خواب آنکھوں میں رہنے دو


\"jehangirمیں اپنی فائل لے کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جب چوتھی منزل تک پہنچا توتھک چکا تھا۔ میں نے جس عدالت میں جانا تھا وہ اسی چوتھے فلور پر تھی۔ ویسے یہ عمارت چھے منزلہ ہے۔ برقی سیڑھیاں بھی موجود ہیں لیکن وہاں رش اتنا ہوتا ہے کہ بندہ سوچتا ہے ہمت کرکے سیڑھیاں ہی چڑھ لی جائیں تو بہتر ہے۔ میں ایل ڈی اے پلازہ اسلام پورہ کی بات کر رہا ہوں جہاں دیوانی اور فیملی عدالتیں ہیں۔

اس عدالت کے سامنے پہنچنے کے بعد جہاں میرے مقدمے کی آج پیشی تھی، میں نے سوچا مقدمے میں پیش ہونے سے پہلے تھوڑا سا آرام کرلوں۔ میں ابھی وہیں تھا کہ میری نظر پانچویں فلور کو جانے والی سیڑھیوں پر پڑی۔ ایک لڑکی سیڑھیوں پر بیٹھی ہے اور اس سے ایک سیڑھی نیچے ایک پانچ چھے سال کی بچی اس لڑکی کی گود میں سر رکھ کر سو رہی ہے۔ لڑکی کے چہرے پر اداسی، افسوس اور تھکاوٹ عیاں تھی لیکن اس کی گود میں سوئی ہوئی بچی فرشتہ لگ رہی تھی۔ لڑکی حسرت کی تصویر لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے لگ رہا تھا جیسے ان کی چمک کہیں کھو گئی ہو اور خواب کسی نے چھیں لئے ہوں۔ میں کافی دیر اس ماں بیٹی کو دیکھتا رہا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں کیوں آئی ہوں گی۔ لیکن پھر میں نے سوچا آخر پوچھ تو لوں شاید اس کی کوئی مدد کر سکوں کیوں کہ وکالت کرتے ہوئے جتنا بھی عرصہ گزر چکا ہے مجھے اس ماں بیٹی سے زیادہ کسی نے متاثر نہیں کیا۔

میں اس کے پاس گیا۔ سلام کیا۔ لڑکی نے سلام کا جواب دیا۔ میں نے پوچھا آپ یہاں سیڑھیوں پر کیوں بیٹھی ہیں۔ سامنے کرسیاں اور بنچیں پڑی ہیں وہاں بیٹھ جائیں اور بچی کو کسی بنچ پر سلا دیں۔

اس نے جواب دیا کہ جب وہ آئی تھی تو اور کہیں جگہ نہیں ملی اس لئے یہاں بیٹھ گئی۔ اس کی بیٹی کو نیند آگئی تو پھر وہاں سے نہیں اٹھی۔ میں نے پوچھا آپ کا کوئی مقدمہ ہے؟ اس نےکہا ہاں اور وہ اپنے وکیل کا انتظار کر رہی ہے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ اپنے وکیل کا انتظار کر رہی ہے تو مجھے اور بھی افسوس ہوا کہ پتا نہیں اس کا وکیل کہاں ہو گا اور کب آئیگا۔ کیوں کہ خواہ مخواہ انتظار کروانا اور لوگوں کو بلا وجہ عدالتوں میں روکے رکھنا ہمارے بہت سارے وکیل بھائی اسی کوحقیقی وکالت سمجھتے ہیں۔ میں نے پھر پوچھا کہ کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟۔ اس نے حیرانی سے میری طرف دیکھا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ ایسے کیوں دیکھ رہی ہے۔ اس نے شاید یہی سوچا ہوگا کہ میں فیس کے چکر میں ہوں۔ وہ ابھی مجھے دیکھ ہی رہی تھی کہ میں بولا دیکھیں آپ کی بیٹی کو اس طرح سوتے ہوئے دیکھ کر مجھے ترس آگیا۔ آپ بتائیں میں آپ کی اگر کوئی مدد کر سکا تو مجھے خوشی ہو گی۔ اگر آج صرف تاریخ لینی ہےتو میں یہ کر سکتا ہوں اس کے بعد آپ گھر چلی جائیں۔

اس نے کہا کہ نہیں تاریخ نہیں لینی آج اپنی بیٹی کی اس کے باپ سے ملاقات کرانی ہے اور پچھلے تین مہینے کا خرچہ نہیں ملا وہ بھی لینا ہے۔ وکیل صاحب نے کہا تھا وہ آج کی پیشی پر ضرور خرچہ لے کر دیں گے۔ انہیں کا انتظار کر رہی ہوں۔ آپ کا شکریہ۔ میں نے سلام کیا اور اپنے مقدمے میں پیش ہونے چلا گیا۔ میں واپس آیا تو وہی لڑکی ایک وکیل صاحب کے پیچھے جارہی تھی اس نے اپنے بیٹی کو اٹھایا ہوا تھا اور اسے بار بار جگانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ بچی مشکل سے آنکھیں کھولتی، سر اوپر اٹھاتی اور پھر اپنی ماں کے کندھے پر گر پڑتی اور آنکھیں بند کر لیتی۔ اسے شاید خوب نیند آئی ہوئی تھی اور وہ ابھی سونا چاہتی تھی۔ میں وہاں سے چلا آیالیکن میرے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا کہ آخر کس ظالم کی نفرت،ہٹ دھرمی اور جہالت نے اس لڑکی کی جوانی اور خوشی چھین لی ہے اور اس معصوم بچی کا بچپن۔ ہر وہ شخص ظالم اور مجرم ہے جوان دو ماں بیٹیوں کی آنکھوں سے خوشی اور روشنی چھن جانے کی وجہ بنا۔

وہ دونوں چہرے آج بھی میری نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں اور مجھے اپنے معاشرے کی پست اقدار سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ یہ صرف ایک کہانی ہے روزانہ ایسی سینکڑوں کہانیاں عدالتوں میں ملتی ہیں۔ اللہ نے جس چیز کی اجازت دے کر سب سے زیادہ نا پسند کیا وہ طلاق ہے۔ آخر اس حد تک ہم بے حس کیوں ہو گئے ہیں۔ ایک چھوٹی سی بات سے ناراضی شروع ہوتی ہے اور طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ میں نےطلاق کے بعد تقریبا اسی فیصد لوگوں کو پچھتاتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ بعد میں آ کر کہتے ہیں کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے اس ماں باپ پرجن کے ضد کی وجہ سے ان کی اولاد کا یہ حال ہوجائے کہ ان کی جوانی عدالتوں کے چکر لگانے میں گزر جائے اور ان کے بچے عدالتوں ہی میں ہر پیشی پر باپ یا ماں سے قیدیوں کی طرح ملاقاتیں کر کے جوان ہوں۔

ایسا نہیں ہر گز نہیں کہ ہر طلاق بغیر کسی معقول وجہ کے ہوتی ہے لیکن اگر ہم اپنے اندر برداشت پیدا کر لیں اور ہر اس طرح کے معاملے کو الجھانے کی بجائے صحیح نیت سے سلجھانے کی کوشش کریں تو تقریبا ہم اسی فیصد سے زیادہ زندگیاں تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ ان کی آنکھوں چمک برقرار رکھ سکتے ہیں اور خواب چھن جانے سے بچا سکتے ہیں۔ اس معاشرتی بگاڑ کا ذمہ دار کوئی فرد واحد یا واحد گھرانہ یا کوئی خاص طبقہ نہیں ہے بلکہ ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں اور ہم سب نے مجموعی کوشش سے اسے ٹھیک کرنا ہے۔ خدارا خواب آنکھوں میں رہنے دو۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments