طویل دشمنی کے بعد پیدا ہوتی دوستی اور جان لیوا قاتل


کراچی سے 450 کلومیٹر دور، سطح سمندر سے 5688 فٹ بلند، گورکھ ہل اسٹیشن صوبہ سندھ کے شہر دادو سے 93 کلومیٹر کے فاصلہ پر شمال مغرب کی طرف کوہ کیرتھر پر واقعہ ہے۔ گورکھ ہل اسٹیشن نہ صرف صوبہ سندھ کا بلند ترین مقام ہے بلکہ اسے آب و ہوا کے لحاظ سے پاکستان کے مشہور ترین پہاڑی تفریح گاہ مری کا ہم پلہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔

یوں تو گورکھ ہل میں میٹھے چشمے، آبشار اور قدرتی مناظر وافر نظر آتے ہیں اور فطری خوبصورتی کے رسیا لوگ پہاڑوں کا حسن دیکھنے کے لئے اکثر وہاں جاتے ہیں لیکن اس سیاحتی مقام سے کچھ پراسرار باتیں بھی منسوب ہیں جن میں گورکھ ہل کے ویرانوں میں مقامی لوگوں کے رکھے نام ”مم“ جیسی پرسرار مخلوق کی جھلک بھی نہ جانے کتنے برسوں سے سیاحوں اور مقامی لوگوں کو کئی دفعہ نظر آ چکی ہے۔ مم نامی یہ مخلوق بن مانس سے مشابہہ اور قد کاٹھ میں انسانوں جیسی مگر ان کا جسم بالوں سے ڈھکا ہوا ہوتا ہے۔ ایسی ہی مخلوق تبت کے پہاڑوں میں یٹی (Yeti) کے نام سے اور امریکی جنگلات میں بگ فُٹ (Big Foot) کے نام سے مشہور ہے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مخلوق انسان نما بھیڑیے کی نسل سے ہیں جو چلتے پھرتے تو بن مانس کی طرح ہیں مگر انسانوں اور جانوروں کا شکار بھیڑیے کی طرح ہی خون سونگھ کر اور چیر پھاڑ کر ان کا شکار کرتے ہیں۔ ایک داستان یہ بھی مشہور ہے کہ گورکھ ہل کا نام بھی بھیڑیے کی وجہ سے ہی پڑا کیونکہ فارسی میں بھڑئیے کو گرگ کہتے ہیں۔

یہاں کسی دور میں بہت گھنے جنگل تھے جس میں اس وقت کے سخت حریف چُھٹا اور گھائنچا برادریاں رہا کرتی تھیں جن کے درمیان جنگلی حدود کی ملکیت کا تنازعہ تین ( 3 ) نسلوں سے چل رہا تھا۔ گھائنچا قبیلہ کے زیر قبضہ جنگل کی حدود بہت وسیع تھی اور اس میں شکار بھی بہت زیادہ تھا۔ دوسری طرف چُھٹا قبیلہ کے زیر ملکیت جنگل کی حدود اگرچہ چھوٹی تھی مگر وہ اس راستہ سے ملتی تھی جہاں سے شہری آبادی تک پہنچنا نسبتاً آسان تھا۔

گھائنچا قبیلہ کے لوگوں کو شہر تک پہنچنے کے لئے آسان راستہ اختیار کرنے کے لئے اپنے حریف چُھٹا قبیلہ کے علاقہ سے گزرنا پڑتا تھا جس کے عوض وہ بھاری معاوضہ وصول کرتے تھے۔ شہر پہنچنے کے لئے گھائنچا حدود کے دوسری طرف کا راستہ بہت مشکل، دشوار گزر اور بہت پرخطر تھا کیونکہ وہاں ”مم“ کے کئی غول گھومتے رہتے تھے جو آنا ”فانا“ راہ گیروں کو چیر پھاڑتے تھے۔

سردار سلطان گھائنچا کی ساری زندگی اپنے حریف سردار امین چُھٹا کے قبیلہ سے نفرت کرتے ہوئے گزری تھی۔ بچپن میں وہ امین چُھٹا کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتا تھا تو اب ادھیڑ عمری میں اس کی خواہش تھی کہ کسی جان لیوا وبائی مرض میں امین چُھٹا کی موت واقع ہو جائے۔ دوسری طرف امین چُھٹا کے دلی جذبات بھی سلطان گھائنچا سے کم مختلف نہیں تھے۔ اس کی بھی یہی خواہش تھی کہ کسی طرح سلطان گھائنچا کی موت واقع ہو جائے۔ دونوں براہ راست لڑنے کی بجائے بددعائیں کرنے پر مجبور تھے کیونکہ کچھ عرصہ پہلے ہونے والے تمام قبائل کے ایک بڑے جرگہ کے فیصلہ کی رو سے وہ ایک دوسرے سے تصادم نہیں کر سکتے تھے وگرنہ انہیں تمام قبائل کے مشترکہ لشکر کی یلغار کا سامنا کرنا پڑتا جس کا مقابلہ کرنا ان دونوں میں سے کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔

جنگ آزادی 1857 ء سے کچھ سال بعد کا قصہ ہے کہ برف باری کے دوران ایک سرد رات کو سلطان گھائنچا جنگل کے اپنے حصہ میں ”مم“ سے اپنے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لئے پہرہ دے رہا تھا۔ دفاع کے لئے اس کے پاس اپنے زمانہ کی جدید ترین بندوق ونچسٹر تھی جو اس نے ایک انگریز سے بھاری بھرکم رقم اور سونے کے عوض خریدی تھی تاکہ وہ اپنے حریف امین چُھٹا پر برتری حاصل کر سکے۔ امین چُھٹا کے پاس 3 / 1847 کولٹ والکر ریوالور (Colt Walker Revolver) تھا جو اس نے بھی اسی انگریز سے خریدا تھا جس سے سلطان گھائنچا نے بندوق خریدی تھی اگرچہ دونوں اس سے لاعلم تھے کہ دونوں کو اسلحہ بیچنے والا ایک ہی سپلائر ہے۔

یخ بستہ رات کی ٹھنڈک اور تنہائی میں سلطان گھائنچا نے دور سے کچھ آوازیں سنیں۔ اپنے ساتھیوں سے دور اور تند و تیز ہواؤں کے طوفان کے باوجود بھی سلطان تیزی سے آوازوں کی طرف لپکا۔ نزدیک پہنچنے پر اسے ایک انسانی ہیولہ دکھائی دیا جن پر اسے امین چُھٹا کا شبہ ہوا۔ اس نے اپنی رفتار تیز کی اور جب وہ اپنی حدود کے نزدیک پہنچا تو اس نے دیکھا کہ امین چُھٹا وہاں واقعی ہی موجود تھا اور اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ کسی تیسرے کی غیر موجودگی میں دونوں حریف ایک دوسرے کی طرف تیزی سے بڑھے۔ ابھی وہ ایک دوسرے سے 6 / 7 فٹ دور ہی تھے کہ ایک بہت بڑے درخت کے ٹوٹنے کی تیز آواز کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ابھی وہ کچھ سمجھ ہی نہیں پائے تھے کہ وہ درخت سیدھا ان پر آن گرا۔

سلطان گھائنچا نے خود کو زمین پر کمر کے بل گرا ہوا پایا۔ اس نے ہلنے کی کوشش کی مگر اس کا دایاں بازو اور ٹانگ بہت بری طرح درخت کے نیچے دبی ہوئی تھی۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ لمبے اور بھاری بھرکم فوجی، پہاڑی بوٹوں کی وجہ سے اس کے پاؤں ٹوٹنے سے بچ گئے تھے۔ البتہ دائیں بازو کے اترے ہوئے کندھے کے جوڑ اور دائیں گھٹنے کے فریکچر کی وجہ سے وہ ہلنے جلنے سے قاصر تھا۔ اسے یقین تھا کہ جیسے ہی اس کے ساتھی اسے ڈونڈھتے ہوئے وہاں پہنچتے وہ اسے درخت کی قید سے آزاد کروا سکتے تھے۔

اس کے سر پر بھی کچھ چوٹ لگی تھی جس سے خون رس کر اس کے ماتھے سے ہوتا ہوا آنکھوں پر جمع ہو رہا تھا۔ اس نے آنکھوں کو صاف کرکے اپنے بائیں طرف دیکھا تو صرف ایک ہاتھ کی لمبائی سے کچھ دور اسے امین چُھٹا بہت بری حالت میں درخت کے نیچے دبا ہوا ملا۔ اس کی دونوں ٹانگیں، بازو اور پیٹ و سینے کا زیادہ حصہ درخت کی موٹی شاخوں میں دبا ہوا تھا جبکہ اس کا سر بھی شدید زخمی تھا جس سے خون رس کر اس کا منہ رنگین کر چکا تھا۔ اس نے امین چُھٹا کے زیادہ زخمی ہونے پر سکون کا سانس لیا اور قہقہہ لگا کا ہنسنے لگا۔

سلطان گھائنچا کے قہقہہ کو سن کر امین چُھٹا نے نفرت سے کہا، ”بند کرو اپنی مکروہ ہنسی اور دعائیں دو اس طوفان کو جس نے تمہیں آج میرے ہاتھوں مرنے سے بچا لیا“۔ سلطان گھائنچا نے یہ سن کر اسے جواب دیا، ”تو تم ابھی تک مرے نہیں ہو۔ اگرچہ بہت بری طرح درخت کے شکنجہ میں پہنچ ہی چکے ہو جس میں تم رفتہ رفتہ زخموں اور شدید ٹھنڈ سے مر ہی جاؤ گے۔ یہ قدرت کا نہایت منصفانہ مذاق ہے جس کے تم صحیح اور بجا طور پر مستحق ہو“۔

اس کے بعد سلطان گھائنچا نے پھر قہقہہ لگایا اور کہا کہ، ”اگرچہ میں بھی درخت کے نیچے دبا ہوا ہوں مگر میں اپنی حدود میں ہوں۔ جیسے ہی میرے آدمی مجھے آ کر آزاد کروائیں گے تب تم اپنے دشمن کی زمین پر ایک بے بس چوہے کی طرح دبے ہوئے ملو گے۔ تمہارے لئے زخموں اور ٹھنڈ سے مرنے کے ساتھ ساتھ یہی بات شرم سے مرنے کے لئے کافی ہوگی کہ تمہیں میرے آدمی اس بے بسی سے نجات دلائیں گے“۔

امین چُھٹا نے کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا کہ، ”کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہارے آدمی آ کر تمہیں آزاد کروا لیں گے۔ میرے آدمی بھی میرے ساتھ ہی جنگل میں پہرہ دے رہے تھے۔ وہ یہاں جلدی پہنچیں گے اور مجھے جھٹ پٹ اس بوجھ سے آزادی دلوا دیں گے۔ پھر انہیں اس بات میں بھی دیر نہیں لگے گی کہ وہ اس ٹوٹے ہوئے درخت کی بڑی بڑی شاخیں اٹھا کر تمہیں ان میں زندہ دفن کر دیں۔ جب تمہارے آدمی یہاں پہنچیں گے تو وہ تمہیں اس ٹوٹے ہوئے درخت کے نیچے مردہ حالت میں پائیں گے۔ تمہاری اس دردناک موت پر میں تمہارے قبیلہ کو اظہار تعزیت بھیجنا ہرگز نہیں بھولوں گا“۔

سلطان گھائنچا پھنکارا، ”یہ تو بہت مفید مشورہ ہے۔ یہاں آنے سے پہلے میں نے اپنے آدمیوں کو دس ( 10 ) منٹ بعد پیچھے آنے کی تاکید کر دی تھی۔ ان دس منٹوں میں سے سات ( 7 ) منٹ تو گزر بھی چکے ہیں۔ جب وہ مجھے اس درخت کے نیچے سے آزادی دلوائیں گے تو تمہارا یہ مشورہ مجھے بہت اچھی طرح یاد رہے گا۔ جب تم ہماری زمین پر درد ناک موت سے ہمکنار ہو گے تو میرے لئے یہ بھی ضروری نہیں ہوگا کہ میں تمہارے خاندان اور قبیلہ کو تعزیت کا پیغام بھیجوں“۔

امین چُھٹا پھنکارا کہ، ”صحیح ہو گیا۔ میں، تم اور ہمارے قبیلہ والے اس جھگڑے کو موت تک لڑتے رہیں۔ ہمارے بیچ کوئی دخل انداز نہ ہو۔ موت اور عذاب تم پر نازل ہو“۔ سلطان گھائنچا نے بھی جوابا ”کہا کہ، “ تم پر سب سے پہلے عذاب اور موت نازل ہو ”۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2