تھے۔ یہ بھی یاد نہیں کہ وہ کولہو کے بیل نہیں ہیں۔ یہ بھی یاد نہیں کہ آخر وہ ترقی حاصل کر کے کرنا کیا چاہتے ہیں؟ کچھ بھی یاد نہیں۔ زومبی سے اور کسی چیز کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).