بوہیمین رہیپسوڈی اور زندگی کی کامیابیاں و ناکامیاں


تھیوڈور روزاویلٹ نے کہا کہ ”ناقد وہ نہیں جس کو اصل اہمیت ملنی چاہیے، جو بتاتا ہے کہ کس طرح‌ ایک مضبوط آدمی پھسل گیا یا کاریگروں ‌ کو اپنا کام اور بہتر طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کریڈٹ تو اس شخص کو ملنا چاہیے جو میدان میں ‌ اترتا ہے، جس کا چہرہ خون اور بہتے پسینے سے تر ہوتا ہے، جو کوشش کرتا ہے، غلطیاں کرتا ہے لیکن سامنے آتا ہے۔ “

آج کا مضمون ان تمام خوفناک بیماریوں ‌ کے بارے میں ہے جن سے آپ کی بھیانک موت واقع ہوسکتی ہے۔ جسٹ کڈنگ!

آج کا مضمون مووی ”بوہیمین رہیپسوڈی“ کے بارے میں ‌ ہے جو میں ‌ نے پچھلے ہفتے دیکھی۔ یہ مووی کوئین بینڈ کے لیڈ سنگر فریڈی مرکیوری کی زندگی اور ان کے بینڈ کی کامیابی کے بارے میں ہے۔ ”بوہیمین رہیپسوڈی“ گانا برطانوی راک بینڈ کوئین نے 1974 میں ‌ ریلیز کیا تھا۔ یہ اس بینڈ کا مقبول ترین گانا ہے۔ یہ بات بہت سے لوگ نہیں ‌ جانتے تھے فریڈی مرکیوری کا اصلی نام فاروق بلسارا تھا اور وہ تنزانیہ کے ا‌یک جزیرے پر ایک پارسی گھرانے میں ‌ پیدا ہوئے تھے۔ زینجیبار میں ‌ 1964 کے انقلاب کے بعد ان کے خاندان کو انڈیا ہجرت کرنا پڑی جہاں ‌ ان کے والد نے ان کو ایک اچھا پارسی لڑکا بنانے کے لیے بمبئی کے باہر سینٹ پیٹرزبرگ بورڈنگ اسکول میں ‌ داخل کروادیا۔ اسکول میں ‌ ان کو فریڈی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

فاروق بلسارا کے سامنے کے دانت بڑے تھے جس کی وجہ سے اسکول میں ‌ بچے ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ عام افراد کے برعکس وہ دو مزید دانتوں ‌ کے ساتھ پیدا ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کے منہ میں ‌ آواز کے لیے زیادہ جگہ تھی جو ان کی گلوکاری میں ‌ مددگار تھی جس کی وجہ سے انہوں ‌ نے لوگوں ‌ کے مذاق بنانے کے باوجود کبھی اپنے دانت ٹھیک نہیں کرائے۔ سفر، ہجرت اور حالات نے فاروق بلسارا کو لندن پہنچادیا جہاں ‌ وہ اپنے ماں، باپ اور ایک بہن کے ساتھ رہتے تھے۔

فاروق بلسارا کو موسیقی سے لگاؤتھا اور اپنے سفر کی بدولت زندگی میں ‌ ان کا مختلف اقسام کی موسیقی سے تعارف ہوا۔ برطانیہ میں ‌ اعلیٰ‌ تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہ ایک بینڈ کا حصہ بن گئے جس کو آگے جا کر کوئین کے نام سے پکارا گیا۔ فریڈی مرکیوری کے منفرد پس منظر نے ان کے بینڈ کی کامیابی میں ‌ کلیدی کردار ادا کیا۔ بوہیمین رہیپسوڈی گانے میں ‌ فریڈی مرکیوری نے جو شاعری پیش کی اس میں ‌ ایسے الفاظ شامل تھے جنہیں کافی لوگ نہیں جانتے تھے جیسا کہ بسم اللہ یا گیلیلیو۔

اس بات نے کافی لوگوں کو متاثر کیا کہ وہ کچھ نیا سن رہے تھے اور اس سے سیکھ رہے تھے۔ اصرار کے باوجود فریڈی مرکیوری نے اس شاعری کو اپنے معنی پہنانے یا سمجھانے سے انکار کردیا۔ انہوں ‌ نے کہا کہ یہ سننے والوں ‌ پر مبنی ہے کہ وہ اس میں ‌ اپنی زندگی کا عکس تلاش کریں۔ اس طرح‌ بوہیمین رہیپسوڈی ایک تجریدی آرٹ کا نمونہ بن گیا جس پر پڑنے والی ہر نظر کے لیے اس میں ‌ نئے معنی ہیں اور اس کی ممکنات لامتناہی ہیں۔

”بوہیمین رہیپسوڈی“ چھ منٹ لمبا ہے۔ 1970 س زیادہ تر گانے ریڈیو پر تقریباً تین منٹ کی طوالت رکھتے تھے اور یہ معمول سے ہٹ کر بات تھی کہ اتنا لمبا گانا چلایا جائے۔ توجہ سے سنا جائے تو بوہیمین رہیپسوڈی ایک گانا نہیں بلکہ پانچ چھ مختصر گانوں کا ایک خوبصورت اور منفرد مرکب ہے جس میں ‌ مختلف اقسام کی موسیقی، اوپرا، سولو گٹار، راک اور بیلاڈ شامل ہیں۔ یہ حیرانی کی بات نہیں ‌ کہ اس نے موسیقی کی دنیا کو چونکا دیا تھا۔

پاکستانی بینڈ جنون نے راک میوزک اور صوفیانہ کے ملاپ سے گانا سیونی تخلیق کیا جو 1997 میں ‌ ریلیز کیا گیا تھا۔ ان فنکاروں نے اپنی زندگیوں میں ‌ جھانکا اور علاقائی روایتی موسیقی کو جدید موسیقی کے ساتھ خوبصورت اور منفرد انداز میں ‌ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کو بین الاقوامی سطح پر توقعات سے بڑھ کر کامیابی ملی۔ پچھلے سال میں ‌ اور میرے بھائی علی ڈیلاس میں ‌ ہونے والے ارجیت سنگھ کے کنسرٹ میں ‌ گئے تھے جہاں ‌ اس نے سیونی گایا تو تمام مجمع اس کے ساتھ شامل ہوگیا۔ یہ فن پارہ آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جتنا دو دہائیوں ‌ پہلے تھا۔

ہندوستانی فلم تہذیب ایک موسیقارہ کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جن کی کامیابی اور اپنی ناکامی، ان کے شوہر کو خود کشی پر مجبور کردیتی ہے۔ ان کی بڑی بیٹی سمجھتی ہے کہ ماں نے باپ کو قتل کردیا ہے۔ وہ اپنی ماں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتی ہے۔ کئی سال کے بعد ان کی بیٹی کو یہ بات سمجھ آئی کہ اصلی قصہ کیا تھا۔ یہ بات کافی عام ہے کہ جو خواتین زیادہ پڑھی لکھی ہوں ‌، کامیاب ہوں یا مقبول ہوں ‌ تو ان کی شادیاں ‌ ختم ہوجاتی ہیں۔

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ان کے شوہر ان کو بار بار اپنے لیول پر نیچے اور پیچھے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اب یہ ممکن نہیں رہتا۔ ایک مرتبہ ایک انسان کا آسمان بڑا ہوجائے تو وہ پھر نہیں سکڑ سکتا۔ اس بات کا لوگوں کو شعوری طور پر کبھی کبھار علم بھی نہیں ہوتا کیونکہ جو بات ہم نہیں جانتے، ہمیں ‌ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہے جو ہم نہیں جانتے۔ یہ بات ہر دن کے ہر کام میں ‌ رکاوٹ بننے لگتی ہے۔ کسی ڈاکیومینٹری پر تبصرہ ہو، یا دوستوں کے حلقے میں ‌ کسی نئی ایجاد پر بات ہورہی ہو یا بچے پالنے کے طریقے زیر بحث ہوں، ایک آدمی کے لیے یہ برداشت کرنا نہایت مشکل ہوجاتا ہے کہ ہر نقطے کو ثابت کرنے کے لیے اس کی بیوی ایک کتاب یا تحقیق کا حوالہ دے سکتی ہے یا دوسرے لوگ اس کو زیادہ پسند کررہے ہیں۔

روی شنکر کے حسد نے اسی طرح‌ اپنی بیوی کا کیریر تباہ کردیا تھا۔ اس موسیقارہ کی بیٹی ان کا ایک گانا گانے کی کوشش کرتی ہے لیکن نہیں گا پاتی۔ پھر وہ گا کرسناتی ہیں لیکن اس سے پہلے انہوں ‌ نے ایک دانائی سے بھرپور جملہ کہا جو کہ یوں ‌ ہے۔ ”گانا صرف سر و تال سے نہیں ‌ بنتا بچے! اس کو دل سے محسوس کرو تب کہیں جاکر لفظوں میں ‌ سروں کا دل دھڑکتا ہے۔ “ فریڈی مرکیوری کی زندگی میں ‌ بہت سی مشکلات تھیں۔ وہ برطانیہ میں ‌ ایک مہاجر تھے، وہ بائی سیکچوئل تھے یعنی ان کو جنسی طور پر خواتین اور مردوں ‌ دونوں میں دلچسپی تھی اور ان کو ایچ آئی وی کی انفکشن بھی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔ وہ نڈر اور بے خوف تھے۔

یہ بات کافی لوگ کئی طرح‌ کہہ چکے ہیں۔ کامیابی سفر ہے منزل نہیں اور یہ بھی کہ منزل سے زیادہ تلاش منزل اہم ہے۔ میں ‌ نے خود اپنی زندگی میں ‌ کافی سارے اداروں ‌ میں ‌ پڑھا اور کافی سارے امتحان دیے۔ ہر بڑے امتحان کو پاس کرنے کے بعد ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ کی زندگی کا مقصد ختم ہوگیا ہو۔ اسی لیے اپنے سامنے ہمیشہ ایک اور گول رکھنا چاہیے۔ فن کار اپنی زندگی کا کافی وقت اپنے فن کو بہتر بنانے پر خرچ کرتے ہیں جن میں ‌ ان کی شخصیت اور توانائی کا سرمایہ شامل ہوتا ہے۔

اگر ان کا فن پارہ قبول نہ ہو یا ان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑے تو وہ یہ تنقید اپنے کام پر نہیں ‌ بلکہ خود پر محسوس کرتے ہیں۔ کافی لوگ ہمت ہار دیتے ہیں یا ان پراجیکٹس پر کام کرتے ہیں جن میں ‌ ان کا دل نہ ہو لیکن ان کی کامیابی یقینی ہو۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فن تخلیق کرنے کا تعلق اس کی مقبولیت یا کامیابی سے ہی نہیں ہے بلکہ اس کو فنکار کے حقیقی جذبات اور احساسات کا آئینہ ہونا چاہیے۔

فریڈی مرکیوری کے بوہیمین رہیپسوڈی، جنون کے سیونی اور پنک فلوئڈ کے کمفرٹبلی نمب کی مثالوں سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہمارے اندر اپنے آپ کو قبول کرلینے اور خود کو اپنی مخلص شکل میں ‌ دنیا کے سامنے پیش کرنے کا نام ہی آرٹ کی تخلیق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).