’’سو دنوں‘‘ پر پانی میں مدھانی


بہت کوشش کے باوجود اس کالم نگار کا نام یاد نہیں کرپایا۔ بالاخر ’’نام میں کیا رکھا ہے‘‘ والا مقولہ ذہن میں لاتے ہوئے دل کو تسلی دی۔

1980کے ابتدائی ایام تھے۔ انٹرنیٹ ابھی متعارف نہیں ہوا تھا۔اس دوران لندن میں کئی ماہ صرف کئے تو وہاں کے تاریخی اخبار’’ٹائمز‘‘ کے بجائے ’’گارڈین‘‘ کا دیوانہ ہوگیا۔ پاکستان لوٹا تو اس اخبار کی یاد بے پناہ ستانے لگی۔ اتنے وسائل میسر نہیں تھے کہ اس کا خریدار بن کر ڈاک کے ذریعے منگوالیتا۔

اسلام آباد کی میلوڈی مارکیٹ میں برطانوی سفارت خانہ ایک لائبریری چلاتا تھا۔ اس کارُکن بن گیا۔رپورٹنگ کی مصروفیات میں سے وقت نکالنا مگر مشکل ہوجاتا۔ خوش نصیبی سے ایک برطانوی سفارت کار سے دوستی ہوگئی۔ اس نے مذکورہ اخبار کی میرے اخبار کی لائبریری کے لئے فراہمی بندوبست کردیا۔ میری مشکل آسان ہوگئی۔

’’گارڈین‘‘ کی عمومی خوبیوں کے علاوہ اس کے لئے لکھنے والا ایک کالم نگار تھا جس کے مضامین نے مجھے دیوانہ بنارکھا تھا۔ موضوع اس کا ہمیشہ برطانوی سیاست رہی۔ وہ دور مارگریٹ تھیچر کا دور تھا۔ موصوفہ انتہائی ڈھٹائی سے سرمایہ دارانہ نظام کی حامی تھیں۔غریب اس کی دانست میں اپنی کاہلی کی بناء پر غریب تھے۔

اسے شکوہ تھا کہ برطانوی حکومت بے روزگاروں کو مالی معاونت فراہم کرنے والے نظام کے ذریعے لوگوں کو محنت ومشقت کے تصور سے بیگانہ بنارہی ہے۔ سرکاری تحویل میں چلائے کاروبار ٹریڈ یونین رہ نمائوں کے یرغمالی بن چکے ہیں۔ایسے کاروبار نجی سرمایہ داروں کے حوالے کیے جائیں تو برطانیہ صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا۔

میرا پسندیدہ کالم نگار تھیچر کا شدید مخالف تھا۔ اس کی پالیسیوں کو لیکن وہ انتہائی سادہ مگر حیران کن حد تک تازہ زاویوں سے تنقید کا نشانہ بناتا اور ایسا کرتے ہوئے کئی ایسی تراکیب متعارف کرواتا جو اپنی اثراندازی کی بناء پر شاعرانہ محسوس ہوتیں۔ مارگیٹ تھیچر کو Milk Snatcher یعنی غریب بچوں کو ریاست کی جانب سے فراہم ہونے والا دودھ چھیننے والی عورت کا لقب بھی اسی کالم نگار نے دیا تھا۔

غالباََ 1981کے وسط میں اس کالم نگار کو کینسر کا مرض لاحق ہوگیا۔ ان دنوں اس موذی مرض کے مؤثر علاج دریافت نہیں ہوئے تھے۔موت کی جانب لڑھکتے ہوئے اس کالم نگار نے ’’گارڈین‘‘ کے صدر دفتر سے رخصت لے لی۔اپنے مرنے سے قبل اس نے فیصلہ کیا کہ وہ برطانیہ کے چھوٹے قصبوں میں وقت گزارہ کرے گا۔

لندن سے دور قصبات میں عام افراد کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے اس نے دنیا کو ان کی نظر سے دیکھنے کی عادت اختیار کرنے کی کوشش کی۔اس کوشش کے باعث اس نے وہ سماجی رویے دریافت کئے جن کا حتمی اظہار اس ریفرنڈم کے ذریعے ہوا جس کی بدولت آج سے دو سال قبل برطانوی عوام نے سادہ مگر مؤثر اکثریت سے یورپی یونین سے اخراج کی حمایت میں ووٹ ڈالا۔

گارڈین کا یہ کالم نگار مجھے ٹرمپ کے بطور امریکی صدر منتخب ہوجانے کے بعدبھی بہت یاد آیا۔’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ اور ’’نیویارک ٹائمز‘‘ جیسے اخبار اور CNN جیسے ٹی وی نیٹ ورک ہمیں بتارہے تھے کہ ہیلری کلنٹن امریکہ کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوکر تاریخ بنادے گی۔ٹرمپ اس کے مقابلے میں محض ایک مسخرہ ہے۔ امریکی اشرافیہ اور میٹروپولیٹن شہروں میں موجود متوسط طبقہ اسے سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ انتخابی نتائج نے لیکن ان سب کو حیران کردیا۔

اپنی حیرانی کااحمقانہ دلائل سے دفاع کرنے کے بجائے امریکی صحافیوں کی خاطرخواہ تعداد بہت خلوص سے یہ معلوم کرنے کی لگن میں مبتلا ہوگئی کہ ہیلری کلنٹن کے حوالے سے ان کے تجزیے درست کیوں ثابت نہ ہوئے۔

ایمان دارانہ تحقیق کے بعد دریافت یہ ہوا کہ واشنگٹن ،نیویارک ،شکاگو اور لاس اینجلس جیسے میٹروپولیٹن شہروں کے علاوہ بھی ایک امریکہ ہے۔ چھوٹے قصبات پر مشتمل اس وسیع تر امریکہ میں فیکٹریاں کئی برسوں سے بند ہوچکی ہیں۔ روزگار کے امکانات مہیا نہیں۔ ایسے قصبات پر مشتمل ریاستوں کو Rust Statesیعنی زنگ آلودہ علاقے کہا گیا۔

دریافت یہ ہوا کہ اپنے مستقبل سے مایوس ہوئے سفید فام امریکی ٹرمپ کے اس دعوے کو دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں کہ غیر ملکی تارکینِ وطن نے ان کے روزگار چھین لئے ہیں۔’’اسلام ‘‘ دہشت گردی کی علامت ہے۔ واشنگٹن میں بیٹھی اشرافیہ مگر ان کے جذبات کا احساس تک نہیں رکھتی۔

کوئی بھی صدر ہو پالیسیاں ایسی بنائی جاتی ہیں جو امریکی سرمایہ داروں کو بجائے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے چین جیسے ممالک میں فیکٹریاں لگانے کی ترغیب دیتی ہیں۔امریکہ کو ایسے ممالک سے آئی مصنوعات کی منڈی بنادیا گیا ہے۔ یہ پالیسیاں جاری رہیں تو امریکہ دنیا کی واحد سپرطاقت نہیں رہے گا۔غیر ملکی تارکین وطن کی وجہ سے اس کی ’’امریکی شناخت‘‘ بھی برقرارنہیں رہ پائے گی۔عیسائی مذہب بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔

حال ہی میں امریکہ کی قومی اسمبلی جسے وہاں ہائوس کہا جاتا ہے کے انتخابات ہوئے۔ اس میں ٹرمپ کے حامیوں کو دھچکا ضرور لگا ہے لیکن ٹھوس اعدادوشمار نشان دہی کررہے ہیں کہ ٹرمپ کے حامیوں کے دلوں میں موجزن جذبات پوری شدت کے ساتھ اپنی جگہ قائم ہیں۔

مجھے ان انتخابات کے تناظر میں اپنے ہاں گزشتہ تین دنوں سے ٹیلی وژن سکرینوں پر جاری ’’عمران حکومت کے سودن‘‘ کے موضوع پر ہوئے مباحث بہت حیران کررہے ہیں۔کسی حکومت کے ابتدائی سو دنوں والی بات امریکہ میں متعارف ہوئی تھی۔ وجہ اس کی بنیادی طورپر یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے فوری بعد وہاں کا حکمران فقط اپنی کابینہ ہی تشکیل نہیں دیتا۔ ہزاروں کی تعداد میں سرکاری آسامیوں پر ’’اپنے بندے‘‘ بھی لگاتا ہے۔

ہمارے ہاں اس کے برعکس پارلیمانی نظام ہے۔ اپنے پہلے سو دنوں میں کوئی وزیر اعظم ویسی ہلچل مچا نہیں سکتا جس کی توقع امریکی صدر سے کی جاتی ہے۔ ’’سودنوں‘‘ والی اصطلاح مگر ہم نے امریکہ سے اُچک لی ہے اور اس کے بارے میں پنجابی محاورے والے پانی میں مدھانی گمائے چلے جارہے ہیں۔

یہ مدھانی جو ٹیلی ژون سکرینوں پر چلائی جاتی ہے۔کراچی،لاہور، فیصل آباد جیسے شہروں سے Ratingsلاتی ہے۔ مجھے بھی ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے نے اس موضوع پر تبصرے کے لئے رابطہ کیا۔ میں نے معذرت کرلی۔

معذرت کرنے والوں کو یہ نہیں بتایا کہ عمران خان کی صورت میں ہماری اشرافیہ کے ایک مؤثر حصے کو وہ ’’پیا‘‘ ملا ہے جو گھرآجائے تو بلھے شاہ ’’گھڑیال دیوو نکال نی‘‘والی دہائی مچانا شروع ہوجاتا ہے۔خان صاحب کو بہت اشتیاق اور چائو سے وزیر اعظم کے منصب تک پہنچانے والے افراد کے لئے ابتدائی سو دنوں کی ترکیب لایعنی ہے۔ عمران خان صاحب کے حلف اٹھانے کے بعد سے انہوں نے کیلنڈر اور گھڑیال دیکھنا چھوڑ دئیے ہیں۔

عمران خان صاحب کے سیاسی مخالفین جن معاملات کو فاش غلطیاں اور یوٹرن قرار دے رہے ہیں انہیں ’’ایک ایمان دار شخص‘‘ کی حکومتی معاملات کے ضمن میں ’’ناتجربہ کاری‘‘ قرار دے کر نظرانداز کیا جارہا ہے۔’’ایک پیج‘‘ پر ہونے والی خواہش بھی پوری ہوچکی۔

’’مودی کا یار‘‘ جس کلبھوشن کے ذکر سے گھبراتا تھا اس وقت بھی ہماری قید میں ہے لیکن ضلع ناروال کی تحصیل شکرگڑھ میں کرتارپور راہداری کی تعمیر شروع ہوچکی ہے۔فی الوقت اس تعمیر سے جڑی رونق کا لطف اٹھائیں اور گھڑیال نکال کر ’’میرے پیا گھر آئے‘‘ کے وِردسے مست ہوجائیں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).