کار جہاں دراز ہے یا زلف سیاہ دراز ہے


ہم سب مسیحا بن کے پاکستان لوٹ رہے تھے؛ خوش تھے، اداس تھے۔ کرغزستان نامی فردوس میں ہم نے لگ بھگ سات برس گزار دیئے تھے؛ طالب علمی کے زمانے کا تو ہر لمحہ، ہر دن ہی یادگار ہوتا ہے۔ باغِ عدن کے شب و روز میں، شاذ ہی ایسا تھا، جس نے ریشمی زلفوں سے شراب نہ کشید کی ہو، شربتی آنکھوں کے دام نہ بھرے ہوں.

مہ روز انھی نادر العجوبات میں سے ایک تھا، جس کو نشہ تھا، تو دن رات پڑھنے کا، عبادت کا، اور وقت پہ سو جانے کا۔ اسے ہمارے ہنگاموں سے کوئی سروکار نہ تھا؛ اس مکاں کے ہم چار مکیں تھے، ان میں سے تین کی راتوں میں ہجر کی کوئی کوئی رات تھی۔ کبھی جب کڑکی کی وجہ سے ناغہ ہوتا، تو ہمیں یہ غم ستاتا، کہ ہم مہ روز کی طرح نیکی کے پتلے کیوں نہیں ہیں۔

آخر شب کا واقعہ ہے، اگلی صبح وطن کے لیے فلائٹ تھی، اور ہم نے بھی اس رات قسم کھائی تھی، کہ مہ روز کو گنہ گار کر کے ہی دم لیں گے، وگرنہ ہماری ڈاکٹری گئی بھاڑ میں۔ صاحب، کون کہتا ہے، کہ شیطان کا کام آسان ہے! جیسے تیسے مہ روز کو قائل کیا گیا، وہ ہمی جانتے ہیں۔ منصوبے کے تحت اسے دوستی کی قسمیں دے کر، واڈکا کی تاثیر اتاری گئی، وہ سرور میں‌ آگیا؛ حوا کی نمایندہ باتما کو سمجھا دیا گیا تھا، کہ اِس موقع پر اس کے کیا فرائض ہوں گے؛ باتما کرغز لڑکی تھی، افراط زر  نے معشیت کو یوں بھی تباہ کیا ہوا تھا، اور پھر اخلاقیات ہر سماج کی اپنی ہوتی ہیں۔ مہ روز کو باتما کے ساتھ کمرے میں بند کردیا گیا.

وقت کی چھوٹ عنایت ہو، کہ کیف میں زمان و لا مکاں ایک ہوتے ہیں۔ کوئی تیس یا چالییس منٹ گزرے ہوں گے، کمرے کا دروازہ کھلا، اور مہ روز دھاڑیں مارتا ہوا باہر نکلا۔ ہم قطعاً حیران نہیں ہوے، کیوں کہ ہم اس کی پارسا طرز زندگی سے بہ خوبی واقف تھے۔ پہلی بار ہر کوئی احساسِ گناہ کا شکار ہوتا ہے؛ ہم بھی ہوے تھے؛ سبھی ہوتے ہوں گے. ہم نے مہ روز کو تسلی دی، کہ تنِ تنہا تمھی وہ آدم نہیں ہو، جسے جنت بدر کیا گیا تھا؛ اور بھی ہیں؛ اب ہم اتنے ہیں، کہ ایک دوسرے کی تنہائی بانٹ سکیں۔ جوں جوں ہم تسلی کے بول بولتے، توں‌ توں اس کی آہ و زاری بڑھتی جاتی تھی۔ جب ہماری کوئی پیش نہ چلی، تو ہم نے اس کے آگے ہاتھ باندھ دیئے، کہ ‘ہمی وہ ابلیس ہیں، جو دوستی کے نام پر سانپ بن کر تری جنت میں اترے ہیں؛ ہم پہ طعنہ زنی کر؛ ‘ہچکیوں کے درمیان وہ بولا، بات وہ نہیں ہے، جو تم سمجھ رہے ہو۔’ہماری سانسیں اٹکی ہوئی تھیں۔ ‘یارو، میں بھی کتنا احمق تھا، کہ اِس جنت (کرغزستان) میں سات برس تک جھک مارتا رہا، اور جب خُدا کی نعمت کا احساس ہوا، تو مجھے جانا ہے.’

سبھی حیرت سے اس کا چہرہ تکتے رہے؛ اور میں سوچنے لگا، دنیا بنانے والے نے آدم کو زمین پر بھیجنے کا فیصلہ پہلے لیا تھا، یا شجرِ ممنوع کا پھل کھلانے کا ارادہ پہلے کیا تھا!

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments