ایک اور نوحہ…


\"anisآؤ ! اپنا اپنا نوحہ لکھ لیں کہ اس دشت بے امان میں نجانے کب موت آ لے۔

آج امجد صابری گئے۔ کل کسی اور کی باری ہو گی۔ ہماری باری ہو گی۔ بس اسے خدا کی مرضی جانئے اورشاکر و لب بستہ رہیئے۔

جن اندھیروں کی فصل بو کر ہم چاندنی کا انتظار کرتے تھے وہ فصل تیار ہے۔ ظلمت کے بڑھتے سایوں کو دیکھ کراب حیرت کیسی۔

تو پھر کیا یہ چمن یونہی رہے گا!

نہیں رہے گا۔ اس لئے کہ جس چمن میں زاغ بسیرا کر لیں، وہ چمن اجڑ جاتا ہے۔ بلبلیں وہاں سے اڑ جاتی ہیں۔ پھول اداس ہو کر جھڑ نے لگتے ہیں۔

یہ کیسا اژدہام ہے۔ بھیڑ ہے جو خود کو قوم کہلوانے پر مصر ہے۔ قوم تو انسانوں سے بنتی ہے۔ انسان کہاں ہیں۔ انسان تو سوچنے سمجھنے، اپنا اچھا برا جاننے والی مخلوق کو کہا جاتا ہے۔ اجتماعی خود کشی پر تلی مخلوق تو انسانوں کے زمرے میں نہیں آتی۔ اجتماعی خود کشی تو بعض مچھلیاں کرتی ہیں جن کے جسم بڑے اور دماغ اس کی مناسبت سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ بہت چھوٹے۔

تو صاحبو ! جس ویرانے میں جیتے مرتے ہو وہ اب باؤلے بھیڑیوں کی آماجگاہ ہے، چیرنا پھاڑنا جن کی فطرت ہے اور جن کے رنگ ماسٹر مقدس لبادوں میں چھپے وہ مداری جو تمہیں سہانے خواب دکھاتے ہیں اور پھران پالتو بھیڑیوں سے ادھڑوا کر حیوانی جبلت جن کی تسکین پاتی ہے۔

آنکھیں کھول کر دیکھو ۔ طوائف الملوکی کی نادر شاہی تلوار بے نیام ہو چکی۔ اب موت کا رقص جاری ہے۔

بہت چاہت سے حاصل کی تھی نا تم نے یہ آزادی۔ کٹتے مرتے پہنچے تھے نا اس منزل تک۔ دکھائی دی وہ منزل !

چلو اچھا ہوا انگریز سے تو جان چھوٹی۔ بنیے کے مکر سے بھی۔ اب شکایت کیا ہے۔ اب تو سب اپنے ہیں۔ مالک و مختار بھی ۔ حاکم و محکوم بھی۔ تو پھر جھگڑا کیسا۔

آہ ! کہ یہ پاکستان کی آواز تھی۔ پاکستان سے بڑھ کر انسانیت کی۔ صوفیوں، ولیوں، بھگتوں کی آواز۔ خسرو کی۔ نظام الدین کی۔ کبیر کی۔

یہ تمہاری آواز تھی۔ میری تھی۔ سب کی تھی۔

افسوس کہ ہواؤں کے دوش پر رقص کرتی یہ آواز کائنات کی وسعتوں میں گم ہو گئی۔

برسوں بعد کا انسان جب ان وسعتوں سے ڈھونڈ کر یہ آواز نکالے گا تو اسے حیرت تو ضرور ہو گی کہ یہ ٹوٹی کیسے۔

کون تھے وہ وحشی جنہیں سر سے نفرت تھی۔ جو اس کے قاتل تھے۔ یقیناٌ وہ انسان نہ تھے کہ آواز کا قتل تو پوری انسانیت کا قتل ہے۔

تو غمگسارو ! ایک نوحہ اور لکھو کہ اس کے سوا تم کر بھی کیا سکتے ہو۔

لکھو کہ اس مملکت خداداد میں انسانیت آج پھر قتل ہو گئی۔

رہے نام اللہ کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments