فہمیدہ ریاض۔۔۔ بولڈ اینڈ جینئس


مجھے لکھنا تو کچھ اور تھا لیکن ہوا یہ کہ فہمیدہ چلی گئیں اور اب فہمیدہ کے علاوہ کسی اور کے بارے میں کیسے لکھوں۔ ساٹھ کی دہائی کے اواخر اور ستر کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں نوجوانی کے دور میں داخل ہونے والی نسل انقلاب کے رومان میں مبتلا تھی، یہ خواب دیکھنے والی نسل تھی جو خود کو ڈی کلاس کرنے کے چکر میں رہتی تھی ۔ ہمیں تو غربت میں بھی رومانس نظر آتا تھا۔ 1968میں جب میں بی اے فائنل کرنے زبیدہ گورنمنٹ کالج حیدرآباد گئی تو فہمیدہ وہاں سے جا چکی تھی لیکن کالج کے درو دیوار میں اس کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ لڑکیاں اس کی بغاوتوں، اس کی شاعری، اس کے ریڈیو پروگراموں کی بات کرتی تھیں۔ اس نے ایوب خان کے خلاف کالج کی عمارت پر سیاہ جھنڈا لہرایا تھا۔ اختیاری مضامین میں اس نے بدھ مت پڑھنے پر اصرار کیا تھا اور کالج انتظامیہ کو مصیبت پڑ گئی تھی کہ صرف ایک طالبہ کے لئے بدھ مت پڑھانے والے لیکچرر کو کہاں سے ڈھونڈھ کر لائیں۔ کالج کے ہوسٹل میں نجمہ سے دوستی ہو گئی جو فہمیدہ کی چھوٹی بہن ہے جس نے زندگی کے ہر موڑ پر فہمیدہ کا ساتھ دیا۔ لیکن میں تو اس وقت کی بات کر رہی ہوں جب فہمیدہ شادی کے بعد لندن جا چکی تھی اور بی بی سی کے لئے بھی کام کر رہی تھی اور ھمارا یہی خیال تھا کہ وہ لندن میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہے۔ ہم تو اس کی شاعری کا مجموعہ’’پتھر کی زبان‘‘ پڑھ کر حیران ہوتے رہتے تھے کہ اس لڑکی نے اتنی کم عمری میں اتنے سارے کام کیسے کر لئے۔ بعد میں فہمیدہ نے اپنی اس شاعری کو Disown کر دیا تھا لیکن ہمیں تو وہ آج بھی بھلائے نہیں بھولتی:

میرا حوصلہ سر کو زانو پہ رکھے

خجالت سے آستین میں منہ چھپائے

بڑی دیر سے سسکیاں لے رہا ہے

میری بے بسی مجھ پہ ظاہر ہے لیکن

تمہاری تمنا۔ تمھاری تمنا

بی اے کا امتحان دینے کے بعد میں کراچی یونیورسٹی چلی آئی، نجمہ کی شادی ہو گئی اور کچھ عرصہ کے لئے رابطے منقطع ہو گئے۔ فہمیدہ سے میری ملاقات اور دوستی 1973 یا 1974 میں ہوئی جب میں روزنامہ مساوات میں کام کر رہی تھی۔ فہمیدہ لندن چھوڑ کر کراچی آ گئی تھی اور ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں کام کر رہی تھی۔ اس کی شاعری کا مجموعہ ’’بدن دریدہ‘‘ شائع ہو چکا تھا جس نے اردو داں حلقے کے مرد حضرات میں تھر تھلی مچا دی تھی۔ ان کے لئے یہ تصور بھی محال تھا کہ ایک عورت اتنی سچائی کے ساتھ جنسی تجربے کے بارے میں بات کر سکتی ہے۔ ہم تصور ہی کر سکتے ہیں کہ فہمیدہ کو کس قسم کے فون آتے ہوں گے اور مرد حضرات اس کے بارے میں کس قسم کی باتیں کرتے ہوں گے۔ میں اس کی چھوٹی بہن کی دوست پہلے تھی شاید اسی لئے اس نے ایک آدھ کے علاوہ مجھے کوئی بات نہیں بتائی۔

فہمیدہ کی یاد میں دی سیکنڈ فلور ٹی ٹو ایف میں ہونے والے اجلاس میں عطیہ داؤد نے کہا تھا کہ لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ فہمیدہ نے ظفر اجن سے شادی کیوں کی اور انہوں نے فہمیدہ کی زبان میں ہی اس کی وجہ بھی بتائی تھی۔ میں اس زمانے میں فہمیدہ کے کافی قریب تھی۔ اور میری رائے ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتی ہے لیکن مجھے یوں لگتا ہے کہ بدن دریدہ کی اشاعت کے بعد کچھ حلقوں نے ایک طوفاں بد تمیزی مچا رکھا تھا ۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ اس سے ڈر کر تو ڈر کا لفظ فہمیدہ کے لئے استعمال کرنا اچھا نہیں لگتا ۔ اس لئے صرف اتنا کہوں گی کہ شاید اس طوفان بدتمیزی سے گھبرا کر انہوں نے ظفر اجن سے شادی کر لی تھی۔

شعرو ادب کی ایک انتہائی بلند پایہ شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ فہمیدہ ایک نظریاتی اور سیاسی ایکٹوسٹ بھی تھی۔ اس نے اپنے نظریات کی خاطر بہت تکالیف بھی اٹھائیں اور قربانیاں بھی دیں یہاں تک کہ جلا وطنی بھی اختیار کی ۔ بد قسمتی سے اس وقت ہم لوگ چین اور سوویت یونین کے اختلافات کی وجہ سے بیجنگ نواز اور ماسکو نواز حلقوں میں بٹے ہوئے تھے ۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ اس حوالے سے میری اور فہمیدہ کی تیز و تند بحث ہو گئی تھی اور احفاظ ہم دونوں کے بیچ میں کھڑے شرمندگی کے ساتھ مسکرا رہے تھے۔ فہمیدہ ایک افریقی ملک کے حوالے سے سوویت یونین کی حمایت کر رہی تھیں اور میں چین کا ساتھ دے رہی تھی۔ اب سوچتی ہوں تو اپنی بیوقوفی پہ ہنسی آتی ہے کہ دونوں طاقتوں کے اپنے مفادات تھے اور ہم بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بنے ہوئے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ضیا الحق کے دور میں فہمیدہ کو ہندوستان اور ہمیں چین جانا پڑا۔

طویل وقفوں کے بعد جب بھی ملاقات ہوئی، اسی محبت اور اپنایت سے ملیں۔ بیٹے کی اچانک موت کے صدمے سے وہ ڈھ گئی تھیں مگر ان کی تخلیقی صلاحیتیں پھر بھی ابھر کر سامنے آتی رہیں۔ انہوں نے جتنی اچھی شاعری کی اتنی ہی اچھی نثر بھی لکھی۔ وہ صحیح معنوں میں ایک جینئس خاتون تھیں لیکن ہم نے ان کی ویسی قدر نہیں کی جیسی کرنی چاہئیے تھی۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد عورت تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).