کرتار پور سے دہلی ہنوز دور است


پاکستان کی سول ملٹری قیادت مل کر کرتار پور کے راستے نئی دہلی اور اس کے مکینوں کے دلوں تک اترنا چاہتی ہے لیکن نارووال کےگردوارہ دربار صاحب کرتار پور سے بھارت کے ضلع گورداسپور میں ڈیرہ بابانانک تک راہداری کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھنے کے باوجود یہ معلوم ہوتا ہے کہ کرتار پور سے بھارتی سرحد تک سڑک بنانے یا زائرین کو کرتار پور میں گردوارہ دربار صاحب تک ویزا فری رسائی دینے کے باوجود اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان راستہ بہت طویل ہے۔ یہ فاصلہ یوں تو 688 کلو میٹر ہے جو جدید مواصلاتی دور میں کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن عملی طور سے سوچ اور نقطہ نظر کا فاصلہ کئی دہائیوں پر محیط اور جذبات کی متعدد منازل کی دوری پر ہے۔ انہیں پاٹنے کے لئے کرتار پور میں پاکستانی وزیر اعظم کا سنگ بنیاد رکھنا اور اس تقریب میں حکومت کے اہم وزرا کے علاوہ اعلیٰ فوجی قیادت کا موجود ہونا بھی اس سرد مہری کو ختم کرنے میں ناکام ہے جو دونوں ملکوں کے تعلقات پر حاوی ہے۔

پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں کرتار پور کی تقریب کے حوالے سے جوش و خروش اور امید کی جوت جگائی جارہی ہے لیکن بھارت اس تقریب یا راہداری کے حوالے سے پیدا ہونے والی امید کے چراغ کو لو دینے سے پہلے ہی گل کرنے کا اعلان کررہا ہے۔ اسلام آباد جب تک ان عوامل پر غور کرنے اور اس کے مطابق حکمت عملی بنانے کے کام کا آغاز نہیں کرے گا، اس وقت تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے نہایت جذباتی انداز میں محبت بھری باتیں کیں۔

حیرت انگیز طور پر انہوں نے بھارتی سکھوں کو رجھانے کے لئے گردوارہ دربار صاحب کو سکھوں کے لئے اتنا ہی اہم قرار دیا جو بقول ان کے مدینہ منورہ میں حضرت محمد کے روضہ اقدس کی مسلمانوں کے نزدیک اہمیت ہے۔ یہ مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ’ بھارت کے سکھ بھائیوں بہنوں کی گزشتہ ستر برس میں وہی حالت رہی ہے جو ایسی صورت میں مسلمانوں کو درپیش ہو کہ وہ مدینہ منورہ سے چار کلو میٹر دور ہوں لیکن انہیں اندر جانے کا موقع نہ ملتا ہو۔ پھر اچانک اجازت ملنے پر جو خوشی انہیں نصیب ہو گی، اسی کا پرتو میں آج دنیا بھر سے آئے ہوئے سکھ برادری کے لوگوں کے چہروں پر دیکھ سکتا ہوں‘۔ عمران خان نے وعدہ کیا کہ اب یہ فاصلہ مٹا دیا جائے گا۔ آئیندہ برس بابا گرونانک کی 550 برسی تک یہ راہداری مکمل کردی جائے تاکہ بھارت کے سکھ کسی تکلیف کے بغیر اس مقدس مقام کی زیارت کے لئے آسکیں۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اگست میں عمران خان کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کی تقریب میں بھارت سے آئے ہوئے سابق کرکٹر اور بھارتی پنجاب کے وزیر سیاحت نوجت سنگھ سدھو سے باتیں کرتے ہوئے کرتار پور میں گردوارہ دربار صاحب تک راستہ کھولنے کی پیشکش کی تھی۔ اس طرح موجودہ حکومت کے قائم ہونے سے پہلے ہی آرمی چیف خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک اہم پیشقدمی کا اعلان کر چکے تھے۔ کل کرتار پور میں راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان یا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس اقدام کا کریڈٹ لینے اور اسے حکومت کی کامیابی قرار دینے کی کوشش کی ہے تاہم اس کا کریڈٹ۔۔۔اگر اسے کریڈٹ سمجھا جاسکتا ہے یا یہ واقعہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔۔۔ تو اس کا سہرا بہرحال پاک فوج کے سربراہ کے سر ہی باندھا جائے گا۔

عمران خان نے کل کی گئی تقریر میں یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ستر برس میں پہلی بار ملک کی سول اور ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے ۔ اس لئے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بحال کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو سکتی۔ صاف ظاہر ہے کہ جب کوئی منتخب حکومت مستعار خارجہ پالیسی پر کاربند ہونا اعزاز سمجھے گی یا کسی بھی پیش رفت کے بارے میں جی ایچ کیو سے ہدایات لینا ضروری قرار پائے گا اور وزیر اعظم اس کا اعلان کرتے ہوئے کوئی شرمندگی محسوس نہ کرے تو اسے ایک پیج پر ہونا یا پالیسی معاملات میں اتفاق رائے نہیں کہا جاسکتا۔بلکہ فوج کی پالیسی اور سوچ کے سامنے سول منتخب حکومت کی پسپائی کہا جائے گا۔ پارلیمانی نظام حکومت میں اسے پارلیمنٹ کے اختیار پر حملہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔

عمران خان کی یہ بات اگر درست ہے کہ ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کی کوششیں اس لئے ناکام رہی ہیں کہ سول ملٹری ہم آہنگی موجود نہیں تھی تو اس بات کا کیا جواب ہو گا کہ نواز شریف نے جب اپنے انتخابی ایجنڈے کے مطابق بھارت سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کی تھی تو انہیں ’مودی کا یار‘ قرار دینے کی مہم قومی سطح پر چلائی گئی تھی۔ تاہم اس سال برسر اقتدار آنے والی ایک پسندیدہ حکومت کے بعد وزیر اعظم کے بھارت کی طرف دوگنی رفتار سے بڑھنے کے دعوؤں کو خوش آئیند اور عین ملکی و قومی مفاد میں سمجھا جارہا ہے۔ داخلی سیاست میں ان پہلوؤں پر غور کئے بغیر بھارت کے ساتھ یا خارجہ معاملات میں کوئی ایسی حکمت عملی تیار ہونے کا امکان نہیں ہے جو دنیا کے دیگر دارالحکومتوں میں بھی قابل قبول ہو ۔

حکومت اور فوج کو یکساں طور سے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل دو ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کا کام ایک ملک میں آباد مذہبی گروہ کو کوئی سہولت دے کر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت نے کئی ماہ کے التوا کے بعد گزشتہ ہفتہ کے دوران ہی کرتار پور راہداری کے حوالے سے پاکستانی پیش کش کو قبول کیا تھا کیوں کہ سیاسی طور سے اس کے لئے سکھوں کے جذبات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن پاکستانی قیادت کا یہ سمجھ لینا نادانی ہو گی کہ ایک چھوٹی مذہبی اقلیت کی جذباتی وابستگی کو بنیاد بنا کر دونوں ملک پیچیدہ اور سنگین باہمی اختلافات کو ختم کرسکتے ہیں۔

باقی اداریہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali