ٹیلی فون


مغدلونہ میں ٹیلی فون کی آمد سے قبل ام کلیم کا گھر تقریبا سارا دن بھرا رہتا تھا خصوصا رات کے وقت جب اس کے گھر کی کھڑکیاں تیل کے بڑے لیمپوں سے روشن کر دی جاتی تھیں تو باتیں کرتے قہقہے لگاتے اور بحث کرتے ہوئے مردوں کی بلند آوازیں نیچے گلی میں سنی جا سکتی تھیں۔ یہ پرسکون گھریلو قسم کی آوازیں ہوتی تھیں۔ ام کلیم کا گھر تھکے ماندے دیہاتیوں کے لیے سکون کا جزیرہ تھا اور جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تھا ان کے لیے ایک نخلستان۔

لیکن زیادہ عرصہ نہیں لگا کہ ان مردوں میں سے زیادہ تر نے خاص کر نوجوانوں نے دن اور شام کے زیادہ اوقات ابو رجا کی دکان پر گذارنے شروع کر دیے۔ وہ وہیں کھاتے پیتے باتیں کرتے اور بارہ ٹہنی یا چوسر کھیلتے۔ جب وہ اپنی کرسیوں کو دیوار کے ساتھ لگا کر جھلاتے تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا تھا کی اب وہ گاؤں کی تازہ ترین افواہوں کے ساتھ کسی گیند کی طرح کھیلنے کو تیار تھے۔ اس کھیل کے دوران وہ بار بار نظریں اٹھا کر ٹیلی فون کو یوں دیکھتے کہ جیسے وہ ابھی ان کے لیے بج اٹھے گا اور کوئی ایسی خبر لائے گا جو ان کی زندگیوں کو بدل دے گی اور ان کو ان کی بے مصرف ہستی سے نجات دلا دے گی۔

وہ ہاتھ سے بنے ہوئے سگرٹ سلگاتے جیبی چاقووں سے ناخنوں کے نیچے کی میل کھرچتے اور وہ نیم گرم مشروب پیتے جیسے وہ ’کاکولا‘ (کوکا کولا) ’سیفن اب‘ اور ’بے بسی‘ کہتے تھے۔ کبھی کبھی خاص طور پر گرمیوں کے دنوں میں دن اتنا آہستہ گزرتا کہ گاؤں کے نوجوان ابو سعید (جو کہ ایک طے شدہ کنوارا تھا اور عملا ابو رجا کی دکان میں ہی رہتا تھا) کے پیچھے پڑ جاتے۔ وہ اسے چھیڑتے کہ جب سے اسے زیتون کا تیل نکالنے والے شکنجے کے پیچھے ایک کنواری دوشیزہ ملی تھی اس نے داڑھی بنائے بغیر اور ننگے پاوں وہاں جانا شروع کر دیا تھا۔

تیلیفون کی آمد خود میرے لیے بھی بری خبر ثابت ہوئی۔ اس کی وجہ سے مجھے اپنے ایک عمدہ کاروبار اورذریعہ آمدنی سے محروم ہونا پڑا۔ اس سے پہلے میں زیادہ تر ام کلیم کے گھر کے آس پاس منڈلاتا رہتا تھا اور دوسرے لڑکوں کے ساتھ کنچے کھیلتا رہتا تھا۔ میں منتظر رہتا کہ کوئی آدمی مجھے کھڑکی سے پکارے اور کہے کہ بھاگ کر جاؤ سگرٹ لے آو یا پھر میرے ہاتھ اپنی بیوی کے لیے پیغام بھجواتا کہ اسے رات کے کھانے میں کیا چاہیے۔ ان کاموں کے عوض مجھے ہمیشہ کچھ نہ کچھ مل جاتا تھا کبھی دس پیسے کبھی پچیس بھی۔ ایک اچھے دن میں میں اس طرح کے نو یا دس کام کر لیتا تھا اور یوں میں اپنے لیے کنچے خریدنے کا سلسلہ جاری رکھ سکتا تھا جو میں اکثر سمیع یا اس کے عم زاد ہانی سے ہار جایا کرتا تھا۔

مگر پھر یوں ہوا کہ جیسے جیسے دن گزرتے گئے ام کلیم کے گھر جمع ہونے والے مردوں کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی گئی اور زیادہ سے زیادہ لوگ ابو رجا کی دکان میں جمع ہونے لگے۔ ان کا مقصد صرف ٹیلی فون کے لیے اپنی باری کا انتظارکرنا ہوتا تھا۔ اب شام کے بعد ام کلیم کے گھر کی کھڑکی سے روشنی نیچے گلی میں نہیں گرتی تھی۔ آدمیوں کا شور اور قہقہے گھتٹے گھٹتے آخر بالکل ختم ہو گئے۔ ریٹائرڈ ڈرل ماسٹر شکری البتہ تمام مردوں کے ساتھ چھوڑ جانے کے بعد بھی ام کلیم سے اسی طرح وفا نبھاتا رہا۔

وہ اب بھی اس کے گھر میں جاتا اور وہاں سے نکلتا ہوا دیکھا جا سکتا تھا۔ موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہے ام کلیم کے سیاہ بال اچانک سرمئی پڑگئے۔ وہ یک دم بہت بیمار اور کمزور دکھنے لگی۔ پھر اس کی ٹانگوں نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا اور اس کے لیے چلنا پھرنا بھی دوبھر ہو گیا۔ اگلے موسم بہار تک اس کی حالت اتنی خراب ہو گئی کہ وہ اب شاذ ہی کبھی گھر سے نکلتی تھی۔

اور پھر جیسا کہ امید تھی ابو رجا کی دکان پر فون کالز آنے لگیں اور آدمی اورعورتیں اس طرح گاؤں چھوڑنے لگے جیسے زالہ باری ہوتی ہے۔ پہلے ایک دو اور پھر جتھے کے جتھے۔ کچھ کو فوج والے لے گئے اور کچھ کو شہر کی نوکریوں نے لبھا لیا۔ بحری جہاز اور ہوائی جہاز ان کو اتنی اتنی دور لے گئے جیسا کہ آسٹریلیا نیوزی لینڈ اور برازیل۔

میرا دوست کمیل، اس کا عم زاد حبیب آگے اس کے عم زاد اور میرے عم زاد سب چلے گئے کوئی خندقیں کھودنے کا کام کرنے کوئی مستری بننے کوئی کسی قصائی کا شاگرد ہونے اور کوئی ٹھیلا لگانے۔ وہ وہاں پر گندے ایپرن باندھ کر دن میں سولہ سولہ گھنٹے کام کرتے اور اس سے بہتر زندگی کی تلاش کرتے جو وہ پیچھے چھوڑ کر آئے تھے۔ ایک سال کے اندر اندر مغدلونہ میں صرف بیمار بوڑھے یا لنجے ہی رہ گئے۔ ماضی کے مغدلونہ کا اب صرف ڈھانچا باقی رہ گیا تھا۔ بالکل خانماں برباد اور ویران۔ کسی مزار کی مانند۔ یہ اب ایک ایسی جگہ بن گئی تھی جہاں سے آدمی کو بھاگ جانا چاہیے۔

آخرش یہ ٹیلی فون میرے خاندان کو بھی مغدلونہ سے دور لے گیا۔ میرے ابا کو ان کے ایک پرانے دوست نے فون کر کے بتایا کہ جنوبی لبنان میں ایک تیل کمپنی کو مترجمین اور زبان سکھانے والے اساتذہ کی ضرورت تھی۔ میرے ابا نے نوکری کی درخواست دی جو ان کو مل گئی۔ ہم صیدون منتقل ہو گئے جہاں میں نے ایک پریسبٹیرین مشنری سکول میں داخلہ لے لیا اور 1962 میں وہاں سے تعلیم مکمل کی۔ تین سال بعد وظیفہ ملنے پر میں لبنان سے امریکہ چلا آیا۔ مجھ سے پہلے مغدلونہ سے نکلنے والے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی آج تک ’بہتر زندگی‘ کی تلاش میں ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3