بیٹا! ہر مرد تمہارے باپ جیسا نہیں ہو سکتا


اکثر گھرانوں میں قدرت نے مرد و زن کی تعداد کا تناسب اعتدال کو مدنظر رکھ کر کیا ہوتا ہے، لیکن کچھ گھرا نے ایسے بھی ہو تے ہیں جہاں مردوں یا خواتین کی تعداد برا ئے نام ہو تی ہے۔ ایسے گھرا نے جہاں لڑکیاں نہیں ہوتیں وہاں لڑکیوں کی کمی کو نا صرف شدت سے محسوس کیا جا تا ہے بلکہ لڑکوں کی شادی بھی جلد کرنے کی اسی لیے کوشش کی جاتی ہے کہ لڑکی کے آنے سے درو دیوار سنور جا ئیں گے۔ لیکن وہ تعلیم یافتہ وسیع ذہن رکھنے والے گھرا نے جہاں لڑکیوں کی اکثریت تو ہوتی ہے۔ لیکن کارِ زندگی کرنے کے اور اعلیٰ مقصد کے حصول میں ان کے لڑکی ہونے کو اہمیت نہیں دی جاتی، اور اعلی تعلیم کے ساتھ ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے سارے مواقع فراہم کیے جا تے ہیں وہاں ان کی شادی یا کسی لڑکے کی خاندان میں شمولیت کی اتنی چاہ نہیں ہوتی۔

ایسے گھرانوں میں اکثر روایتی پابندیوں کی وجہ سے غیر مردوں یا خاندان کے کزنز وغیرہ سے بھی دوستی نہیں ہوتی اس لیے ایسی خواتین کو مردوں کی نفسیات، ان کے عادات و اطوار کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں ہو تی۔ ان کے گھر میں صرف ایک ان کے والد ہوتے ہیں جو اپنے گھرانے کی گھر اور باہر کی تمام ضروریات احسن طریقے سے پوری کرنے کی کوششوں میں خود کو الجھائے رکھتے ہیں۔ یہ اپنی بیٹیوں، بہنوں اور حتیٰ کہ اپنی بیوی کے لیے بھی بے حد شفیق ہوتے ہیں۔

فاطمہ میری گہری دوست ہے، اس کے میاں کا نام کمال ہے۔ اس کی چار بہنیں تھیں۔ وہ عمر میں ان سب سے چھوٹا تھا، اس کی شخصیت میں کچھ زنانہ نزاکتیں سگھڑ پن، مہذب اندازِ گفتگو اور گھریلو امور سے کماحقہ واقفیت واضح نظر آتی تھی۔ وہ تو شادی بھی نہیں کرنا چا ہتا تھا س کی بہنوں نے زبر دستی گونتھ گانتھ اس کی شادی فاطمہ سے کر دی تھی۔ یہاں میاں بیوی کا معاملہ یکسر الٹ تھا۔ بیوی میاں اور میاں بیوی کے کردار میں ڈھل چکے تھے۔

پہلے وہ اپنی بڑی بہنوں کے حکم پر چلتا تھا اب بیوی کی ہر بات بلا چوں و چرا مانتا تھا۔ فاطمہ اکثر مجھ سے اپنے شوہر کے مہذب رویے کی تعریف کیا کرتی۔ واقعی کمال تھا بھی سارے مردوں سے مختلف، بیوی کی ناز برداریاں کرنا، گھریلو کاموں میں اس کا ہاتھ بٹانا اور اس کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھتا۔ گھر سے ہی اسے خواتین سے آہستہ لہجے میں بات کرنے اور خیال رکھنے کی تربیت ملی تھی۔ کمال کو بھی بیٹا نہ ہو نے کا کوئی ملال نہ تھا۔ وہ اپنی بیٹیوں کے کسی شوق میں مزاحم ہوا نہ ان کی کسی صلاحیت کے آڑے آیا۔

ساری عمر اپنی بڑی بہنوں کے حکم پر چلنے والا کمال اب اپنی بیوی کی جنبشِ ابرو کا منتظر رہتا۔ گو کہ اس میں کچھ ایسا غلط بھی نہیں، لیکن فاطمہ کی بیٹیاں جب شادی کی عمر کو پہنچیں اور ان کے رشتے آنے لگے تو وہ ہر مرد میں اپنے باپ جیسی صفات تلاش کرتیں۔ اپنے کزنز میں تو کوئی انہیں پسند نہیں آیا ان کے خیال میں سب ہی اوباش تھے۔ کوئی سگریٹ پیتا تھا، تو کوئی چائے زیادہ پیتا تھا تو کسی کو لمبے بال رکھنے کا شوق تھا کوئی رات گئے جاگتا تھا، تو کسی کو صرف انگریزی فلمیں اچھی لگتی تھیں۔ کوئی ان کے با پ کی طرح دین دار نہیں، اور کوئی زیادہ آزاد خیال نکلتا۔ کئی رشتے پسند کیے گئے لیکن شادی کی نوبت آنے سے پہلے ہی تو ڑ دیے گئے۔

فاطمہ بھی اپنی بیٹوں کی ہم خیال تھی۔ اس کا خیال تھا کہ کمال جیسی صفات کا حامل مرد ہی ایک آئیڈیل شوہر ہو سکتا ہے۔

اب کیوں کہ کمال میں ایک بھی آوارہ حرکت نہیں پائی جا تی تھی اس لیے اچھی طرح سوچ بچار کے بعد کسی بھی رشتے کو مسترد کرنے سے پہلے ماں بیٹیوں کی باپ کے ساتھ بیٹھک کے بعد یہ طے کیا جا تا کہ لڑکے والوں سے معذرت کرنا ہی واحد حل ہے۔ ب کوئی بھی رشتہ آنے پر فاطمہ اپنی بیٹیوں کے مزاج کو سمجھتے ہوئے رشتے میں وہ تمام صفات تلاش کرنے کی کوشش کرتی جو اس کے شوہر میں تھیں۔ لیکن ظاہر ہے کمال ایسے بندے مخصوص حالات کی ہی پیدا وار ہوا کرتے ہیں۔ لہٰذہ اب زیادہ چھان پھٹک سے گریز کیا جا نے لگا۔

مناسب رشتے دیکھ کر راحین اور افشاں کی شادی کر دی گئی، اور وہ اپنی سسرال سدھاریں۔ راحین کا شوہر بالکل اس کے باپ جیسی صفات کا حامل تھا۔ دونوں داماد ہر لت، نشے اور بد عادت سے دور تھے۔ لیکن کچھ ہی سال گزرے تھے کہ راحین ناراض ہو کرگھر بیٹھ گئی فاطمہ نے مجھے بتا یا کہ راحین کا میاں اپنی دوست سے شادی کرنا چا ہتا تھا، اس کا کہنا تھا کہ راحین نے ہی اس کے دماغ میں گھسا دیا تھا کہ کسی غیر عورت سے دوستی کرنا جائز نہیں۔

وہ اس کی بچپن کی دوست تھی، اب کیوں کہ اس کی دوست کو طلاق ہو گئی تھی اس لیے وہ محض اخلاقی مدد کے لیے اس کے پاس جایا کرتا تھا یا کبھی کبھا ر وہ اس سے ملنے آجاتی تھی، لیکن کیوں کہ راحین کی باپ کی کسی غیر عورت سے کبھی دوستی نہیں رہی تھی اس لیے وہ دونوں کی دوستی ختم کروانے کے درپے ہو گئی۔ راحین کے میاں کو اس کا یہ ہی حل نظر آیا کہ وہ اس نا محرم کو محرم بنا لے۔

فاطمہ کی دوسری بیٹی، افشاں کا میاں بالکل اس کے باپ، کمال کے مزاج کا تھا اس کا ہر طرح خیال رکھتا، اس سے مہذب انداز میں بات کرتا۔ وہ اس سے کتنی ہی بد تمیزی سے بات کرے وہ اس کے باپ کی طرح ہمیشہ تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتا۔ وہ اس سے بے پنا ہ محبت کرتا تھا۔ فاطمہ اپنے اس داماد سے بڑی خوش تھی۔ افشاں نے شب و روز کی محنت اور تبلیغ سے اسے اپنے باپ جیسی عادات اور ڈھب پر ڈھال لیا تھا۔ کچھ دنوں بعد افشاں کو گھر کے مالی حالات کا کچھ اندازہ ہوا تو اس نے اپنے پرانے آفس میں دوبارہ نوکری شروع کر دی۔

اس کی تنخواہ اس کے میاں سے دو گنا زیادہ تھی۔ پہلے بچے کی ولادت کے بعد افشاں نے نوکری چھوڑنا چا ہی تو اس کے میاں نے اپنی نوکری یہ کہہ کرچھوڑ دی کہ میں بچوں کی دیکھ بھا ل کروں گا تم آرام سے نوکری کرو کیوں کہ تمہاری تنخواہ مجھ سے کہیں زیادہ ہے۔ اور ایسا ہی ہوا وہ پہلے سے زیادہ اس کا خیال رکھنے لگا۔ اس کی ہر بد تمیزی برداشت کرتا۔ اس کے ابرو کے اشارے کا منتظر رہتا، لیکن افشاں کو جانے کیا ہوا وہ گھر چھوڑ کر میکے آکر بیٹھ گئی۔ آج صبح فاطمہ نے فون پر بتایا کہ افشاں نے خلع کے لیے عدالت میں درخواست دے دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).