کوکھ کی چوٹ


”بیٹا شادی کے پہلے ہفتے سے مجھے ستایا گیا بات بات پہ! مارا گیا ہر جگہ پر، ہر جگہ درد ہے بیٹا ہر جگہ درد، کہاں کہاں کہاں دباؤ گی، کدھر کدھر سہلاؤ گی۔ “ میں نے محسوس کیا کہ ان کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔

” باقر میرا پہلا بچّہ تھا۔ تم نے پوچھا تھا نا ایک دن کہ میں کیوں اس کی طرفداری کرتی ہوں، اسے کچھ نہیں کہتی ہوں۔ سب کہتے ہیں میں جانبدار ہوں اس کی۔ اس کا کچھ بُرا نہیں لگتا مجھے۔ کیسے لگتا، کیسے لگتا۔ وہ میرا باقر پھولوں جیسا۔ اس کی حفاظت نہیں کی میں نے۔ ساجد کو بچایا، عامر کو بچایا، تمہیں بچایا اپنے شانوں پر چوٹ کھائی، اپنے بازوؤں کو سامنے کردیا، اپنے ہاتھوں کو ڈھال بنادیا، اپنی انگلیاں تڑوا ڈالیں اپنے شانے چھلوا دیے، نہ جانے کیا کیا ٹوٹا میرا، میں کسی ڈاکٹر کے علاج کے بغیر تم تینوں کو بچاتی رہی لیکن اس نے تو مارکھائی پیدا ہونے سے پہلے میری کوکھ کے اندر، میرے جسم کے اندر، میں اسے بچا نہیں سکی۔ “ یہ کہہ کر وہ کچھ سوچنے لگی تھیں۔

میں نے زور سے ان کے مڑے تڑے ہاتھوں کو دبایا، بھینچا اور آہستہ آہستہ انہیں کبھی چومتی رہی، کبھی سہلاتی رہی۔ اتنی بے قرار انگلیاں پہلی دفعہ محسوس کی تھیں میں نے۔

”بیٹا یہ جو باقر تھا میری کوکھ میں تو میرے شوہر نے کرکٹ کے بلّے سے میرے پیٹ پر مارا تھا بالکل وہاں پر جہاں اس کا چہرہ تھا، چھاتی تھی، سر تھا گردن تھی وہ پیدائشی نشان مستقل درد دیتے ہوں گے میرے بچّے کو۔ بیٹے سارے حمل کے دوران میں پٹتی رہی۔ لاتوں سے، گھونسوں سے۔ کبھی پلنگ پر لٹا کر کبھی زمین پر گراکر۔ نہ جانے کیوں حمل کی خبر کے بعد سے انہوں نے، میرے شوہر نے میری زندگی کو لہولہان کرکے رکھ دیا تھا۔ میں جوان تھی بالکل کسی کونپل کی طرح سادہ، تمہاری طرح معصوم کچھ کرنہ سکی کچھ کہہ نہ سکی وہ مجھے مارتا رہا اور ساتھ ساتھ میرے کوکھ کے اندر باقر بھی پٹتا رہا، چوٹ کھاتا رہا، شاید روتا بھی ہوگا مگر میں ناکام ہوگئی اسے بچانے میں۔

اپنی کوکھ میں حفاظت نہیں کرسکی اُس کی۔ وہ درد لیے لیے گھومتا رہا کبھی گھر میں، کبھی گھر کے باہر، یہاں تک کے پھانسی پر چڑھ گیا میرا لعل۔ اس کے بعد پھر میں بیوی نہیں تھی رکھیل تھی، میری پامالی ہوتی رہی، بلادکار کرتا رہا میرا شوہر۔ پر میں نے سب کچھ اپنے پر سہا، تم تینوں کو بچاتی رہی اس سے۔ کوکھ سے گھر تک اپنے ہاتھوں کوڈھال بنا کر، اپنے جسم کو پامال کرا کر اس کے مرنے کی دُعائیں کرتی رہی رو رو کر اور میرا باقر درد کے داغ لیے درد اٹھاتا رہا۔ درد سہتا رہا، اپنے زخمی جسم کے ایک ایک اَنگ سے اُٹھتی ہوئی ٹیسوں کو جھیلتا رہا۔ اب وہ نہیں ہے، صرف درد ہے، بیٹا بہت درد ہے۔

میں اپنا سر ان کے چھاتیوں پر رکھ کر بے قرار ہوکر رودی۔ مجھے پہلی دفعہ پتہ لگا کہ میری ماں کی انگلیاں ٹیڑھی کیوں ہیں ان کے کاندھے ڈھلے ہوئے ہیں، کیونکہ انہیں میرے باپ نے تشدد کرکے توڑا تھا پھر وہ صحیح طریقے سے جُڑ ے ہی نہیں، ہماری پھول جیسی ماں کو کچلا گیا، توڑا گیا، مروڑا گیا، میرے باپ کا ہر ظلم وہ سہتی رہیں، اپنے جسم کو قربان کرکے اپنے آپ کا بلیدان کرکے ہمیں بچاتی رہیں۔ حفاظت کی ہماری۔ کوکھ کے اندر بھی کوکھ سے باہر بھی۔ وہ شخص جو ہمارا باپ تھا وہ میری پر جسمانی تشدد کرتا رہا۔ انہوں نے ڈھال بن کر ہمیں بچایا اور اپنا سب کچھ توڑ بیٹھیں۔ اگلے تین دن میری آنکھوں سے آنسو بہتے رہے اور ایک صبح وہ خاموشی سے ہمیں چھوڑگئیں، باقر بھیا کا، ہمارا اپنا درد لیے، ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔

اب امی کو گئے ہوئے سال ہونے کو آگیا ہے، ابھی بھی کبھی کبھی رات گئے خواب میں وہ مجھے نظر آتی ہیں۔ اک کمرے کے کونے میں دیوار سے لگی ہوئی اپنے ہاتھوں، بازوؤں، شانوں پر ڈنڈے کھاتی ہوئی اپنی انگلیوں، ہتھیلیوں سے انہیں روکتی ہوئی، اپنے کوکھ میں موجود مجھے بچاتی ہوئی، ڈھال بن کر شانے تڑا کر، انگلیاں بکھری ہوئی، خون میں نہائی ہوئی میں جاگ جاتی ہوں، ماں، میری ماں کتنے دکھ اٹھائے تو نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3