ٹیلی فون


مجھے یاد ہے وہ ابتدائے خزاں کا ایک گرم دن تھا۔ دیہاتی اپنے کھیتوں کی مینڈھیں ٹھیک کر رہے تھے یا پھر سردیوں کے ایندھن کے لئے لکڑیاں اکٹھی کر رہے تھے جب شور مچ گیا کہ ٹیلی فون کمپنی کا ٹرک ابو رجا کی دکان پر پہنچ گیا ہے۔ اس زمانے میں گاؤں میں سڑکیں نہیں ہوتی تھیں۔ محض پگڈنڈیاں ہوتی تھیں یا پھر پانی کے خشک راستے۔ چنانچہ ٹیلی فون کمپنی کے ٹرک کو صیدون کے خشک پہاڑی علاقے سے اوپر گاؤں تک آنے میں پورا ایک دن لگ گیا۔

تقریبا اتنا ہی وقت جتنا پیدل آنے میں لگتا تھا۔ جب ٹرک نظر آیا تو ابو جارج نے جو کہ بہت ہی بلند آواز تھا اور ٹیلی فون کی آمد سے قبل مغدلونہ کے واحد طویل فاصلاتی مواصلاتی رابطے کی حیثیت رکھتا تھا اپنے گھر کے چھجے سے یہ خبر پہلے نشر کی۔ ہر کسی نے اپنا کام کاج چھوڑا اور ابورجا کے گھر کی طرف دوڑا کہ دیکھ سکے کہ وہاں کیا ہو رہا تھا۔ البتہ کچھ زیادہ معزز دیہاتی مثلاً ابوحسیب یا ابو ناظم جو کہ بیروت اور دمشق جیسے بڑے شہروں میں رہے ہوئے تھے اور ٹیلی فون اور ٹیلی گراف جیسی جدید چیزیں دیکھے ہوئے تھے، دوسرے دیہاتیوں کی طرح بھاگ کر نہیں گئے بلکہ انہوں نے یہ فاصلہ اپنی چھڑیوں میں اپنے مڑے ہوئے بازو ڈال کریوں طے کیا کہ جیسے اتوار کی شام کوچہل قدمی کرنے نکلے ہوں۔

پورے گاؤں کو ابو رجا کی دکان پر اکٹھے ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا تھا۔ کچھ امیر دیہاتی جیسے کہ بیوہ فرح یا پولیس والا ندیم سیدھے دکان کے اندر گئے اور ٹیلی فون کمپنی کے دو اہم نظر آنے والے آدمیوں کی کہنیوں کے قریب جا کھڑے ہوئے جو کچھ اس انہماک اور وقارسے تار بچھا رہے تھے کہ جیسا کہ وہ کسی گرجے کے پادری ہوں۔ غریب دیہاتی دکان کے باہر کھڑے ہوئے تھے اور ان تفصیلات کو سنتے تھے جو امیر دیہاتی اندر کھڑے دیکھتے تھے اور باہر راہداری میں نشر کرتے تھے۔

’ گنجا والا آدمی نیلی تار کاٹ رہا ہے‘ کسی نے کہا۔
’اب وہ تار کو سیاہ بکسے کے نیچے بنے ہوئے سوراخ میں لگا رہا ہے۔ ‘ ایک دوسری آواز آئی۔
’ اب مونچھوں والا تار کے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑ رہا ہے‘ ۔ کوئی تیسرا بولا۔
’وہ دونوں سروں کو مروڑ کر جوڑ رہا ہے‘ ۔ پہلی آواز نے اضافہ کیا۔

چونکہ میں چھوٹا تھا تو اس بات کو نہیں سمجھ سکتا تھا کہ مجھے غریب دیہاتیوں کے ساتھ باہر کھڑے ہونا ہے تاکہ اندر والے امیر دیہاتیوں کو کھلی جگہ مل سکے (پتہ نہیں ان امیر دیہاتیوں کوغریبوں کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ جگہ کیوں چاہیے ہوتی ہے؟ ) چنانچہ میں ٹانگوں کے گھنے جنگل کے بیچ سے راستہ بناتے ہوئے دکان کے اندر پہنچ گیا تاکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں کہ اندر کیا ہو ریا ہے۔ اور پھر اس لمحے۔ ۔ ۔
اس لمحے میں برہنہ پا موسی تھا جس کے چپل ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے اور وہ سامنے کوہ سینا پر جلتی ہوئی جھاڑی کو دیکھ ریا تھا۔

میں دم سادھے ہوئے اپنے سامنے نیلے لباسوں میں ملبوس ان آدمیوں کو دیکھ رہا تھا جن کی قمیضوں پر کسی غیر ملکی زبان کے خوبصورت حروف میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ وہ میرے سامنے سیاہ رنگ کی وہ مشین نصب کر رہے تھے جس کے ذریعے ان چچاوں خالاوں اور عم زادوں سے بات کرنا ممکن ہو سکتا تھا جو مغدلونہ سے دو دن سے بھی زیادہ کی پیدل دوری پر رہتے تھے۔

بلآخر غروب آفتاب کے ذرا دیربعد مونچھوں والے آدمی نے اعلان کیا کہ ٹیلی فون اب استعمال کے لئے تیار تھا اس نے ابو رجا کو سمجھایا کہ اسے محض یہ کرنا تھا کہ ریسیور اٹھائے سیاہ بکس پر بنے ہوئے چکر کو گھمائے اور انتظار کرے تا وقتیکہ آپریٹر کال وصول کرلے۔ ابو رجا جو کسی زمانے میں صیدون میں رہتا اور کام کرتا رہا تھا اس بات پر سخت بے چین تھا کی یہ ٹیلی فون والا آدمی اسے بالکل ہی کورا سمجھ رہا تھا۔ اس نے ریسیوراٹھایا اور کچھ اس قوت سے چکر کو گھمایا کہ جیسے وہ ماڈل ٹی فورڈ کار اسٹارٹ کرنے جا رہا تھا۔

البتہ اس بات سے ہر کوئی متاثر ہوا کہ اسے پتہ تھا کہ کیا کرنا ہے۔ حتی کہ اس نے آپریٹر کو بھی اس کے نام سے بلایا ’سنٹرالسٹ‘ اس نے کہا تھا۔ چند ہی لمحوں کے بعد وہ اپنے بھائی سے جو کہ بیروت میں ہوٹل قلی کا کام کرتا تھا بات کر رہا تھا۔ اسے نہ تو نہ اپنی آواز بلند کرنا پڑی نہ ہی چیخنا پڑا تاکہ دوسرا بندہ اس کی بات سن سکے۔

اگر میں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اورکانوں سے سنا نا ہوتا تو مجھے بھی کبھی یقین نہ آتا۔ اور میرے دوست کمیل کو واقعی یقین نہیں آیا تھا۔ اس شام وہ دور کہیں اپنے والد کی بکریاں چرا رہا تھا۔ جب وہ واپس آیا تو میں نے اور اس کے کزن حبیب نے اسے ٹیلی فون کے متعلق بتایا کہ کیسے اس کے ذریعے سے ابو رجا نے اپنی بھائی سے بیروت میں بات کی تھی۔ ہماری رپورٹ سننے کے بعد کمیل نے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور اپنی انگوٹھے کو چوما۔

پھر وہ ہم سے مخاطب ہوا اور ہمیں خبردار کیا کہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے اور اس کی وجہ سے ہم دونوں کو ضرور جہنم میں پھینکا جا سکتا ہے۔ کمیل عیسی اور مریم پر پکا یقین رکھتا تھا اور بڑے ہو کر پادری بننا چاہتا تھا۔ میں اور حبیب جب اس کے ساتھ ہوتے اور کوئی بد فال منہ سے نہ بھی نکال رہے ہوتے تو بھی وہ ضرور اپنے سینے پر صلیب کا نشان بناتا تھا کیونکہ حبیب پریسبیٹیرین تھا اور میں تو ویسے ہی دہریہ اور گستاخ تھا۔

اور پھر یوں ہوا کہ یہ ٹیلی فون واقعی ہمارے گاؤں کے حق میں بدفال ثابت ہوا کیونکہ اس کے آنے کے ساتھ ہی ہمارے گاؤں کی وضع قطع بدلنا شروع ہو گئی۔

سب سے پہلے گاؤں کا مرکز تبدیل ہوا۔

ٹیلی فون کی آمد سے پیشتر گاؤں کے مرد ام کلیم کے گھر جمع ہوا کرتے تھے۔ ام کلیم ایک چھوٹے قد اور درمیانی عمر کی بیوہ عورت تھی۔ اس کے بال بہت سیاہ اور آواز سخت گیر اور بلند تھی۔ وہ اگر سرگوشی بھی کرتی تو پورے گاؤں میں سنی جا سکتی تھی۔ وہ پکی کیتھولک تھی اور اس کے ساتھ گاؤں کی ’شلیکی‘ یعنی بیسوا تھی۔ آدمی لوگ اس کے گھر میں جمع ہوتے سیاست پر بحث کرتے کافی پیتے اور تاش یا چوسر کھیلتے۔ ام کلیم صحیح معنوں میں بیسوا نہ تھی۔

وہ اپنی خدمات کے عوض مردوں سے کچھ نہیں لیتی تھی بلکہ چائے کافی یا کبھی کبھار پیش کی جانے والی سخت شراب (جسے عرق کہتے ہیں ) کے لیے بھی کچھ طلب نہ کرتی تھی۔ دراصل اسے پیسوں کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔ اس کا بیٹا جو افریقہ میں ملازمت کرتا تھا اسے پیسے بھیجتا رہتا تھا۔ مجھے اس بات کا علم یوں ہوا کہ میرے والد اس کے خط پڑھ دیا کرتے تھے اور جواب بھی لکھ دیتے تھے۔ ام کلیم لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی۔

ام کلیم ہرگز کوئی فاحشہ عورت نہ تھی۔ جیسا کہ گاؤں کی کچھ دوسری عورتیں حقیقت میں تھیں۔ بلکہ وہ ان سب مردوں سے محبت کرتی تھی جو اس کے پاس آتے تھے اور جن کی وہ خدمت کرتی تھی اور وہ سب بھی اس سے پیار کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک۔ ایک طرح سے وہ گاؤں کے ہر مرد سے بیاہی ہوئی تھی۔ گاؤں کے ہر شخص کو اس بات کا علم تھا۔ بیویاں یہ بات سمجھتی تھیں۔ قصبے کا کیتھولک پادری جانتا تھا۔ پریسبیٹیرین پادری کو پتہ تھا۔

میرا گمان ہے کہ گاؤں کی عورتیں (سمیت میری ماں کے ) اپنے خاوندوں کے ام کلیم کے گھر جانے کا دل سے برا نہیں مناتی تھیں۔ وہ بظاہر اپنے خاوندوں سے گلے شکوے کرتی تھیں اوران کی بے وفائی سے نالاں بھی نظر آتی تھیں لیکن اندر ہی اندر وہ خوش ہوتی تھیں کہ ام کلیم کی وجہ سے ان کے سروں سے کچھ دباؤ کم ہو جاتا تھا اور ان کی اپنے مردوں سے کچھ دیر کو ہی سہی مگر جان خلاصی ہو جاتی تھی اور اس دوران وہ گھر کے کچھ اہم کام نمٹا لیتی تھیں۔ ام کلیم ایک طرح کی راہ نما اور نجات دہندہ بھی تھی۔ وہ ان مردوں کو کچھ عقل کی بات سمجھاتی تھی جو خانگی مسائل کا شکار ہوتے تھے خصوصا وہ جو نوجوان تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3