رمضان  المبارک میں بھی نفرت کی پکار


\"aqdasامجد صابری صاحب کو کل شہید کر دیا گیا ۔ ارے ٹھہرو !  کیا مطلب تمہارا ؟ شہید کر دیا۔ لو خوامخواہ کے شہید- وہ ہلاک ہوئے ہیں ،شہید نہیں۔دیکھو دکھ ہمیں بھی ہے ان کے مرنے کا ، مگر شہید تو نہ کہو نا۔

وہ جو اللہ کی حمد بیان کرتا تھا

وہ جورسول اللہ ﷺ کی شان میں قصیدے پڑھتا تھا

وہ جو اہل بیت کی مدح سرائی کرتا نہ تھکتا تھا

وہ جوقلندر پاک کی نوبت پر جھوم اٹھتا تھا

وہ جو گولیوں کی بوچھاڑ میں ظا لموں کو  کہہ رہا تھا کہ مجھے مت مارو!

مجھےمت مارو ظالمو! میرے چھو ٹے چھوٹے بچے ہیں !

وہ ثناء خوان محمد عربی ﷺ، وہ علی رضی اللہ عنہ  کا ماننے والا، وہ جس کے بچے اس کا انتظار کر رہے تھے، وہ جس کو مسکراتے ہو ئے گھر لوٹ کر آنا تھا، وہ جواچانک ناحق مارا گیا ،  وہ شہید نہیں ہے۔ ہمارے بچوں کو مارنے والے، ہماری ماؤں بہنوں کو مارنے والے شہید، ہمیں جوان لاشوں کا تحفہ دینے والے شہید،  لیکن امجد صابری شہید نہیں ہو سکتا۔ شہداءِ کربلا کا مرثیہ پڑھنے والا شہید نہیں ہو سکتا۔

پنجابی میں کہتے ہیں \”ذات دی کوڑھ  کرلی ، تے شہتیراں نوں جپھے\”(چھوٹی ذات کا ہو کر کسی بڑے رتبے کی خواہش کرنا) ، ذات کا مراثی اور شہادت کا رتبہ۔ نہ جی ہم یہ نہیں ہونے دیں گے۔ ہم بے گناہ لوگوں کو مرنے دیں گے، ہم تعصب پھیلائیں گے، مگر مراثی کو شہید نہیں بننے دیں گے۔

یہی وہ سوچ ہے جو معاشرے میں عدم تعاون ، بدامنی اور نفرت کو ہوا دیتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے متاثر ہو کر کسی قاتل میں اتنی ہمت آتی ہے کہ کسی بے گناہ کو قتل کرنے کے لیے وہ ٹریگردبا سکے۔ میں سوچتی تھی کہ کوئی اتنا ظلم کیسے کر سکتا ہے، کوئی انسان کی جان کیسے لے سکتا ہے، کوئی  بچوں کے سروں پر بندوق رکھ کر فائر کیسےکر سکتا ہے، کوئی امجد صابری جیسے بے ضرر انسان کی جان کیسے لے سکتا ہے؟

اس  کے بہت سے عوامل ہیں اور ان میں سے ایک ہے نفرت – کچھ عناصر اس نفرت اور غصے کو اپنے مذموم  مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگوں کے دلوں میں نفرت اور غصے کی چنگاری کوبھڑکتےہوئے الاؤ میں تبدیل کر دیتے ہیں اور اسی آگ میں جل کر ہمارا معاشرہ خاکستر ہو جاتا ہے۔

جہاں دہشت گرد اور  فرقہ پرست مولوی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ وہ معاشرے میں ہیجان پیدا کرتے ہیں وہیں میڈیا بھی نفرت پھیلانے  میں اپنا کردار بخوبی ادا کرتا ہے۔ہوا یوں کہ ایک نجی ٹی وی چینل نے ایک قوالی چلائی -کچھ ٹی وی  چینلز اور اینکر حضرات نےذاتی عناد اور مقابلے میں اس پر انتہائی کڑی تنقید کی  اور توہین رسالت کا واویلا مچانا شروع کر دیا۔بلاشبہ جس انداز میں اسے پیش کیا وہ قابل اعتراض تھا مگر ذمہ داری کا تقاضا تھا کہ اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی جاتی  ، نہ کہ اسے مزید ہوا دی جاتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کئی لوگوں پر توہین رسالت کے فتوے لگے، کچھ لوگوں کو اپنی جان بچا کر ملک سے بھاگنا پڑا، کچھ کوپاکستان میں رہتے ہوئے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی ضمن میں امجد صابری صاحب کا نام بھی سامنے آیا کیونکہ یہ قوالی یا سہرا  ان ہی کی آواز کی بدولت مشہور ہوا تھا۔ اس وقت  سے ہی امجد صابری کی جان کو خطرہ تھا۔ ان پر اب تک تین قاتلانہ حملے کیے جا چکے ہیں، جن میں سے دو  ناکام رہے ، مگر تیسرا اپنا کام کر گیا۔ ضروری نہیں ہے کہ صابری صاحب کو اسی وجہ سے قتل کیا گیا ہو، مگر اس امکان کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا کہ چند  لوگوں  یا   قوتوں کی  آپس کی مخاصمت کی وجہ سے ان پر توہین رسالت کا الزام لگا۔

 کسی بھی قسم کے نفرت انگیز مواد   کو چھاپنے ، پھیلانے اور تقریر پر نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے پابندی عائد کی گئی تھی۔ مگر کہیں پر بھی اس پر عمل درآمد نظر نہیں آتا۔ میں خود کراچی میں رہتی ہوں اور  جب سے رمضان کا آغاز ہوا تب سے ہی ہمارے گھر کے قریب ایک  فرقہ پرست مسجد سے  ایسی ایسی باتیں سننے کو ملیں کہ اللہ کی پناہ۔ مولانا   موصوف لاؤڈ اسپیکر پر دھڑلے سے فرقہ واریت پھیلانے میں مشغول تھے۔ سحر اور افطار ایک عذاب بنا ڈالا تھا۔ قاتلوں کی حمایت ، شیعہ  ، سلفی اور دیوبندی کو گالیاں، احمدیوں کے خلاف زہر اگلنا،  عوام کو علاقہ کی دوسری مسجدوں پرقبضہ کرنے پر اکسانا،  اختلاف کرنے والوں پر توہین کے فتوے ،  رمضان ٹرانسمیشن کرنے والوں کو گالیاں، یہ سب کچھ کئی  دن تک ہم سنتے رہے۔  اہل علاقہ نے درخواست کی کہ از راہ کرم لاؤڈ اسپیکر بند کر لیا کریں۔ نہ صرف یہ کہ آپ نفرت پھیلا رہے ہیں بلکہ لاؤڈ اسپیکرکی وجہ سے لوگوں کا سکون بھی برباد ہو رہا ہے۔  بجائے رکنے کے ان صاحب نے اگلے روز نصیحت کرنے والوں کو نہ صرف دھمکیاں دیں بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا کہ جو کرنا ہے کر لو، ایس ایچ او اور ایس ایس پی بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ پاس ہی رینجرز کی چھاؤنی ہے اور ان  کو آواز بھی جاتی ہو گی، مگر کسی نے بھی یہ سب روکنے کی کوشش نہیں کی۔  میں جس علاقےمیں رہائش پذیر ہوں، اب وہاں کے اسسٹنٹ کمشنر کی کوششوں سے پچھلے ایک ہفتے سے سکون ہے ، ورنہ اس نفرت کے پجاری  نے  اپنی فرقہ پرستانہ سوچ سے ماہ رحمت کو ماہ زحمت بنانے میں کوئی کسر باقی نہ تھی۔ اسسٹنٹ کمشنر نے کارروائی کی وگرنہ سب ادارے نفرت کی آگ سے جلتے شہر کے سامنے چین کی بانسری بجا رہے تھے۔

اگر کراچی شہر میں یہ حالات ہیں تو آپ اندازہ کیجئے کہ جہاں یہ عناصرطاقتور ہیں اور ان کو کھلی چھٹی ہے وہاں کیا صورتحال ہو گی۔ ان نفرت پھیلانے والوں کو لگتا ہے  ان گولیوں سے یہ اللہ اور رسول کی محبت  کے بیج بو رہے ہیں ، یا مسلمان ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں تو بیشک یہ گمراہ لوگ ہیں۔ جالب نے یہ کہا تھا کہ

محبت گولیوں سے بو ررہے ہو

وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے

یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

وہ جس کا چہرہ خون سے دھویا ہے، وہ صرف امجدصابری کا چہرہ نہیں تھا۔وہ میرے ملک کا چہرہ تھا۔وہ جو لال قلندر کی دھمال ڈالنے والا  ، لال لہو میں لت پت تھا، وہ ہمارے ملک کا لاشہ تھا۔ وہ جو امجد صابری کی آنکھوں میں آہستہ آہستہ تاریک ہو رہی تھی، وہ ہمارے ملک کی امید کی لو تھی۔ وہ جس نے اپنی زندگی کی بازی ہاری ہے وہ امجد صابری نہیں تھا، وہ ہمارا نیشنل ایکشن پلان تھا، وہ ہماری پولیس اور سکیورٹی اداروں کی رِٹ تھی۔ وہ جو تمہیں کہہ رہا تھا مت مارو، وہ صرف امجد صابری نہیں تھا ظالمو! وہ ہم سب تھے ۔ ہمیں مت مارو۔بند کرو اپنے اپنے ڈھونگ ، بند کرو یہ نفرت کی تجارت ۔

ہمارے ہاں موت بھی کاروبار بن گئی ہے۔ بیشک امجد صابری کے چاہنے والوں کو بہت صدمہ پہنچا  ہے، مگر کئی ایسے بھی ہیں جو ان کی موت کو بھی کیش کروا رہے ہیں۔ وہ سیاستدان جو اپنی دکان چمکانا چاہتے ہیں، وہ لوگ جو اس میں فرقہ واریت کا رنگ بھرنا چاہتے تھے۔

کچھ ٹی وی چینلز جو یہ بتا رہے رہے تھے کہ امجد صابری کے چچاکو ان کی موت کی خبر ہمارے چینل پر ملی، انہوں نے آخری کلام ہمارے  چینل پر پڑھا، جو مشہور شخصیات کےروتے ہوئے آڈیو بیپر بار بار چلا رہے تھے، یا وہ  جو  ان کے اہل خانہ سے یہ پوچھ رہے تھے کہ انہیں کیسا محسوس ہو رہا ہے۔  یہی ٹی وی چینلز کل کسی اور معاملے کو  ریٹنگ کی خاطر غلط رنگ دیں گے، کل کسی اور امجد صابری پر  الزامات لگیں گے اور پھر اس کے مرنے کی خبریں چلا کر یہ اور ریٹنگ لیں گے۔

امجد صابری کو ایک شخص نے نہیں مارا ہے۔ ان کی موت کے پیچھے یہ سب عوامل کارفرما ہیں۔ جب تک ان کا سدباب نہیں ہوگا، تب تک ہمیں ایسے کئی اور دکھ دیکھنے پڑیں گے ، یا شاید کوئی ہمیں مار دے اور ہم کسی اور دکھ دے کر چلے جائیں۔

علی کرم اللہ وجہہ  اور فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہاکی شادی کی خوشی منانے والے !    میں دعاگو ہوں کہ آپ جنت میں بھی جھوم جھوم کر پڑھیں کہ علی کے  ساتھ ہے زہرہ کی شادی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments