قسمت میں میری چین سے جینا لکھ دے!


\"ajmalقوالی کی تاریخ سات سو برس پرانی ہے جسے حضرت معین الدین چشتیؒ غریب نوازنے برصغیر میں متعارف کرایا۔ ان کا مسحور کن انداز بیاں یہاں کے باسیوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ خواجہ معین الدین چشتی کے بعد حضرت امیر خسرو نے قوالی میں جدت پیدا کی اور مقامی راگوں کو نئے نام دئیے۔ قول کو بار بار دہرانے والے کو قوال کہا جاتا ہے۔ خواجہ صاحب کے مریدین نے اس سلسلے کو جاری رکھا اور کلاسیکی موسیقی کی طرح قوالی میں بھی نامور گھرانے ہوئے جنہوں نے فن قوالی کی ترویج و ترقی کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔ ان میں دین محمد خان قوال، راج علی خان، بھاگ علی خان قوال، استاد مبارک علی خان، استاد فتح علی خان، خلق داد خان، اور دیگر شامل ہیں۔ لیکن اگر یوں کہا جائے کہ پاکستان میں نصرت فتح علی خان، صابری برادران اور عزیز میاں قوال ہی وہ نام ہیں جنہوں نے قوالی کو اس قدر توانا کیا کہ دنیا بھر میں یہ فن مقبول ہوا تو غلط نہ ہوگا۔ سن پینسٹھ میں دو بھائیوں کی جوڑی نے ایک قوالی گائی اور اسے امر کر دیا؛ یہ قوالی فلم \’عشقِ حبیب\’ کے ٹائٹل کے طور پر بھی استعمال ہوئی۔ قوالی کے بول تھے:

میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا

میں بن کے سوالی آیا ہوں

مجھے نظر کرم کی بھیک ملے

اس قوالی کی خاص بات یہ تھی کہ قوالوں نے رائج طرزِ قوالی سے انحراف کرتے ہوئے یکسر ایک نیا اور منفرد انداز اختیار کیا جو بعد میں ان کی پہچان بن گیا۔ یہ قوال تھے غلام فرید صابری اور مقبول صابری۔ صابری برادران کا تعلق بھارتی پنجاب کے ضلع روہتک کے گاؤں کلیانہ سے تھا۔ بڑے بھائی حاجی غلام فرید اپنی گرجدار آواز اور لمبی زلفوں اور چھوٹے بھائی مقبول صابری اپنی نسبتاً باریک آواز سے پہچانے جاتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد فرید صابری کا خاندان ہجرت کر کے کراچی آباد ہوا، جہاں ابتدائی ایام کسمپرسی میں گزرے۔ یہ دونوں بھائی اینٹیں ڈھونے کی مزدوری کرتے تھے، کچھ عرصہ استاد کلن خان کی قوال پارٹی کے ساتھ قوالیاں گائیں ۔انہوں نے لیاقت آباد چار نمبر کے علاقے میں رہائش اختیار کی اور تاحیات وہیں مقیم رہے۔ \’میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا کے بعد\’ ان کی گائی ہوئی قوالیوں \’تاجدار حرم \’ اور \’بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ\’ نے گویا مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ ان قوالیوں میں ایسی خاص تاثیر ہے کہ سننے والےآج بھی وجدانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہر چاہنے والے کے دل کی آواز ہوں۔ جذب و مستی کے عالم میں عشاق کی آنکھیں جب یہ قوالیاں سنتے تر ہوتی ہیں تو صوفیا فرماتے ہیں یہ قبولیت کی نشانی ہے۔

غلام فرید صابری 1994 میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے، جبکہ مقبول صابری دو ہزار گیارہ میں چل بسے۔ دونوں بھائی کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں مدفون ہیں۔ لیاقت آباد میں ایک انڈر پاس غلام فرید صابری کے نام سے موسوم ہے۔ اسی لیاقت آباد میں شریف آباد پل کے قریب غلام فرید صابری کے بیٹے مقبول صابری کے بھتیجے اور صابری خاندان کے آخری مشعل بردار امجد فرید صابری کو بدھ کے روز پانچ گولیاں مار دی گئیں۔ اندازہ کیجئے کہ ایک فنکار یا آرٹسٹ بننے میں کتنی دہائیاں درکار ہوتی ہیں اور اسے جنونیت کی بھینٹ چڑھانا فقط چند لمحوں کا کام۔ یہ کوئی عام قوال نہیں تھا، نہ ہی کوئی عام انسان تھا۔ یہ صابری قوالی کی واحد نمائندہ آواز تھا، ایسی آواز جسے صابری برادران نے انتہائی کم عمری سے پختہ کیا۔ امجد خود کہتے تھے کہ والد صاحب ہمیں صبح چار بجے بستر سے اٹھا دیا کرتے۔ وضو کے بعد تہجد اور اس کے بعد ہارمونیم پر راگ بھیروں کا ریاض کروایا جاتا تھا۔ یعنی:

اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی

ہاتھ گھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے

(عباس تابش)

1994 میں والد کے انتقال پر قوال پارٹی کی قیادت سنبھالی اور پھر کمال محنت اور لگن سے والد اور چچا کے فن کو دنیا بھر میں دوام بخشا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اس فن میں کئی جدتیں متعارف کروائیں۔ بڑوں کا کلام گایا، ایسا گایا کہ روایت پسندی کے ساتھ جدت بھی نمایاں دکھائی دی۔ جب بھی کوئی کلام پڑھتے سوز و گداز واضح محسوس ہوتا جس کا اثر سننے والوں پر یک لخت ہوتا۔ نہیں معلوم کہ صابری خاندان، صوفیا کی پہچان، پاکستان کی شان اور ملنسار انسان امجد صابری قوال کو مارنے والوں کو اس بہیمانہ قتل سے کیا ملا؟ ارے بد بختو! قوالی محبت پیار امن وآشتی کا درس دیتی ہے، قوالی نے تو برصغیر کے مختلف طبقات اور مذاہب کو جوڑا، تو پھر ایک قوال کو مارنے والے کون ہیں؟ یہ سوال ٹیلی فون پر اجمیر شریف کے خادم خواجہ سید فرید مہاراج اس خاکسار سے پوچھ رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ خواجہ غریب نواز کے مزار کے بالکل سامنے بیٹھے ہیں، آس پاس ہجوم ہے اور لوگ امجد فرید کی شہادت پر رنجیدہ ہیں، تعزیت کرنے ہمارے پاس چلے آ رہے ہیں۔ کیوں نہ آئیں، امجد اور ان کے بڑوں کی اس مزار سے خصوصی وابستگی جو تھی۔ وہ اس مزار پر حاضری دیتے اور لاکھوں کے مجمعے کے سامنے صبح فجر تک اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ سید فرید مہاراج سمجھے شاید امجد صابری کا قتل کسی سیاسی چپقلش کا شاخسانہ ہے۔ انہیں کون بتلائے کہ نہیں حضور! ہمارے ہاں ایسے بدبخت بھی پل رہے ہیں جو نبیؐ اور آل نبیؐ کے نام کی مالا جپنے کو توہین قرار دیتے ہیں، اور ان لوگوں کے لئے ہمدری رکھنے والے مذہبی رہنما امجد صابری کے قتل پر سڑکوں پر لانگ مارچ نہیں کرتے، اور تو اور کبھی کھل کر ایسے دہشت گردوں کی مذمت تک کرنے کے سکت نہیں رکھتے۔

خواجہ فرید مہاراج نے بتایا کہ صابری بردارن کی وجہ شہرت میں اجمیر شریف کا بھی ہاتھ ہے۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ مشہور زمانہ قوالی \’تاجدار حرم\’ کے شاعر اجمیر شریف کے ہی عنبر وارثی نامی ایک صوفی شاعر ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا مزار ہو جہاں صابری برادران اور امجد صابری خود حاضر نہ ہوئے ہوں۔ اور پھر دیکھئے کہ امجد صابری نے اپنی شہادت سے ایک دن قبل ٹی وی ٹرانسمیشن میں کس نعت کا انتخاب کیا:

میں قبر اندھیری میں گھبراوں گا جب تنہا

امداد میری کرنے آجانا رسول اللہ

روشن میری تربت کو لللہ ذرا کرنا

جب وقت نزع آئے آقا، دیدار عطا کرنا

اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا

اور یہ پڑھتے ہوئے امجد صابری زار و قطار رو رہے تھے، ان کےقریبی رفقا بتاتے ہیں کہ امجد اس سے پہلے اس انداز میں شاید ہی کبھی رویا ہو۔ کملی والے یقیناً ان کی فریاد کہ \’قسمت میں میری چین سے جینا لکھ دے\’ منظور کر چکے تھے۔ ان کی تو خود خواہش تھی کہ؛ دستِ ساقیِ کوثر سے پینے چلیں!

امجد کی شہادت سے کئی افسوسناک معاملات نے بھی جنم لیا ہے جن سے ہماری اخلاقی اقدار کی قلعی کھل رہی ہے۔ امجد صابری کی شہادت کہیں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہی ہے تو کوئی اسے ایک خاص مذہبی رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا \’بھردو جھولی میری\’ کی صدا لگانے والے امجد صابری کی اپنی کوئی پہچان نہ تھی جو اسے سیاسی اور مذہبی شناخت دینے کی کوشش کی جارہی ہے؟ خدارا! گریز کریں!

یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کراچی میں جہاں اچھی کارکردگی اور جرائم کی شرح میں نمایاں کمی کی داد رینجرز اور قانون نافذ کرے والے اداروں کو ملتی ہے وہیں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے بیٹے کا اغوا اور امجد فرید صابری کا قتل سیاسی حکومت کی نااہلی کے کھاتے میں کیوں ڈالا جاتا ہے؟ اور اگر ایسا کرنا ہے تو ملک بھر میں بالخصوص کراچی میں سویلین جمہوری عملداری کب مضبوط ہوگی؟ بہرحال یہ بات تو اب طے ہے کہ پاکستان میں فکری تقسیم واضح ہو چکی ہے، ایک وہ ہیں جو صابری کی آواز ہیں اور دوسرے وہ جو اس آواز کو دبانا چاہتےہیں۔  لیکن کیا کیجئے کہ؛

رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ

ہو جس سے اختلاف۔۔۔ اسے مار دیجئے

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments