ریاست اگر چاہے تو


سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہی کھاتے

کیسا دلفریب جھانسا ہے جو اشرافیہ سات دہائیوں سے مفلوک الحال لوگوں کو دیے ہوئے ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ سڑک کنارے سونے والے لوگ بے گھر ہوں، بلکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو جھوٹے شہروں اور دیہاتوں سے اس آس پر نکلے تھے کہ بوڑھے والدین کی آنکھوں کا نور، اور معصوم بچوں کی آشائیں لے کر لوٹیں گے۔ کسی نے بہن کا جہیز جوڑنے کا ذمہ لیا تو کوئی ماں کے گروی رکھے گہنوں کی ضمانت کروانے نکلا ہے۔ ذمہ داریوں کے احساس نے کرائے کے مکان تک لینے سے باز رکھا اور گاؤں کے الہڑ جوان، جن کے بانکپن سے ہوائیں اٹھکلیاں کرتی تھیں، بڑے بڑے شہروں کی تنگدلی ان کو سایہ تک فراہم کرنے سے قاصر رہی۔

ہوسکتا ہے عام لوگ اس بات کو لے کر کنارا کش رہتے ہوں کہ کیا خبر کون کہاں سے آیا ہے، لیکن ریاست تو سب جانتی ہے۔ ماں ہونے کی دعوے دار ریاست نے کیوں اپنی آغوش کو ان معصوموں سے سکیڑ رکھا؟ اگر یہ سوچیں کہ یہ سب انجانے میں ہوگیا تو نادانی ہوگی۔ ہاں وہی نادانی جس کے باعث اس ملک کو ستر برسوں سے گدھ نوچ رہے ہیں۔ وہی نادانی جو ہمیں خودساختہ غلامی کی زنجیروں کوتوڑنے نہی دیتی، وہی نادانی جس کا بھٹو آج بھی زندہ ہے، اور وہی نادانی جس پر کاربند رہتے ہوئے ہم فخر سے کہتے ہیں کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔

چہار سو ایسے ایسے بزرجمہر بیٹھے ہیں کہ قوم کو فلسفیانہ جھمیلوں میں پھنسا کر ایسا مدہوش کرڈالا کہ حق مانگنا بے صبری نظر آنے لگا۔ صبر صبر صبر، بس صبر ہی ہے زمین ہر رینگنے والوں کے لیے کہ شکر بلاولوں اور شریفوں کے حصے میں آگیا۔ روٹی کپڑا اور مکان کے خوش نما دلفریب سے بارہا لبھایا جاتا رہا، لیکن ہر بار سیاسی کھوکھلا سیاسی نعرہ ہی ثابت ہوا۔

ہر طرف سے مایوس لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن عمران خان کی شکل میں نظر آئی کہ یہی جس نے اپنے بچوں کا کاروبار نہی جمانا۔ اب دیکھنا یہ کہ کس حد تک لوگوں کے دکھوں کا مداوا ہوسکے گا۔ ابھی تک کی کاوشیں حوصلہ افزاء ہیں کہ تھر کے بلکتے معصوم لوگوں کی طرف توجہ کی گئی جو اگرچہ ناکافی ہے لیکن بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ اور کیوں نا کی جائے کہ پہلی بار اس ملک کے بے گھر فٹ پاتھیوں کو سونے کے لیے بستر مہیا کیے گئے ہیں۔

پہلی بار ریاست نے ماں بن کر اپنے بچوں کے لیے ممتا کی نرم آغوش کو وا کیا ہے۔ پہلی بار غریب الوطنوں کو معیاری خوراک میسر آئی ہے۔ حکومت نے لاہور شہر میں قیام گاہیں قائم کرکے گھٹن زدہ ماحول کو ایک تازہ ہوا کا جھونکا مہیا کیا کہ آنے والے دنوں میں وسائل کا رخ طاقتور لوگوں سے موڑ کر سچے پاکستانیوں کی طرف موڑا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک و قوم سے وفاداری کو خود غرضی و لالچ پر فوقیت دی۔ وگرنہ کیا وجوہات ہوسکتی ہیں کہ اس دور میں جب ظلم و استبداد اور جرائم کو منظم طریقوں سے کیا جارہا ہو، یہ لوگ امن کی آشا کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

کراچی کی مثال سامنے ہے کہ اس شہر میں ایسے ہی لوگوں کو طاقت کے لیے استعمال کیا گیا۔ ریاست جب اپنے شہریوں کو قبول نہ کرے تو غیر ریاستی عناصر ان کو اپنی چھتری تلے اکٹھا کرلیتے ہیں۔ ایسے ہی بے یارومددگار لوگ گھناؤنے عزائم کی تکمیل کا ایندھن بنتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ممتاز ”کے ٹو“، صولت مرزے اور عزیر بلوچ بن کر شہر کی تاریکیوں پر حکومت کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے اس احسن اقدام کی ستائش اور اس کی کامیابی کے لیے راہیں ہموار کرنا ذمہ دار شہریوں کا فرض ہے، کہ غیر ذمہ دار عناصر کی اور بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ انہوں نے زر داتاؤں کی نمک حلالی کا بیڑہ اٹھایا ہے تو انہیں یہی کام کرنے دیا جائے۔

گذشتہ حکمرانوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی کہ پسا ہوا طبقہ بغاوت پر اتر آئے اور انقلاب فرانس کی یاد تازہ کردے۔ وہاں بھی طعنہ گھاس پھونس کھانے کا ملا تھا اور خیر سے ہمارے بھی ایک خودنما ارسطو نے برملا کہا تھا کہ جو گوشت نہی کھا سکتے وہ دال سبزی کھائیں کہ اہل حکم تو دنیا بھر میں پاکستانی نژاد شریفوں کی ایمپائر کھڑی کرنے میں مگن ہیں۔ بھاگ دھنی کے کہ نہ تو یہاں وہ سماجی شعور کہ انقلاب آجائے اور نہ لوگوں کہ پاس اتنا وقت، اور ہوتا بھی کیسے کہ ستر سال اسی پر تو محنت کی ہے قوم کے معماروں نے۔

ان کی صلاحیتوں پر شک نہی کیا جاسکتا، کیونکہ جب جب جس جس جا جی چاہا اپنی منشا کے مطابق ٹرک کی بتی کے پیچھے خوب لگائے رکھا عوام کو۔ چلو خیر، جو ہوا سو ہوا، اب آگے کی خیر مانگتے ہیں کہ نئے پاکستان کی نئی حکومت اپنے اس فلاحی ریاست کے منصوبے کو تھر اور بلوچستان کے پسماندہ ترین اضلاع تک پھیلائے گی۔ بلاشبہ یہ ایسا کرسکتے ہیں کہ ان کو مینڈیٹ ہی ایسا کرنے کا ملا ہے۔ اب حالات بھی کچھ ایسے ہیں کہ حکمرانوں کو کچھ بہتر کرنا پڑے گا۔ اسی میں سب کی بقا ہے وگرنہ بدحالی دیدے پھاڑ کے تک رہی ہے۔ بس مدعا یہی ہے کہ

کوئی تدبیر کرو قافلہ پالے منزل
اب تو آشفتہ سری بھی لب بام آئی ہے (عمر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).