کیا جناح 1938 کے شیعہ سنی ٹکراؤ پر خاموش تماشائی تھے؟


مسلکی انتشار کے باب میں بھارت میں شیعہ سنی ٹکراؤ کی تاریخ بہت دلچسپ اور قابل توجہ ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب محرم کے دوران لکھنؤ میں شیعہ سنی کشیدگی کی خبریں آتی تھیں۔ لکھنؤ کے اس شیعہ سنی ٹکراؤ کی تاریخ تقریبا 80 برس سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ 1938 اور 1939 کا وہ دور یاد کیجئے جب لکھنؤ میں شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے تھے۔ یہ محض ایک شہر کے مسلمانوں کا مسلکی جھگڑا نہیں تھا بلکہ اس کے اثرات پورے ریاستہائے متحدہ میں دیکھے گئے اور بڑھتے بڑھتے بات شمالی بھارت کے زیادہ تر حصوں تک پھیل گئی۔

ایمون مرفی نے اپنی کتاب اسلام اینڈ سیکٹیرین وائلنس ان پاکستان:دی ٹیرر ود ان میں اس دور کے مسلکی ٹکراؤ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس روداد کو پڑھ کر دو باتیں حیران کرتی ہیں۔ پہلی بات مسلمانوں کا آپس میں دست و گریباں ہو جانا وہ بھی ایسی بات پر صرف تنازعہ پیدا کرنے کے لئے ہی کھڑی کی گئی۔ دوسری حیران کن بات مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرنے والے کچھ افراد کا عجیب رویہ تھی۔ ان دونوں باتوں کا تجزیہ کریں تو بہت سی چیزیں واضح ہوتی ہیں۔

اس دور کے مسلکی ٹکراؤ کی تفصیل میں جائیے تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ کس طرح صرف اختلاف برائے اختلاف کرکے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا گیا۔ ایک دوسرے کی ضد اور مخالفت میں دھماکہ خیز حالات بنا دیے گئے۔ 1938 اور 1939 میں یہ پورا جھگڑا تبرہ پڑھنے اور چار یار تحریک کی شکل میں ظاہر ہوا۔ ایک مسلک مدح صحابہ پر اڑ گیا اور دوسرا تبرہ پڑھنے پر۔ یہاں تبرہ اور مدح صحابہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے جواب کے طور پر اپنائی جا رہی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی جذبات سے زیادہ یہاں ضد، انانیت اور شناخت کا جذبہ کارفرما تھا۔

اس پورے معاملہ میں دو باتیں تعجب میں ڈال دیتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ دونوں ہی فریقوں کی قیادت علماء اور سرکردہ افراد پر مشتمل تھی۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ ایسے نازک حالات میں ان علماء اور سرکردہ افراد سے ہی امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے مسلک کے مشتعل افراد کو ٹھنڈا کریں گے لیکن یہاں معاملہ الٹ گیا۔ اسی مرحلے پر وضاحت کر دی جائے کہ دونوں مسالک کے کچھ علماء اور سرکردہ افراد نے مصالحت کی کوشش کی لیکن یہ کوششیں اس لئے ثمرآور نہیں ہو سکیں کہ ان سے بڑے علماء اور سرکردہ افراد متصادم گروہوں کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔

دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ آخر تک دونوں میں سے کسی بھی فریق نے قوم میں برپا انتشار ختم کرنے کی خاطر اپنے قدم واپس کھینچنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ تو کہئے کہ ملک میں سیاسی حالات اس طرح کے بن گئے جس سے یہ فریقین کی توجہ دوسری طرف ہو گئی۔ اگر حالات نہ بدلتے تو شاید یہ ٹکراؤ کسی بہت بڑے فساد پر ختم ہوتا۔

فریقین نے معاملہ کو کس طرح ناک کا سوال بنا لیا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ دونوں نے تبرہ یا مدح صحابہ کے لئے محرم کا ہی موقع چنا۔ کئی علماء کی تقریریں آگ پر پانی کے بجائے پیٹرول بن کر گریں۔ لکھنؤ کے آس پاس کے علاقوں میں دونوں مسلکوں کے درمیان کشیدگی کی کھائی چوڑی ہی ہوتی گئی۔ ریاست کے دیگر حصوں تک بھی اس کی آنچ جا پہنچی۔ حالات تھے کہ خراب سے خراب تر ہوتے گئے اور ضد تھی کہ ٹوٹنے کا نام نہ لیتی تھی۔

ہم اس بحث میں نہیں جاتے کہ فریقین میں کس کا موقف درست تھا اور کس کا غلط لیکن اس رائے کو قائم کرنے کے لئے ہم یقیناً حق بجانب ہیں کہ دونوں ہی فریقوں کا رویہ قطعی غیر ذمہ دارانہ تھا۔ کاش دونوں میں سے کوئی ایک فریق آگے بڑھ کر کہتا کہ بھلے ہی ہمارا موقف صحیح ہے لیکن ہم قوم کو انتشار سے نکالنے کے لئے اپنے قدم واپس کھینچتے ہیں۔

فریقین کے لیڈروں سے زیادہ تعجب خیز رویہ ایسے سرکردہ افراد اور عناصر کی خاموشی تھی جو حالات کی نزاکت کو سمجھ کر بھی مصلحت پسندی سے کام لے رہے تھے۔ ایمن مرفی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ حالات کی سنگینی سے مسلم لیگ کی قیادت بشمول محمد علی جناح پوری طرح باخبر تھے لیکن نہ تو جناح اور نہ ہی لیگ کے کسی اور سرکردہ لیڈر نے مداخلت کرکے حالات سنبھالنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ مسلم لیگ کو امید تھی کہ اس پورے تنازعہ سے مسلمانوں میں یہ پیغام جا رہا ہے کہ کانگریس انہیں تقسیم کر رہی ہے۔

ایمن مرفی کے مطابق لیگ کی خواہش تھی کہ یہ تاثر مزید مضبوط ہو تاکہ مسلمانوں کا ممکنہ کانگریس حامی طبقہ بھی ٹوٹ کر اس کی طرف آ جائے۔ بہت سے سرکردہ افراد نے جناح اور لیگ کے دوسرے لیڈروں سے گذارش کی کہ وہ اپنے اثرات کا استعمال کرکے اس معاملے کو ختم کرائیں لیکن جناح نے ایسا نہیں کیا۔ جناح کا سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے رہنا صرف اس مصلحت سے تھا کہ اگر وہ اس معاملہ میں پڑے تو ممکن ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کی حمایت سے لیگ کو ہاتھ دھونا پڑ جائے۔

مسلم لیگ کا یہ رویہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کے ارباب حل و عقد ہونے کا دعویٰ کرنے والے اکثر کس طرح کا رویہ اختیار کرتے رہیں ہیں۔ غور کیا آپ نے کہ با اثر علماء کا ایک طبقہ فریقین کی قیادت میں مصروف ہے اور وہ طبقہ جو فریق نہیں ہے اور اثر بھی رکھتا ہے اس کے پیروں میں مصلحت کی زنجیر ہے۔ ایسے میں حیرانی نہیں ہوتی کہ مسلمانوں میں مسلکی انتشار کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔

اب تک کی گفتگو کو پیش نظر رکھ کر ذرا اپنے آس پاس ایک نظر دوڑا لیجیے۔ کیا اب حالات بدل گئے ہیں؟ کیا آج بھی مسلکی انتشار اسی شدت سے نہیں پایا جاتا؟ کیا مختلف مسالک کے جوشیلے طبقات کی قیادت کرنے والوں میں بہت سے علماء، خطیب اور ذاکر نہیں ہیں؟ کیا آج بھی صرف انانیت اور ضد کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیزی نہیں ہوتی؟ کیا آج بھی ایسے بہت سے با اثر عناصر نہیں ہیں جو چاہیں تو مسلکی انتشار کو کم کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن وہ غیر جانبداری کی دہائی دے کر خاموش ہیں۔ اپنے گاؤں، شہر اور محلے میں، اپنی مسجدوں میں، مجلسوں میں، بیٹھکوں میں دوسرے مسلک کے بارے میں الزام تراشی آپ نے نہیں سنی؟ اگر نہیں سنی تو آپ بہت خوش نصیب بھی ہیں اور نایاب بھی، اور اگر سنی ہے تو آپ کس مصلحت کے سبب چپ رہتے ہیں؟

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments